انسان اپنی غلطی آسانی سے تسلیم نہیں کرتا۔ تسلیم کر بھی لے تو اس سے سبق نہیں سیکھتا۔ اشرافیہ کا کوئی نمائندہ غلطی کیسے مان سکتا ہے۔ نواز شریف نے میمو گیٹ کے معاملے میں اپنی غلطی تسلیم کی ہے۔ یہ عمل قابل داد ہے۔ مگر اصل بات غلطی تسلیم کرنا نہیں، اس سے سبق سیکھنا ہے۔ ایک مقبول سیاست دان کے لیے دنیا میں سب سے کٹھن کام شائد یہی ہے۔
انسان غلطی سے نہیں سیکھتا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو ماضی کے بھیانک واقعات دہرائے نہ جاتے۔ اور نہ ہی مستقبل میں ہماری اس دنیا میں کسی غلطی کے کوئی امکانات باقی ہوتے۔ بنی نوع انسان کی معلوم تاریخ میں ہم کروڑوں خوفناک اور تباہ کن غلطیاں کر چکے ہیں۔ کچھ ایسی غلطیاں ہیں جن پر ہم بہت پشیمان ہوئے۔ سوگ منایا۔ برسوں تاسف کا اظہار کیا، پھر اٹھے اور اٹھ کر وہی غلطی دہرائی۔ انسانی تاریخ میں جنگوں کا طویل سلسلہ اس کی ایک مثال ہے۔ بہت پیچھے جانے کی ضرورت نہیں۔ پہلی جنگ عظیم کو دیکھ لیں۔ اس سے ہم نے بہت نتائج اخذ کیے۔ خون خرابے کا حساب کتاب کیا۔ تباہی و بربادی کی داستانیں سنائیں۔ پھر جنگ کی ہولناکیوں اور تباہ کاریوں پر تقاریر کیں۔ ادب تخلیق کیا۔ طویل ناول لکھے۔ عظیم ڈرامے لکھے۔ ہزاروںفلمیں بنائیں۔ مگر اس سے سبق نہ سیکھا، اگر سیکھا ہوتا تو دوسری جنگ عظیم کیوں برپا ہوتی۔ پھر اس کے بعد جنگوں کا ایک سلسلہ کیوں چلتا، جو ہنوز جاری ہے۔ چنانچہ بقول شخصے، تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اس سے کوئی کچھ نہیں سیکھتا۔ ہمارے ہاں تو تاریخ سے نہ سیکھنے پر اصرار کچھ زیادہ ہی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان نصف صدی سے بھی کم عرصے میں تین جنگیں ہوئیں۔ ہر جنگ کے بعد دونوں نے اپنے طور پر یہ حقیقت تسلیم کی کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، اس کے باوجود دونوں اگلی جنگ کی تیاری میں جت گئے، آج تک جتے ہیں۔ یہ صرف جنگ تک موقوف نہیں۔ یہی طرز عمل ہر شعبہ زندگی میں مروج ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے طرز حکومت پر تمام اہم رہنما متفق تھے۔ اس بات پر اتفاق ہو چکا تھا کہ فی زمانہ جمہوریت سے بہتر کوئی نظام موجود نہیں۔ یہاں فیصلے کرنے کا اختیار عوام کو ہو گا، جس کا استعمال وہ اپنے نمائندوں کے ذریعے کریں گے۔ پھر ایک فردِ واحد نے پہلی قانون ساز اسمبلی میں بیٹھے عوام کے نمائندوں کو گھر بھیج دیا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت انصاف نے اس پر مہر تصدیق لگا دی۔ وہ دن اور آج کا دن ہم اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ کون حاکم ہے، کون محکوم۔ کون بڑا ہے، کون چھوٹا۔ حکم دینے کا اختیار کسے ہے؟ حکم سننا کس پر لازم۔ ایک نہ ختم ہونے والی بحث ہے۔
ادارے اور حکومتیں کیسے چلتی ہیں۔ اختیارات کی تقسیم کا درست طریقہ کیا ہے۔ کیا چیزیں ریاستوں کو عروج بخشتی ہیں، اور کیا ان کو زوال کی پستی میں دھکیل دیتی ہیں؟ دنیا میں پہلی حکومت کے بننے اور بگڑنے سے لے کر آج تک اس پر بہت کچھ کہا گیا۔ چین میں تقریباً ایک ہزار سال قبل مسیح یہ بحث شروع ہو گئی تھی۔ تاریخ دانوں نے قدیم زو شاہی دور میں سلطنت کے زوال پذیر ہونے اور نئے شاہی خاندان کے ابھرنے کے اسباب بیان کرنا شروع کیے۔ دسویں صدی میں الفارابی نے افلاطون اور ارسطو کے خیالات کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک مثالی اسلامی ریاست کے خدوخال بیان کیے، مگر اس کے ساتھ ساتھ پوری تفصیل سے یہ بھی بتایا کہ حکومتیں ناکام اور تباہ کیسے ہوتی ہیں۔ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے چودھویں صدی میں ابنِ خلدون نے سیاسی اداروں کے عروج و زوال کا تجزیہ تاریخی، سماجی اور معاشی نقطہ نظر سے کیا۔ ارسطو کی طرح اس نے اس بات پر زور دیا کہ انسان کا سماج میں مل جل کر رہنا ضروری ہے۔ یہ مل جل کر رہنا ایک برادری یا قبیلے کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے، جو آگے چل کر ریاست کو جنم دیتا ہے، جس کا کام اپنے شہریوں کے مفادات کی نگہبانی کرنا اور ان کو بیرونی حملوں سے بچانا ہے۔ لیکن اس نے یہ بھی واضح کیا کہ حکومت چاہے جو شکل بھی اختیار کرے، خود اپنی تباہی کے اسباب اس کے اندر ہی ہوتے ہیں۔ جوں جوں حکومت کے پاس زیادہ اختیارات آتے جاتے ہیں، وہ اپنے شہریوں کے بارے میں فکر کرنا کم کر دیتی ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ اپنے مفادات کے لیے کام کرنے لگتی ہے۔ وہ اپنے ہی عوام کا استحصال کرنا شروع کر دیتی ہے۔ ان سے نا انصافی کرتی ہے‘ اور انہیں تقسیم کر دیتی ہے۔ اس طرح جو ادارہ نا انصافی کو روکنے کے لیے معرض وجود میں آتاہے، خود ہی نا انصافیاں شروع کر دیتا ہے۔ اس عمل میں ایک نئی حکومت کے ابھرنے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ابن خلدون کے نزدیک اس سلسلۂ عمل میں ایک طاقت وراشرافیہ پیدا ہو جاتی ہے ، جس کے سیاسی اور معاشی نتائج بہت بھیانک ہوتے ہیں۔ ابتدا میں عوام سے ٹیکس اس لیے وصول کیے جاتے ہیں کہ ان کو زندگی کی سہولیات دی جائیں۔ مگر آہستہ آہستہ اشرافیہ اپنی عیاشی کے لیے ان ٹیکسوں میں اضافہ کرتی جاتی ہے۔ یہ نا انصافی ہے، جو سماج میں تقسیم کا عمل پیدا کرتی ہے، پیداواری عمل پر اس کے بہت منفی نتائج پڑتے ہیں۔ یہ ریاست کے قیام اور اس کے عروج و زوال کے بارے میں بہت ابتدائی مگر اہم خیالات تھے، جن کو بعد میں جدید دور کے مفکروں اور دانشورں نے زیادہ وضاحت سے پیش کیا۔ آنے والے وقتوں میں کارل مارکس اور آدم سمتھ جیسے نظریہ سازوں نے اس موضوع پر موجود ابہام مکمل طور پر دور کر دیا۔ یہ خیال بڑی حد تک تسلیم کر لیا گیا کہ دنیا کا حقیقی مسئلہ معاشی ہے، اور باقی تمام مسائل اس کے ارد گرد گھومتے ہیں۔
سماج کے اندر تقسیم کے عمل میں خود طبقہ اشرافیہ بھی تقسیم ہوتا ہے۔ ان کے اندر طاقت و اقتدارمیں حصہ داری کے لیے کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔ اس طبقہ اشرافیہ میں شامل کچھ لوگ جمہوریت اور عوام کی رائے لینے کے عمل کو غیر ضروری سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ براہ راست اقتدار پر قابض ہو کر تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں کبھی کبھی انہیں اشرافیہ کے ان لوگوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے، جو عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں، یا جمہوری راستوں کو اقتدار تک جانے کا وسیلہ مانتے ہیں۔ یہ کشمکش پاکستان جیسے معاشرے میں ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ آمریت پسندوں کی طرف سے جمہوری قوتوں کو تقسیم اور کمزور کرنے کی کوشش جاری رہتی ہے۔ اس حقیقت کو نواز شریف سے زیادہ کون جان سکتا تھا۔ وہ طویل عرصے تک اشرافیہ کا بہت ہی اہم ترین حصہ رہے۔ وہ اشرافیہ کے اس محدود گروہ میں شامل رہے، جن کے پاس سیاسی،سماجی طاقت تھی، اور وہ ملکی سیاست پر اثر اندوز ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ایسے میں نواز شریف سے زیادہ کون جانتا تھا کہ آمریت پسند قوتوں کا مفاد سیاست دانوں کی تقسیم میںہے۔ ان کی ضرورت ایک کمزور اور لولی لنگڑی جمہوریت ہے۔ جہاں سیاست کار ہمیشہ ا کھاڑے میں اترے ہوں۔ ان کے سروں پر آمریت کی تلوار لٹکی رہے۔ اب اگر انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا، اس کا اعتراف کیا تو یہ خوش آئند بات ہے۔ مگر غلطی کا اعتراف کافی نہیں۔ اس کا کفارہ بھی ضروری ہے۔ اور یہ کفارہ اس سے سبق سیکھنا ہے۔
سیاست کار اگر اپنے آپ کو عوام کا نمائندہ تصور کرتے ہیں، تو انہیں اس نمائدگی کا حق بھی ادا کرنا ہو گا۔ اور وہ حق یہ ہے کہ عوام کے حق حکمرانی کو بحال کیا جائے۔ اس حق حکمرانی کی واضح تعریف آئین میں درج توہے۔ مگر حالیہ دنوں میں اس باب میں کچھ ابہام پیدا ہو گیا ہے، یا کر دیا گیا ہے۔ اب پھر لوگ گاہے اس بحث میں الجھے ہوئے نظر آنے لگے ہیں کہ اصل طاقت و اختیار کس کے پاس ہے۔ اس کا جواب آئین میں موجود ہے، مگر ایک بار پھر اسے عوامی زبان میں بیان کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ایک بہت ہی سادہ، اور دو ٹوک زبان میں کہ حق حکمرانی صرف عوام کو حاصل ہے۔