لوٹ کھسوٹ کے راج کو بدلو، چہرے نہیں سماج کو بدلو۔ یہ ایک پرانا نعرہ ہے۔ یہ نعرہ میں نے بچپن میں سنا بھی بہت اور لگایا بھی بہت۔ پرانا ہونے کے باوجود یہ نعرہ آج بھی اتنا ہی تازہ اور متعلقہ ہے۔ یہ انتخابات کا موسم ہے‘ اور ایسے موسم میں ایسے نعروں کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ انتخابات میں تبدیلی کی بات ہو رہی ہے، بلکہ کچھ زیادہ ہی ہو رہی ہے‘ مگر کیا یہ راج اور سماج بدلنے کی بات ہے، یا پھر کچھ چہرے بدل رہے ہیں؟ اور کچھ پرانے چہرے، نئے نئے روپ دھار کر، جماعتیں بدل بدل کر سامنے آ رہے ہیں۔ ہمارے بچپن میں تبدیلی کی جگہ زیادہ تر لفظ انقلاب استعمال ہوتا تھا۔ اس لفظ کا اپنا ایک لطف ہے، ایک خاص وزن ہے۔ یہ لفظ استعمال کرتے وقت انسان پر باقاعدہ ایک انقلابی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں تبدیلی دھیمے لہجے میں کہنے کی بات ہے، اس میں وہ جوش و خروش نہیں ہوتا۔ ایک مسلسل جمہوری عمل میں تبدیلی کی بات مزید نرم ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں ایک عشرے سے زائد عرصہ مسلسل جمہوری عمل سے گزرنے کے بعد ہمارے کچھ انقلابی دوست، جو کبھی جوش میں آ کر خونیں انقلاب کی بات کر لیتے تھے، اب قومی جمہوری یا عوامی جمہوری انقلاب کی باتیں کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے تضادات پر مبنی کثیرالطبقاتی سماج میں جمہوری انقلاب کی گنجائش ہمیشہ موجود رہی ہے۔ اب بھی ہے۔ صرف سیاسی قوتوں کے لیے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ وہ کس قسم کا انقلاب چاہتی ہیں۔ وہ جو ان کی خواہشات یا خوابوں میں ہے، یا وہ جو معروضی حالات میں عملی طور پر برپا ہو سکتا ہے؟ سست رفتار جمہوری تبدیلی اور فوری انقلاب کے بارے سوچتے ہوئے مجھے ایک پرانی کتاب یاد آئی، جو میں نے کئی برس پہلے پڑھی تھی۔ 'انقلابِ فرانس کے بارے میںکچھ سوچیں‘ نامی کتاب ایک انگریز سیاست دان اور لکھاری ایڈمنڈ برک نے لکھی تھی۔ برک اٹھارہویں صدی کا ایک معروف لبرل تھا۔ وہ امریکی انقلاب کا پُر جوش حامی تھا۔ مگر انقلابِ فرانس کے خلاف وہ جم کر مورچہ زن ہو گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ انقلابِ فرانس کے فوراً بعد لندن شہر میں ایک پادری رچرڈ پرائس نے انقلابِ فرانس کے حق میں ایک پُر جوش خطاب کیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ انگریز لوگوں کا حق ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کا انتخاب کریں، بد عنوانی پر ان کا محاسبہ کریں۔ اس تقریر میں پرائس نے کہا تھا کہ بادشاہت کو ایک طرف رکھتے ہوئے انگلستان کے لوگوں کو انقلابِ فرانس کی طرز پر انگلینڈ میں انقلاب لانا چاہیے۔ اس طرح شہر کے کئی دوسرے دانشوروں نے انقلاب فرانس کو امریکی انقلاب کے مماثل قرار دیا اور برطانیہ میں ایسے انقلاب کی ضرورت پر زور دینا شروع کیا۔ پادری کے خطاب سے انگریز اشرافیہ کا یہ خوف بڑھ گیا کہ انقلاب فرانس طرز کی کوئی تبدیلی انگلستان میں بھی آ سکتی ہے۔ ان خوفزدہ لوگوں میں برک بھی شامل تھا۔ انقلاب فرانس کے بعد شاہی خاندان کو ورسلیز کے محلات سے نکال کر پیرس لایا گیا تھا، کیتھولک چرچ کی جائیدادیں ضبط کر لی گئی تھیں۔ اس سے انگلستان کی بادشاہت اور چرچ کے اندر خوف کی لہر دوڑ گئی۔ یہ پُر لطف بات تھی کہ ایک پادری انقلاب فرانس کی حمایت میں کھل کر نکل آیا تھا، اور ایک معروف لبرل اور انقلابوں کا حامی شخص انقلاب کے خلاف کمر بستہ ہو گیا۔ اس کی دوسری وجہ مذہب بیان کی جاتی تھی۔ امریکی انقلاب کے بعد امریکی آئین میں مذہبی آزادی اور ضمیر کی آزادی کو تحفظ دیا گیا۔ اس کے بر عکس فرانسیسی انقلاب میں مذہبی اجارہ داری اور غلبے کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے۔
ایڈمنڈ برک ابتدا میں انقلاب فرانس کے بارے میں کوئی زیادہ فکر مند نہیں تھا‘ لیکن جب لوگوں نے اس سے ملتے جلتے انقلاب کے انگلستان میں امکانات پر بات کرنا شروع کی تو برک نے انقلاب کے خلاف کھل کر پوزیشن لے لی۔ اس اثنا میں فرانس کی قومی اسمبلی میں اس کے ایک دوست جاں فرانسوا دے پو نے اسے خط لکھا اور انقلاب فرانس کے بارے میں اس کی رائے طلب کی۔ یہ رائے دینے کے لیے اس نے جواباً ایک طویل خط لکھا، جو انقلاب فرانس پر ریفلکشنز نامی کتاب کی شکل میں سامنے آیا۔
