فلاحی ریاست کی بات ہمارے سیاست دانوں کا نیا اور پسندیدہ منتر ہے۔ عمران خان اس کے سب سے زیادہ پُرجوش پرچارک ہیں۔ یہ بھی بہت اچھی بات ہے کہ مغرب کے کامیاب نظام کو بطور حوالہ پیش کرنے والے عمران خان امریکہ اور جاپان سے زیادہ سویڈن اور ناروے جیسے نظام کے مداح ہیں، اور ان کی مثالیں دیتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے غریب لوگوں کے لیے یہ ایک اچھی خبر ہے۔ ایک فلاحی اور جمہوری ریاست، ہمارے وقت کا سب سے ترقی پسندانہ اور قابل عمل ماڈل ہے۔ فلاحی ریاست کے بغیر پاکستان جیسی طبقاتی تضاد رکھنے والی ریاست میں غریب عوام کو غربت کی دلدل سے نہیں نکالا جا سکتا۔ اس کا تجربہ مغرب میں کیا جا چکا ہے۔ مغرب میں فلاحی ریاست کے خلاف ہمیشہ بہت ساری قوتیں رہی ہیں۔ ان میں دائیں بازوں کے قدامت پرستوں سے لے کر کچھ آزاد خیالوں تک بھی شامل ہیں۔ اس پر مباحثہ جاری رہتا ہے۔ بے شمار کتب اور مضامین سامنے آتے رہتے ہیں۔ چند برس قبل اس پر ایک کتاب آئی تھی ، جس کی بہت تعریف و توصیف ہوئی ، مگر اس میں پیش کی جانے والی دلیل بہت کمزور اور ناقص تھی۔ کتاب کا نام ہے، چوتھا انقلاب۔ مصنفین جان میکلویٹ اور ایڈرین وولڈرج لکھتے ہیں کہ انیسویں صدی جمہوریت کی فتح کی صدی تھی۔ انیس سو ایک میں دنیا میں کوئی ایک بھی ایسی جمہوریت نہیں تھی ، جس میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوتے ہوں۔ مگر سن دو ہزار تک جن ممالک میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوتے تھے، ان کی تعداد ایک سو بیس تک پہنچ گئی تھی۔ مگر اس کے بعد جمہوریت کوئی کارکردگی نہ دکھا سکی۔
عراق میں جنگ کے بعد اور مصر میں انقلاب کے بعد جمہوریت کی امید درہم برہم ہو گئی۔ سائوتھ افریقہ جیسی مستحکم جمہوریتوں میں کرپشن میں اضافہ ہوا۔ روس ، ترکی اور ہنگری میں آزاد خیالی کا عمل رک گیا۔ ان ممالک کے رہنما جمہوریت کے ساتھ کیوں جڑیں، جبکہ دنیا کی سب سے متحرک معیشت چین غیر جمہوری ہے، اور مغربی جمہوریتیں بد انتظامی کا شکار ہیں۔ مصنفین نے چین کی افسر شاہی کی تربیت کے لیے قائم کردہ سکول کی مثال دیتے ہوئے لکھا کہ جس طرح چین نے چند عشرے پہلے سرمایہ دارانہ نظام کو ری ماسٹر کیا تھا، اب یہ فنِ حکمرانی کو ری ماسٹر کر رہا ہے۔ اس اکیڈمی میں طلبا کو صرف مغربی سرمایہ داری نظام کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے، مغربی حکمرانی کے بارے میں نہیں، کیونکہ اس نظام کو ناکام، زیاں کار اور مقروض سمجھا جاتا ہے۔ مصنفین کی بات ایک حد تک درست ہے، مگر ہم سب جانتے ہیں کہ ترکی و روس میں مطلق العنانیت بڑھی ہے۔ چین میں جمہوریت نہیں ہے۔ یا پھر مصر میں انقلاب اور عراق میں جنگ کی وجہ سے جمہوریت کو نقصان پہنچا ہے، مگر اس کی وجہ یا تو قدامت پرست حکمرانوںکے ہاتھوں چھیڑی گئی جنگیں ہیں، یا پھر غیر ملکی مداخلت اور مقامی آمریتوں کا کردار ہے۔ ظاہر ہے پوری کوشش کے باوجود ان کا تعلق کسی ایسے ملک سے نہیں جوڑا جا سکتا ، جہاں سچی سماجی جمہوریت قائم ہے۔
آگے چل کر مصنفین لکھتے ہیں کہ حکمرانی میں پہلا انقلاب اس وقت آیا جب سترہویں صدی کی یورپی اقوام نے اپنے آپ کو فرماں روائی اور بادشاہتوں سے نکال کر مرکزی ریاستوں میں تبدیل کیا۔ چونکہ ان کی ایک دوسرے کے ساتھ سخت فوجی اور معاشی مسابقت تھی، اس سے ان کی قوت اور کارکردگی بڑھی۔ اس انقلاب کے پیچھے فکری طاقت تھامس ہابس کی تھی ، جس کے خیال میں افراتفری اور سفاکیت کا واحد جواب ایک مضبوط ریاست ہے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کا دوسرا انقلاب فرانس اور امریکہ میں آیا، اس سے میرٹ اور جواب دہی کا عمل شروع ہوا۔ برطانیہ میں استعدادِ کارگزاری میں اضافے اور آزادی پر زور دینے کی وجہ سے سول سروس میرٹ پر آنی شروع ہوئی‘ اقربا پروری کم ہوئی، مارکیٹیں آزاد ہوئیں اور شخصی آزادیوں کا تصور مضبوط ہوا۔ بیسویں صدی تک ایسا لگنے لگا کہ صرف آزاد خیال ریاست کافی نہیں ، اور ہم نے جدید فلاحی ریاست کو ابھرتے ہوئے دیکھا۔ یہ تیسرا انقلاب عدم مساوات کے خلاف رد عمل تھا، اور اس کے خلاف لڑنا مشکل تھا۔ اس کے نتیجے میںآج برطانیہ میں صحت کی دیکھ بھال کا نظام اور امریکہ کی سوشل سکیورٹی کا نظام موجود ہے۔
آج کے حالات میں ان لکھاریوں کا خیال ہے کہ مغرب کا اس طریقے سے اعتماد اٹھ گیا ہے، جس سے وہ ریاست کا انتظام چلاتا تھا۔ مصنفین نے اس کی دو مثالیں دیں۔ اس کی ایک مثال امریکی ریاست کیلی فورنیا ہے، جو ایک بڑی، کنگلی اور نا اہل ریاست ہے۔ اس کے اندر سینتیس ملین لوگ رہتے ہیں ، مگر اس کے پاس سینیٹ میں صرف ایک نشست ہے۔ اس کا جیلوں پر اور تعلیم پر خرچہ ایک جیسا ہے۔ دوسری مثال اٹلی ہے، جس کے پاس ایک سو اسی منتخب نمائندوں کے لیے پانچ لاکھ چوہتر ہزار لیموزین ہیں، جن کی وہ متحمل نہیں۔ ظاہر ہے بد انتظامی اور خراب حکمرانی کی یہ دونوں اچھی مثالیں ہیں ، مگر ان کا فلاحی جمہوری ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
چوتھا انقلاب کیا ہے ؟ مصنفین لکھتے ہیں کہ چوتھے انقلاب کا مطلب انفرادی حقوق کو سماجی حقوق پر ترجیح دینا ہے۔ ایسا کرنا اخلاقی اعتبار سے بھی درست ہے، اور خود جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری بھی ہے۔ ایسا کرنے کے لیے مورچہ زن سرکاری اور نجی مفادات کا خاتمہ ، بوڑھے اور ضعیف رائے دہندگان اور اقربا پروری سے جان چھڑانی ضروری ہے۔ اس قسم کے انقلاب کے بغیر دولت زیادہ مفوضہ مفادات والوںکے پاس جائے گی۔ اور ان لوگوں کے پاس کم جن کو واقعی اس کی ضرورت ہے۔ اس سے جمہوریت کے بارے میں مایوسی بڑھے گی۔ ظاہر ہے یہ جاننا مشکل ہے کہ وہ کون سی اخلاقیات ہیں، جن کی روح سے انفرادی حقوق کو سماجی حقوق پر ترجیح دینا درست سمجھا جاتا ہے، یا یہ دولت کی تقسیم کا کون سا نادر نسخہ ہے، جس سے دولت ان کے پاس جا سکتی ہے، جن کو اس کی ضرورت ہے۔
جس وقت یہ کتاب آئی تھی اس وقت روزا بروکس نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے نیویارک ٹائمز میں لکھا تھا کہ مصنفین کا کہنا ہے کہ ریاست مشکل میں پھنس گئی ہے۔ اور لوگ یہ سوچتے ہیں کہ بنیادی تبدیلی کے کوئی آثار نہیں۔ مگر اگر گزشتہ پانچ سو سال کی تاریخ ہمیں کچھ بتاتی ہے تو وہ یہ ہے کہ بنیادی تبدیلی آتی ہے، اور بار بار آتی ہے۔ پانچ سو سالہ تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے وہ اس سے بھی زیادہ پریشان کن سچ کو نہ دیکھ سکے کہ مغرب کے نظام حکمرانی میں بہتری اور نشوونما یہاں کے عوام کے لہو کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ روزا لکھتی ہیں: جدید ریاستیں مذہبی جنگوں سے ابھریں، جس سے سترہویں صدی میں یورپ میں بہت بڑے پیمانے پر خون خرابہ ہوا۔ جبکہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی اصلاحات کی وجہ امریکی اور فرانسیسی انقلاب ، نپولین جنگیں، فرانکو پرشین اور اٹلی کی جنگیں تھیں۔ ان تصادموں میں موت کی شرح حیرت انگیز تھی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ نوآبادیاتی غلبے نے بھی مغربی معیشتوں کو پھلنے پھولنے میں مدد دی۔ بیسویں صدی کی دو بڑی جنگوں میں جو خون ریزی ہوئی، اور جو حالات پیدا ہوئے ان کے بطن سے فلاحی جمہوری ریاستوں نے جنم لیا۔ اس لیے سماجی جمہوریت عوام کے خون سے جڑی ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ مصنفین نے تاریخ کے منتخب واقعات سے جو من پسند نتائج اخذ کیے وہ غلط ہیں ، اور ان کے حق میں دئیے گئے دلائل ناقص ہیں۔ فلاحی ریاست اب تک انسان کی سیاسی اور سماجی سرگرمی کی سب سے زیادہ ترقی پسند اور ترقی یافتہ شکل ہے۔ فلاحی ریاست سے جان چھڑانے کی بات پانچ فیصد خوش نصیب لوگوں کی طرف داری، اور ان کی بے تحاشا دولت کی پہرے داری ہے۔ ریاستوں کا بڑھتا ہوا سائز، بد انتظامی، یا نا اہلی جیسے مسائل موجود ہیں۔ مگر یہ بھی درست ہے کہ سوشل ڈیموکریسی کے ماڈل کو اپنا کر خود ہمارے سامنے یورپ میں کئی ایک ریاستیں ان مسائل پر بڑی حد قابو پا چکی ہیں، سویڈن، ناروے ، ڈنمارک جیسی ریاستیں اس کی روشن مثال ہیں۔