"AYA" (space) message & send to 7575

بھارت اسرائیل نہیں ہے

نہ ہی دوسری طرف غزہ اور حماس ہیں۔ نہیں تو حملہ کرنا ہوتا تو بھارت کو اتنی دقت نہ ہوتی۔ حملہ نہ صرف ہوتا بلکہ اسرائیل کی طرح مسلسل جاری رہتا۔ لیکن غزہ والی صورتِ حال یہاں نہیں۔ بھارت بڑا ملک ہے‘ وسائل زیادہ ہیں‘ معیشت بہت آگے لیکن فوجی طاقت کا توازن ایسا نہیں کہ بھارت اپنی مرضی کر سکے اور پاکستان پر یکطرفہ جنگ مسلط کر سکے۔ بھارت چاہتا ضرور ہو گا لیکن خواہش رکھنا ایک بات ہے اور کچھ کر دکھانا مختلف چیز ہے۔
2019ء میں پلوامہ کا جو واقعہ ہوا اور اُس کے بعد جو دراندازی ہوئی بھارت کی طرف سے‘ اُس سارے قصے کا گہرا اثر بھارت کے دفاعی ماہرین کے ذہنوں پر اب تک ہے۔ دراندازی تو ہوئی لیکن ہندوستان کا ایک لڑاکا جہا ز مار گرایا گیا اور ہندوستانی پائلٹ بھی پکڑا گیا۔ تب یہ فکر ہندوستان میں پیدا ہوئی تھی کہ اُن کی دفاعی طاقت بڑھنی چاہیے۔ دفاعی بجٹ میں اضافہ بھی ہوا لیکن ہندوستان کے دفاعی ماہرین خود اعتراف کرتے ہیں کہ بھارت کی دفاعی قابلیت اُس معیار کی نہیں جیسا کہ وہ چاہتے ہیں۔ بہت سا اُن کا دفاعی ساز وسامان پرانے وقتوں کا ہے اور جسے سٹیٹ آف دی آرٹ دفاعی ساز وسامان کہا جا سکتا ہے اُس کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ اُس قسم کی دفاعی برتری ہوتی تو ایک سرجیکل سٹرائیک کرنے میں بھارت نے کوئی دیر نہیں لگانی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ جنگی جنون آسمانوں کو چھو رہا ہے اور اُن کے ٹی وی چینل دیکھے جائیں یا کئی دفاعی تجزیہ کاروں کی باتیں سنیں تو لگتا ہے کہ حملہ آج شام نہیں تو کل ہونے والا ہے۔ مگر بھارت ایسا کر نہیں سکتا۔ اگر ہمارے شہر اُن کی فضائی رینج میں ہیں تو بھارت کا بھی کوئی حصہ نہیں جہاں ہماری مار نہ ہو سکے۔ ایک دو روز پہلے نیویارک ٹائمز میں پاک بھارت دفاعی توازن پر ایک بہت عمدہ مضمون چھپا ہے‘ اُسے ہمیں پڑھ لینا چاہیے۔
پاکستان کی طرف سے بھی بڑے دھواں دھار قسم کے بیانات آئے ہیں اور شاید پاک بھارت تعلقات کا یہ خاصا ہے کہ جب کسی وجہ سے بھی تناؤ بڑھتا ہے تو اس قسم کے بیانات دونوں اطراف سے جاری ہونے لگتے ہیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی Panic نہیں پھیلا۔ لوگوں کا ردِعمل بڑا نارمل قسم کا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ اختصار سے کام لینا اور بڑھکوں پر نہ اُترنا ایک پُراعتماد قوم کی نشانی ہوتی ہے۔ اسرائیل کا ذکر اوپر چھڑا تو اُسی کا حوالہ دیا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اپنی جنگی صلاحیت یا مہارت کے بارے میں زیادہ بڑے دعوے نہیں کرتا۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں جو کرنا ہو کر دکھاتا ہے۔ بھارت میں جو جنون زیادہ نظر آتا ہے اُس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خواہشات اور کچھ کرنے میں کافی فاصلہ ہے۔ ''سبق‘‘ تو وہ سکھانا چاہیں گے لیکن وہی پرانی بات کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔
اس بات پر البتہ ماتم کیا جا سکتا ہے کہ یہ کوئی آسمانی فیصلہ نہیں تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ سے ہی تناؤ کا شکار رہیں۔ آپس کے مسائل تو ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر کوشش کی جاتی اور اگر مدبرانہ صلاحیتیں دونوں اطراف ہوتیں تو تعلقات قدرے نارمل بھی ہو سکتے تھے۔ کہتے ہم اتنا ہیں کہ پرانی تہذیبوں کے امین ہیں لیکن اس کا وہ حق ادا نہیں ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ اور اب تو حالات ایسے ہیں کہ کچھ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ بہتری کی طرف کب کوئی قدم اٹھایا جاسکے گا۔