یہ اس نوعیت کی پہلی انقلاب دشمن کتاب تھی۔ یہ بڑی تیزی سے فرانس اور انگلستان میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب بن گئی۔ اس کتاب سے بڑے پیمانے پر ایک بحث کا آغاز ہوا۔ اس کتاب میں بروک نے لکھا کہ فرانس اور انگلستان میں بہت فرق ہے۔ برطانیہ کے شاندار انقلاب نے بادشاہت کے اختیارات ختم کر کے ایک با اختیار پارلیمانی حکومت قائم کی ہے۔ فرانس کی پیروی کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم وہ سارے اصول چھوڑ دیں، جو ہم سو سال سے لے کر چل رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ایک کامیاب آئینی بادشاہت قائم ہوئی ہے۔ اس نے بر طانوی آئین کو ایک عظیم ساخت یا ڈھانچہ قرار دیا ، جو نشوونما پا رہا ہے، اور آہستگی سے شہری آزادیوں اور انسانی حقوق میں اضافہ کرتا جا رہا ہے، بادشاہت کی طاقت کو محدود کر رہا ہے۔ انگلینڈ کی آزادی کا شجرہ نسب میگنا کارٹا تک جاتا ہے، اس کے شہریوں کے حقوق ان کی وراثت ہے۔ اس نے لکھا کہ اس میں اضافے کی بہت گنجائش ہے۔ جو کچھ حاصل کیا جا چکا، اسے اب واپس نہیں کیا جا سکتا البتہ اس میں مزید آزادیاں شامل کی جا سکتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں جو کچھ فرانس میں ہوا، وہ حقوق کی پر تشدد چھینا جھپٹی تھی، جو جمے جمائے نظام کی تباہی پر منتج ہوئی۔ آپ کی ابتد ہی غلط تھی، کیونکہ آپ نے اپنی ہر چیز کو حقیر اور قابل نفرت قرار دے دیا۔ آپ نے سرمائے کے بغیر تجارت کا آغاز کیا۔
برک کا فرانس کے نئے حکمرانوں کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ ان میں سے بیشتر کے پاس کوئی جائیداد نہ تھی ، اس لیے برک کے خیال میں یہ ان کے مفاد میں تھا کہ وہ جمے جمائے نظام کو تباہ کریں، تاکہ ان جیسے لوگ نئی مساوات سے فائدہ اٹھا سکیں۔ برک تسلیم کرتا ہے کہ برطانیہ کا نظام مکمل مساوات پر استوار نہیں ہے، اور ایسا ہونے کی وجہ ہے۔ خصوصاً ہائوس آف لارڈز میں جہاں یہ ضروری ہے کہ دولت کا کچھ حصہ مورثی ہو، ان لوگوں کو زیادہ وزن دیا جاتا ہے جن کے پاس جائیداد ہے، یہ اس بات کی ضمانت ہے کہ صرف دولت مند لوگوں کا قومی معاملات میں وزن ہو سکتا ہے، اور ایسے لوگ اپنے فائدے کے لیے فیصلے نہیں کریں گے، چونکہ ان کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ قدیم رومن اصول کی پیروی تھی، جس میں سینیٹ میں سیٹ کے لیے صاحبِ جائیداد ہونا ضروری تھا۔ اور برک کے نزدیک یہ بات غیر قدرتی ، ناجائز یا خلاف مصلحت نہیں ہے۔
کتاب میں کئی چیزیں یا تو خلاف حقائق ہیں، یا پھر نظریاتی اور فکری ابہام کا شکار؛ چنانچہ دانشور حلقے اسے تاریخ کی کتاب کے طور پر پڑھنے کے بجائے سیاست پر ایک آدمی کے نقطۂ نظر کے طور پر دیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس کتاب سے برک کے ذاتی اعتبار کو بھی نقصان پہنچا۔ مگر وقت آنے پر اس کی کچھ باتیں صحیح بھی ثابت ہوئیں۔ انگلستان نے ارتقائی عمل میں مکمل جمہوری حقوق حاصل کر لیے اور وہ ایک جدیدخوشحال قوم کے طور پر ابھرا۔
انقلاب فرانس بیسوی صدی کے مشہور مارکسی انقلابوں سمیت دنیا میں کئی دوسرے جمہوری انقلابوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ان انقلابوں کے ذریعے کئی جمے جمائے نظاموں کا مکمل خاتمہ ہوا، جو اندر سے سڑ گل چکے تھے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ لوٹ کھسوٹ کے نظام کو بدلنے کے لیے چہروں کے ساتھ ساتھ سماج کو بھی بدلنا پڑتا ہے۔ یہ کام کرنے کے لیے ہمیشہ تاریخ میں ایک سے زائد راستے موجود رہے ہیں، اور رہیں گے۔ انسان کو معاشی و سماجی انصاف اور شہری آزادیاں ایک فوری جمہوری انقلاب کے ذریعے بھی مل سکتی ہیں، اور ایک سست رفتار ارتقائی جمہوری عمل کے راستے پر چل کر بھی، اگرچہ یہ راستہ بہت لمبا ، صبر آزما اور کم خوش قسمت طبقات کے لیے بڑا تکلیف دہ ہے۔