اختلاف رائے بری چیز نہیں۔ زندہ، فعال اور غور و فکر کرنے والے معاشروں میں یہ ناگزیر ہے۔ کسی بھی سماج میں کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہوتا، جس پر سب کا اتفاق ہو۔ معاشرے کے سب ہی صاحب الرائے افراد کی ایک ہی رائے ہو۔ ایسا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ منطقی اعتبار سے ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے۔ قدیم یونانی اور رومن تہذیبوں سے لے کر آج تک یہی ہوتا رہا ہے۔ ایک سماج کے اندر ایک مسئلے پر ایک انسان کی رائے دوسرے انسان سے مختلف رہی ہے۔ کیا درست ہے، کیا غلط ہے؟ کیا جائز ہے، کیا ناجائز ہے ؟ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ؟ اس پر ہر دور میں ہمیشہ ایک سے زیادہ آرا رہی ہیں۔ برسہا برس سے دانشور اور فلسفی سچ سے جھوٹ کو الگ کرنے یا پھر جائز اور ناجائز میں فرق کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس سلسلۂ عمل میں ان لوگوں نے خود بھی بہت تلخ سبق سیکھے، اور کچھ سبق ہمارے لیے بھی چھوڑے، جن سے آج ہم سب سیکھ رہے ہیں۔ ان میں ایک اہم سبق یہ ہے کہ سچ پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوتی۔ کوئی معاشی طبقہ، کوئی سیاسی گروہ، کوئی مکتبۂ فکر، کوئی مذہبی فرقہ یا کوئی روحانی سلسلہ سچائی کا وارث ہونے یا اس پر اجارہ داری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سب کو یہ حق ہے کہ وہ صرف اپنی رائے کو ہی سچ مانیں، مگر ان کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی اور کو بھی یہ رائے سچ ماننے پر مجبور کریں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس سے انسانی فکر و عمل کی آزادی کا آغاز ہوتا ہے۔ آزادیٔ اظہارِ رائے، مذہبی آزادیوں، سیاسی اور سماجی آزادیوں کے تصورات یہیں سے شروع ہوتے ہیں۔ ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے اور اس کے اظہار کا حق ہے۔ دنیا کے تمام جمہوری اور ترقی یافتہ معاشروں میں اس اصول کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان تمام ممالک کے آئین و قانون میں یہ اصول شامل ہیں۔ معاشرے کی ایک غالب اکثریت اس اصول کو دل و جان سے تسلیم کرتی ہے‘ اور یہ غالب اکثریت اپنی مدِمقابل اقلیت کے اس حق کا پورا تحفظ کرتی ہے کہ وہ اس اصول سے پورا اختلاف کر سکتے ہیں‘ اور ببانگ دہل اس اختلاف کے اظہار کا حق رکھتے ہیں۔
پاکستان میں بھی اس حق کو اصولی طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 19 میں اس اصول کو سماج کی غالب اکثریت نے اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے تسلیم کیا ہے۔ آئین کے اس آرٹیکل میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ہر شہری کو تقریر اور اظہار کی آزادی ہے۔ پریس کی آزادی ہے‘ لیکن یہ آزادیاں کچھ شرائط کی پابند ہیں، اور کچھ ایسے معاملات بھی ہیں، جن پر شہریوں کے تقریر اور اظہار کے حقوق محدود ہیں۔ ان معاملات کی فہرست میں اسلام کی عظمت، پاکستان کی یا اس کے کسی حصے کی سالمیت، سکیورٹی اور دفاع، غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات، پبلک آرڈر، شائستگی اور اخلاقیات، توہین عدالت، اور جرم کی ترغیب دینا شامل ہیں۔ گویا ان موضوعات پر آزادیٔ اظہار رائے لامحدود نہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور مسلمہ قسم کی جمہوریتوں میں بھی حقِ آزادیٔ رائے پر بعض اوقات کچھ شرائط عائد کی جاتی ہیں۔ یہ مختلف ممالک کی تاریخی روایات اور ثقافت کے مطابق ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر کینیڈا کے آئین کے مطابق حقِ آزادیٔ رائے ان معقول شرائط کا پابند ہے، جن کا ایک آزاد اور جمہوری سماج میں کوئی معقول جواز پیش کیا جا سکتا ہو‘ یعنی ایک باقاعدہ فہرست بنانے کے بجائے یہ اصول مقرر کر دیا گیا کہ اگر حکومت کسی شہری کے حقِ آزادیٔ رائے پر پابندی عائد کرے تو حکومت عدالت میں یہ ثابت کرنے کی پابند ہے کہ عائد کردہ پابندی کا ایک آزاد اور جمہوری سماج میں معقول جواز موجود ہے۔ کینیڈا کی طرح بیشتر ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں ان حدود و قیود کی ایک باقاعدہ فہرست کے بجائے کچھ رہنما اصول مقرر کر دئیے گئے ہیں۔ یعنی کسی شخص کے حقِ آزادیٔ رائے کو صرف اس وقت محدود کیا جا سکتا ہے جب اس کا کوئی معقول جواز موجود ہو۔ اور ایک آزاد اور جمہوری معاشرے میں اس جواز کی معقولیت کسی عدالت میں ثابت کی جا سکتی ہو۔ مستحکم اور مسلمہ جمہوری معاشروں میں حقِ آزادیٔ رائے تقریباً لامحدود ہے۔ اس پر پابندی کا سوال ظاہر ہے خال خال اور بہت ہی غیر معمولی حالات میں اٹھایا جاتا ہے۔ اگر یہ سوال کھڑا بھی ہو تو اس کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے۔ مثلاً دہشت گردی، نسلی یا مذہبی نفرت وغیرہ۔ عام طور پر یہ اب امر فیصل شدہ ہے۔ اگر کہیں یہ سوال کھڑا ہوتا بھی ہو تو اس کے حل کے عدالتی نظائر موجود ہیں۔ بڑی تعداد میں اس پر کیس لاء موجود ہے۔ جہاں تک نفرت انگیز تقاریر یا مواد کا تعلق ہے، تو اس کے لیے مقامی ضابطۂ فوجداری میں مناسب قوانین موجود ہیں۔ ان طے شدہ قوانین اور روایات کی موجودگی میں عام شہری ریاست یا سماج کی طرف سے کسی قسم کے دبائو کے بغیر اپنا حقِ آزادی استعمال کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں اگرچہ آئین میں ان چیزوں کی فہرست دے دی گئی ہے، جن پر ریاست ایک شہری کا حقِ آزادی محدود کر سکتی ہے، لیکن اس فہرست میں دیے گئے موضوعات پر اظہارِ خیال کرنے کے لیے کیا حدود ہیں؟ ان پر کون سی بات کرنا مناسب ہے، اور کون سی نامناسب، اور ان باتوں کی تشریح اور تعبیر پر اس درجے کا اتفاق موجود نہیں ہے‘ جس کی ضرورت ہے۔ گویا اس میدان میں ایک الجھائو اور تذبذب ہے۔ اس کی وجہ سے ایک شہری محض الزام کی بنیاد پر دوسرے شہری کو بغیر کسی ثبوت و کارروائی کے مجرم تصور کر لیتا ہے۔ یہی طرز عمل بسا اوقات قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنا، یا محض الزام کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنانا یا پھر ملزم کو ہراساں کرنا وغیرہ۔ ریاست ملزم کو قانونی عمل سے گزارنے کی پابند ہے۔ اس کا ایک طریقہ کار ہے۔ یہ طریقہ خود قانون نے متعین کیا ہے۔ اس کے لیے طے ہے کوئی شکایت آنے یا رپورٹ درج ہونے پر پولیس ضابطے کی کارروائی کرے۔ تفتیش کے بعد معاملہ ثبوتوں سمیت عدالت میں پیش کر ے۔ عدالت ایک شفاف اور غیر جانبدار قانونی عمل میں ملزم کو صفائی کا پورا موقع دینے کے بعد اس کے حق یا مخالفت میں فیصلہ کرے۔ گویا اس پورے معاملے کو آئین میں درج شدہ طریقہ کار کے مطابق مکمل کیا جائے۔ فریقین سے انصاف ہو‘ اور انصاف کے سارے تقاضے پورے ہوں۔ شکایت کنندہ کو ثبوت اور شہادتیں مہیا کرنے کا موقع دیا جائے۔ ملزم کو صفائی، دفاع اور اپیل کی سہولیات میسر ہوں۔ اچھی طرح سے قائم اور مستحکم سماجوں کا یہی چلن ہے۔ یہ چلن انسان نے صدیوں کے تجربے سے حاصل کیا۔ اس تجربے کی روشنی میں یہ طریقہ اختیار کیا۔ یہ طریقہ تمام مروجہ طریقوں سے افضل ہے۔ یہ واحد طریقہ کار ہے، جس کے تحت سب شہریوں پر آئین و قانون کا برابر اطلاق ہوتا ہے۔ ممکن ہے جو بات ایک شہری کو نامناسب یا اشتعال انگیز لگ رہی ہو، وہ دوسرے شہری کے لیے مناسب اور لطف انگیز ہو۔ ان حالات میں ذاتی پسند و ناپسند، غصے، اشتعال، ذاتی نظریات اور تعصبات سے اوپر اٹھ کر فریقوں کے درمیان غیر جانبدار فیصلے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ضرورت ایک پیشہ ور، آزاد و خود مختار عدلیہ ہی پوری کر سکتی ہے۔ آزادیٔ اظہارِ رائے اور آزاد عدلیہ کا یہ ایک تعلق ہے۔ والٹیر کی سوانحی عمری لکھنے والی انگریز خاتون دانشور ایولن حال نے کہا تھا، جو بات تم کہہ رہے ہو، مجھے اس سے اتفاق نہیں، مگر میں یہ بات کہنے کے تمہارے حق کے دفاع کے لیے جان دے سکتی ہوں۔ کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی بات عدالت کو ناپسند ہو، یا ناگوار گزرے، مگر اگر وہ بات کہنا، کہنے والے کا حق ہے، تو عدالتوں کا فرض ہے کہ وہ اس حق کا تحفط کریں۔ دنیا میں جہاں کئی بھی آج انصاف ہو رہا ہے، وہاں نظامِ انصاف اسی طرح چلتے ہیں۔