بھارت کے ساتھ بگڑتی ہوئی صورتحال پاکستان کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ جان کر کہ بھارت اپنی مرضی نہیں کر سکتا پاکستان کے لیے باعثِ اطمینان ہے۔ اس جانکاری سے پاکستان کے حوصلے بڑھتے ہیں‘ لیکن کتنا اچھا ہو کہ ایسے موقع پر ہم یہ کہہ سکیں کہ دفاعی تیاریوں کے ساتھ اندرونی طور پر بھی ہماری صفیں مضبوط ہیں۔ صرف بیرونی محاذ ہو پھر تو بات اور ہے لیکن داخلی سطح پر ایسی کھینچا تانیاں بھی ہیں جن کے نہ ہونے سے ملک وقوم کی حیثیت زیادہ بہتر لگے۔ جہاں ہندوستانی ارادوں پر ضرور نظر رکھنی چاہیے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اندرونی سیاسی استحکام کی گنجائش پیدا کی جائے۔ سیاسی محاذ آرائی ختم ہو اور ہر چیز قانون اور آئین کے دائرے میں لائی جائے تو اُس سے نہ صرف داخلی اطمینان بڑھے بلکہ قومی وحدت زیادہ نمایاں نظر آنے لگے۔
سندھ میں شاہراہوں کی بندش کا سلسلہ کیوں نہیں ختم ہو رہا؟ نہروں کے مسئلے پر وفاقی حکومت کا اور مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ آ چکا ہے لیکن ایک حتمی قسم کا نوٹیفکیشن جاری کیوں نہیں ہوتا تاکہ سندھی عوام کی تشویش کا ازالہ ہو سکے اور احتجاج کے دروازے بند ہوں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا یہ دیکھے کہ اس دیس میں قطعاً کوئی نفاق نہیں اور بیرونی خطرے کے سامنے ایک مضبوط دیوار کی مانند قوم متحد ہے۔ مسلح افواج نے تو اپنا کام کرنا ہے لیکن سیاسی اور قومی قیادت پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قومی معاملات‘ جو بھی ہوں‘ بطریق احسن حل ہوں اور قوم ایک آواز سے بولے۔
پی ٹی آئی کے ساتھ جو مسائل بنے یا جنہیں مسائل سمجھا گیا وہ ایک خاص تناظر میں پیدا ہوئے۔ تحریک عدمِ اعتماد کا ایک بیک گراؤنڈ تھا۔ تحریک ہو گئی‘ اُس کے بعد بہت کچھ ہوا۔ لیکن پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ ایک نئی صورتحال نے جنم لے لیا ہے۔ پرانی چیزیں اور پرانے واقعات ماضی کا حصہ ہو چکے ہیں۔ اب ایک نئی شروعات کی ضرورت ہے‘ ہمیں آگے کو دیکھنا ہے اور آگے کو بڑھنا ہے۔ اس لیے پرانی رنجشیں کوئی تھیں بھی تو اُنہیں اب ختم کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ خاص کر کے موجودہ بیرونی صورتحال کے تناظر میں۔ پی ٹی آئی نے جو کہا ہے کہ اس نازک موقع پر بڑی جماعت کے لیڈر کو جاری قومی گفتگو میں شامل کیا جائے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ قومی وحدت کی بات ہو تو مکمل بات ہونی چاہیے۔ 1940ء میں جب جرمنی نے فرانس پر حملہ کیا تھا تو برطانیہ کا وزیراعظم نیول چیمبرلین تھا۔ جنگ سے پہلے چیمبرلین کا قدکاٹھ بہت تھا لیکن جنگ کے دوران جب فرانسیسی اور برطانوی افواج کی پسپائی ہوئی تو اس احساس نے شدت اختیار کر لی کہ قیادت کیلئے چیمبرلین موزوں نہیں۔ ونسٹن چرچل کو سیاسی اعتبار سے بہت سے حلقوں میں اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن جنگ چھڑی تو باقی اعتراضات کو بالائے طاق رکھ کر برطانوی قوم کی قیادت چرچل کے سر سونپی گئی۔ ہرگز یہ مدعا نہیں کہ یہاں کوئی چرچل ہے یا یہاں ایسے فیصلے ہونے چاہئیں۔ لیکن سیاسی محاذ آرائی کا باب ختم ہو تو اس میں قوم کی بہتری ہے۔
بھارت کا دفاعی دھیان بٹا ہوا ہے۔ اگر ایک نظر سے پاکستان کو دیکھتا ہے تو دوسری نظر اُسے چین کی طرف رکھنی پڑتی ہے۔ پچھلے تین چار سالوں میں مقبوضہ کشمیرمیں جو چین کے ساتھ بارڈر ہے وہاں پر بھاری ڈِپلائمنٹ کرنی پڑی ہے۔ پاکستان سے کچھ معاملات بگڑتے ہیں تو بھارت کو چین کی طرف سے فکر لاحق رہے گی۔ ہمارا دھیان بٹنا نہیں چاہیے۔ اس لیے بلوچستان کی صورتحال کو سنبھالا دینے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے عوام کی طرف سیاسی پیش رفت ہونی چاہیے۔ بات چیت کا کوئی سماں بندھے۔ ناراضی کم ہو۔ قومی سیاست میں سوچ کے دائرے کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
فی الحال بھارت سے کشیدگی کی وجہ سے باقی چیزیں پسِ پشت چلی گئی ہیں۔ لیکن وہ مسائل ختم نہیں ہوئے۔ کشیدگی کے بادل چھٹیں گے تو اُن مسائل کی طرف دھیان دینے کی ضرورت رہے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں