بالادست کون ہے؟ پارلیمان یا عدلیہ۔ اس سوال پر عام لوگوں میں خیال آرائی تو سمجھ میں آتی ہے‘ مگر سیاست دانوں اور ججوں کے درمیان اس طرح کا مکالمہ عجیب اور بے وقت سا لگتا ہے۔ اس سوال پر انسانی تاریخ میں ایک طویل، پیچیدہ اور اکتا دینے والی بحث ہو چکی۔ صدیوں کے عمل میں بیشتر نکات پر اتفاق ہو چکا۔ چند ایک ابھی تک زیر بحث ہیں۔ اے وی ڈائیسی کا نام بھلا کس نے نہ سنا ہو گا۔ یہ ایک برطانوی جیورسٹ اور آئینی نظریہ ساز تھا۔ 1885 میں اس نے ایک کتاب لکھی، جس میں اس نے آئین اور قانون پر بحث کی۔ یہ جو لفظ قانون کی حکمرانی ہے، یہ ہم اگرچہ سترہویں صدی میں ہی سن چکے تھے، مگر اسے زبان زدِ عام لانے کا سہرا اے وی ڈائیسی کو جاتا ہے۔ اس کا اصل کام اور وجۂ شہرت یہ کتاب ہے۔ اس کتاب میں اس نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے تصور پر بحث کی، اور اس تصور کو واضح کیا۔ اس نے لکھا کہ انگلستان کے آئین کے تحت یہ پارلیمان کا مطلق اختیار ہے کہ وہ کوئی قانون بنائے یا قانون ختم کرے۔ اور انگلستان کے قانون میں کوئی شخص یا ادارہ ایسا نہیں ہے، جس کے پاس پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کو منسوخ یا مسترد کرنے کا اختیار ہے۔ انگلستان میں بادشاہت پر عوام کے منتخب ادارے یا پارلیمنٹ کی بالادستی تو کافی پہلے تسلیم کی جا چکی تھی، مگر اس پر بحث پھر بھی موجود رہی۔بادشاہت کے بعد انتظامیہ اور عدلیہ کے آئینی تعلق کے تناظر میں یہ بحث آگے چلی، جس پر ڈائیسی کا اصول سامنے آیا۔ لیکن کئی پیچیدہ معاملات پر اب بھی کبھی کبھی یہ بحث سر اٹھا لیتی ہے۔ ابھی گزشتہ سال ہی انگلستان کی سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں ایک بار پھر یہ عندیہ دیا کہ، ڈائیسی اصول اب بھی رہنما اصول کے طور پر قابل قبول ہے، اور انگلستان میں اب بھی پارلیمان کو ہی بالادستی حاصل ہے۔
ڈائیسی اصول کے دو پہلو ہیں۔ ایک مثبت‘ یعنی پارلیمنٹ جو قانون چاہے بنا سکتی ہے۔ اور دوسرا منفی، یعنی کوئی اور شخص یا ادارہ اس قانون میں تبدیلی کرنے یا اس کی تنسیخ کا مجاز نہیں ہے۔ تو پھر عدلیہ اور جج کہاں کھڑے ہیں۔ انگلستان میں تو جج کامن لا کے آقا اور محافظ تصور ہوتے رہے ہیں۔ اپنے میدان میں ان کو مقتدر اور برتر سمجھا جاتا رہا ہے‘ لیکن ڈائیسی نے واضح کیا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے اصول کے مطابق پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے کسی بھی کامن لا کو منسوخ کرنے کی مجاز ہے، اور ججز چاہے کتنا ہی اسے نا پسند کیوں نہ کرتے ہوں، وہ اسے ماننے کے پابند ہیں۔ یعنی ججز کا کام پارلیمنٹ کی منشا کے مطابق اس قانون کی تعبیر اور تشریح کرنا ہے۔ ڈائیسی کا رہنما اصول انگلستان کے علاوہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی مانا گیا۔ مگر ان ملکوں نے اپنی اپنی روایات اور ثقافت کے مطابق اس اصول کو اختیار کیا۔ ارتقائی عمل میں ان ملکوں میں کسی ایک ادارے کی برتری کے بجائے آئین کی برتری کا تصور زیادہ مقبول ہوا۔ آخر عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ ریاست کے ہی تین جزو ہیں۔ ان تینوں کے پاس اپنی اپنی حدود و قیود کے اندر رہ کر اپنے فرائض منصبی سرانجام دینے کے علاوہ کیا راستہ ہے؟ آئین دراصل ان حدود و قیود پر مشتمل ایک سماجی معاہدہ ہے؛ چنانچہ ان قانون پسند اور آزاد ملکوں میں آئینی برتری کا اصول تسلیم کر لیا گیا۔ عوام کے بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق کے تحفظ کے لیے، بل آف رائٹس، یا چارٹر آف رائٹس کی طرح الگ قانون سازی کر دی گئی، تاکہ بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دیا جا سکے۔ جسٹس لا کو بوچی کینیڈا کا ایک نابغہ روزگار قانونی دماغ سمجھا جاتا ہے۔ اس نے اس صورت حال کی تشریح کرتے ہوئے لکھا کہ چارٹر آف رائٹس اینڈ فریڈم کو متعارف کرانے سے کینیڈا پارلیمانی بالادستی کے نظام سے نکل کر آئینی بالادستی کے نظام میں آ گیا ہے۔ اب کینیڈا کے ہر شہری کے پاس وہ حقوق اور آزادیاں ہیں، جو ان سے کوئی حکومت یا پارلیمنٹ واپس نہیں لے سکتی۔ چارٹر کے بعد حکومت کسی شہری کے حقوق تب محدود کر سکتی ہے، جب اس کے پاس اس کا معقول جواز ہو۔ یہ جواز اگر معقول نہیں ہے، تو عدلتوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ حکومت کے اس فیصلے کو منسوخ کر دے۔ مغرب کے کئی ترقی یافتہ اور آزاد ملکوں میں تاریخی طور پر عدالتیں ایسا کرتی بھی رہی ہیں۔ کینیڈا میں عدلیہ کے اندر یہ اتفاق تو موجود ہے کہ ہم آئینی بالا دستی کے دور میں رہتے ہیں‘ اور آئینی بالا دستی کا مطلب، عدالتی بالا دستی نہیں ہے۔ یہ آئین ہے جو برتر ہے، عدالت تو محض اس آئین کی تشریح کرتی ہے۔ مگر عملی صورت یہ ہے کہ یہاں عدالتیں بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے علاوہ پارلیمان کے کام میںکبھی مداخلت نہیں کرتیں۔ مفادِ عامہ کے تحت اگر کسی ایسے مسئلے کو عدالت کے سامنے لایا جائے، جس کو آئینی بنیادوں پر عدالت کو منسوخ کرنا پڑے تو یہ کام بڑے باقار طریقے سے کیا جاتا ہے۔ عموماً کسی قانون میں سقم کی نشاندھی کی جا تی ہے، اور پارلیمنٹ کو اس میں ترمیم یا اضافے کا موقع دیا جاتا ہے۔ یا حکومت کو معقول وقت دیا جاتا ہے کہ وہ مسئلے کا کوئی متبادل تلاش کر لیں۔ اس کے پیچھے منطق یہ ہے کہ یہاں عدالتیں اپنے آپ کو جمہوریت کی کسٹوڈین یا نگران سمجھتی ہیں۔ وہ مسائل کو ایسے طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، جو نظامِ انصاف اور جمہوریت دونوں کی عزت و ا عتبار میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
پاکستان میں بالا دست کون ہے؟ پارلیمان یا عدلیہ؟ اس سوال کا جواب پاکستان کے آئین میں واضح الفاظ میں لکھا جا چکا ہے۔ یہ جواب پاکستان کے تینوں آئین یعنی 1956، 1962 اور 1973 کے دیباچوں میں لکھا جا چکا ہے۔ ان دیباچوں میں یہ درج ہے کہ حاکمیت اعلیٰ خدا کے پاس ہے۔اس کے بعد جہاں تک اختیارات یا بالا دستی کا سوال ہے، تو بالا دستی پاکستان کے عوام کو حاصل ہے۔ اور پاکستان کے عوام اپنے منتخب نمائندوں یعنی پارلیمان کے ذریعے اس اختیار کا استعمال کرتے ہیں۔ گویا پاکستان کے نظام جمہوریت میں پارلیمان کو برتری حاصل ہے۔ اسی طرح عدلیہ کو پارلیمان کی طرف سے کی گئی کسی بھی قانون سازی کا جائزہ لینے، اور یہ دیکھنے کا اختیار ہے کہ پارلیمان کا بنایا ہوا کوئی قانون ملکی آئین سے متصادم تو نہیں۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ پارلیمان اور عدلیہ دونوں کے اختیارات و فرائض تقریباً وہی ہیں، جو مغربی پارلیمانی جمہوریتوں میں یا کامن لا میں ہیں۔ لیکن عملی طور پر جب پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان کوئی اختلافی بات آ جائے تو، اس پر بہت زیادہ شور و غوغا شروع ہو جاتا ہے۔ اس میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں، جن سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ دونوں کے درمیان اختیارات کی جنگ ہے، یا بالا دستی کا سوال درپیش ہے۔ اس طرح ایک سنسنی خیز کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ پاکستان میں پارلیمان اور عدلیہ کی تاریخ ہے۔ ا س تاریخ کے کچھ افسوسناک اور تاریک باب بھی ہیں۔ تاریخ میںکئی بار سیاست دانوں کا، اور کئی بار عدلیہ کا طرز عمل ان کے اختیار اور دائرہ کار سے باہر رہا ہے۔ ہمارے ہاں ماورائے عدالت رومانیت پسندی کی روایت بھی رہی ہے۔ کچھ ایسے جج رہے ہیں، جن کا طرز عمل روایات سے ہٹ کر رہا‘ جس سے یہ تاثر ابھرا کہ ملک میں عدالتی آمریت کی طرف بڑھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان ایک تعمیری مکالمے کا بھی فقدان رہا ہے۔ اکثر اوقات شک اور بد اعتمادی کی فضا رہی۔ ان حالات میں آئینی بالادستی ہی واحد راستہ ہے۔ اس راستے پر چل کر عدلیہ کا وقار اور سیاست کاروں کا اعتبار بحال ہو سکتا ہے۔