تبدیلی بہت خوش کن تصور ہے۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ تبدیلی آتی کیسے ہے؟ یہ سوال میںکئی بار انہی سطور میں پوچھ چکا ہوں، مگر ایک بار پھر پوچھنے میںکوئی حرج نہیں کہ ایک تو یہ سوال بہت ہی اہم اور بنیادی ہے‘ اور دوسرا یہ کہ تبدیلی کی بات کرنے والوں نے آج تک اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔
تبدیلی محض تبدیلی کی خواہش رکھنے یا اس کا پرچار کرنے سے نہیں آتی، بلکہ اس کا ایک باقاعدہ روڑ میپ بنانا پڑتا ہے۔ پھر یہ روڑ میپ لے کر عوام میں جانا ہوتا ہے‘ اور تمام تر جزئیات سمیت یہ روڈ میپ عوام کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔ انتخابات کے دنوں میں عوام اس نقشے کی ایک ایک لکیر کو غور سے دیکھتے ہیں۔ ایک ایک زاوئیے کا جائزہ لیتے ہیں‘ اور اگر انہیں نقشہ پسند آ جائے، یا انہیں یقین ہو جائے کہ اس میں تبدیلی کا کوئی راستہ ، کوئی لکیر موجود ہے تو پھر وہ جوق در جوق نکلتے ہیں، اور تبدیلی کے پیغام پر اپنی مہر ثبت کرتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے جب تبدیلی کا نقشہ روٹی، کپڑا اور مکان کے مختصر نعرے کی شکل میں پیش کیا تو عوام کو ان کی بات پر کسی حد تک یقین آ گیا تھا؛ چنانچہ انہوں نے انتخابات میں بڑے بڑے برج الٹا دئیے تھے۔ جن رہنمائوں کی ہار کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا وہ ہار گئے‘ اور جن کی جیت کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا وہ بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ اور عوام سے جس تبدیلی کا وعدہ کیا گیا تھا وہ تبدیلی لانے کا مینڈیٹ انہوں نے بھٹو صاحب اور ان کے نامزد کردہ پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو سونپ دیا تھا۔ مگر پھر کیا ہوا ؟ یہ ایک الگ اور المناک کہانی ہے۔ اُس وقت پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار مرکزی دھارے میں کسی ایسی تبدیلی کی بات ہوئی تھی جس کی عقلی اور سانئسی بنیادیں تھیں۔ بھٹو کی پارٹی کے نظریات ترتیب دینے والوں میں بائیں بازو کے ترقی پسند اور پڑھے لکھے دانشور شامل تھے۔ وہ تبدیلی کے مطلب اور نتائج سے پوری طرح آشنا تھے۔ مگر بد قسمتی سے یہ لوگ تبدیلی کے بہت قریب پہنچ کر افراتفری اور اندرونی انتشار کا شکار ہو کر بکھر گئے۔
آج ہمارے ہاں جس تبدیلی کی بات ہو رہی ہے اس کی سائنسی اور عقلی بنیادیں کم ہیں، دل پسند سوچ اور خواہشات زیادہ۔ اور تبدیلی کی بات کرنے والوں کو تبدیلی کا یقین بڑا ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ اس کے خد و خال کو واضح الفاظ کا جامہ پہنانے سے قاصر ہیں۔ یہ یقین برقرار رہے تو اچھا ہے۔ بقول شخصے دنیا میں اس سے بڑا المیہ کوئی نہیں ہو سکتا کہ ایک انسان کا اپنے آپ سے اور اپنے مستقبل کو تشکیل دینے کی قوت سے یقین اٹھ جائے۔ مگر تبدیلی کی اس خواہش کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ ضرورت سے زیادہ اقتدار کے ساتھ منسلک اور مشروط کر دی گئی ہے۔ تبدیلی سے اگر مراد انقلاب نہیں بلکہ موجودہ نظام کو ہی مرمت کر کے بہتر انداز میں چلانا ہے تو اس کے لیے اقتدار میں ہونا ضروری نہیں۔ یہ سماج اور نظام میں اصلاح کا کام ہے، اور بعض حالات میں یہ کام اقتدار سے باہر رہ کر بھی بڑے موثر انداز میںکیا جا سکتا ہے۔
ہمارے آج کے دور میں ریاستوں اور حکومتوں کا وہ کردار نہیں رہا جو تاریخی طور پر موجود تھا۔ تاریخی طور پر طاقت کے بغیر دنیا کا کوئی تصور موجود نہیں تھا، یہ صرف ایک منظم اور غیر منظم طاقت کے درمیان انتخاب کا سوال ہوتا تھا۔ مگر اب ریاست کے ساتھ کئی غیر ریاستی قوتیں آ گئی ہیں، جو ریاستوں کے روزمرہ کے کام کاج پر ہی نہیں‘ اس کی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان میں فشاری گروہ ہیں، سیاسی جماعتیں ہیں، غیر سرکاری تنظیمیں ہیں، انسانی حقوق والے ہیں، ذرائع ابلاغ ہیں، مالیاتی، کاروباری و تجارتی ادارے ہیں، بڑی بڑی کرشماتی قسم کی سماجی اور فعالیت پسند شخصیات ہیں اور اس طرح کے کئی اور عناصر ہیں۔ یہ عناصر بعض حالات میں ریاست سے کہیں زیادہ اثر و نفوذ رکھتے ہیں۔ یہ عناصر نا صرف حکومتوں کی بنیادی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، بلکہ سماج میں بڑی بڑی تبدیلیاں لانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج یہ مانا جاتا ہے کہ تبدیلی لانے کے لیے حکومت میں ہونا ضروری نہیں۔ بلکہ بعض کا یہ کہنا ہے کہ آپ حکومت سے باہر رہ کر زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں، حکومت کو تبدیلی لانے پر مجبور کر سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں تاریخ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ سماجی، معاشی فکری تبدیلیوں کے اکثر نقیب ایسے فلاسفر یا رہنما رہے ہیں جن کا حکومتوں یا ریاستوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ دنیا کا ہر بڑا اور قابلِ ذکر انقلاب وہ لوگ لے کر آئے جو حکومت سے باہر بیٹھے تھے۔ ان میں دنیا کو ہلا کر رکھ دینے والے بڑے بڑے انقلاب شامل ہیں‘ چاہے وہ امریکی انقلاب ہو یا فرانسیسی، انیس سو سترہ کا روسی انقلاب ہو یا انیس سو انچاس کا چینی انقلاب یا دنیا کے وہ لا تعداد جمہوری انقلابات جنہوں نے دنیا بدل دی۔ چند ایک صورتوں میں انقلابی‘ انقلاب کے بعد حکومت میں بھی شامل ہوئے، جیسے روس و چین میں‘ اور کچھ اس سے باہر رہے۔ تبدیلی کے لیے طاقت حاصل کرنا کیوں ضروری ہے، اور یہ طاقت کیسے فوری تبدیلی میں مدد دے سکتی ہے اس پر کئی بحثیں ہو چکی اور اب بھی جاری ہیں۔
طاقت کی ایک فطرت ہوتی ہے۔ انقلابی اگر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں طاقت کی فطرت کو سمجھنا ہو گا۔ یہ بات بہت عرصہ پہلے میں نے رولز فار ریڈیکلز یعنی انقلابیوں کے اصول یا قاعدے نامی کتاب میں پڑھی تھی۔ اس کتاب کا مصنف ایک انقلابی تھا جو عمر بھر سرگرم رہا۔ آخر میں فعالیت پسندی پر اپنے تجربات کا نچوڑ اس کتاب میں بیان کر دیا۔
رولز فار ریڈیکلز جب لکھی گئی اس وقت امریکہ میں میکارتھی ازم کا غلبہ تھا۔ میکارتھی ازم کے دور میں امریکہ میں بائیں بازوںکی قوتوں پر تابڑ توڑ حملے ہو رہے تھے ، اور بائیں بازو کی قوتیں شکست و ریخت کا شکار تھیں۔ امریکہ کی نوجوان نسل اپنے سیاست دانوں اور اداروں سے سخت مایوس تھی۔ وہ اس زندگی سے بھی خوش نہیں تھے، جس طرح کی زندگی ان کے والدین گزارتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ نظام بے معنی تھا اور نا انصافی سے بھرپور تھا۔ اس ماحول میں سال ایلنیسکی نے سوال اٹھایا کہ مایوس اور انقلابی نوجوان کس قسم کی دنیا دیکھنا چاہتے ہیں، مگر اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ وہ اسے کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔
اس سوال کا اس نے خود ہی جواب دیتے ہوئے ایک پوری کتاب لکھ ڈالی اور اس کا نام رولز فار ریڈیکلز، یعنی انقلابیوں کے لیے اصول رکھا۔ اس کتاب کا مخاطب وہ لوگ تھے، جو انقلاب کے بارے میں سنجیدہ تھے۔ الینسکی نے لکھا: مساوات، انصاف، امن، تعاون، تعلیم کے مواقع، اور صحت کی سہولیات، یہ سب کچھ اہم ہے، لیکن یہ سب کچھ آسان سے نہیں مل سکتا۔
انسانی سیاست میں عمل کے کچھ مرکزی تصورات ہیں، جو کسی خاص منظر یا وقت سے قطع نظر ہمیشہ چلتے ہیں۔ اور نظام پر کسی حملے سے پہلے ان تصورات کو جاننا بنیادی ہے۔ الینسکی ایک سیاست دان اور فعالیت پسند میں تفریق کرتا ہے۔ ایک سیاست دان یا رہنما کا کام آخر میں اس کے لیے سود مند ہوتا ہے، مگر ایک فعالیت پسند کا کام دوسروں کے فائدے کے لیے ہوتا ہے۔ ایک منظم فعالیت پسند میں یہ خوبی ہونی چاہیے کہ وہ دوسروں کو انسپائر کر سکے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ لوگ حکمرانوں کی تقلید ضرور کرتے ہیں، ان کا حکم بھی گاہے مان لیتے ہیں، مگر دوسروں کو متاثر کرنے کا کام اس سے کئی زیادہ شاعر ادیب، دانشور، فن کار، اور فعالیت پسند ، سرگرم کارکن بھی کر سکتے ہیں جن کو اقتدار کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور مارگریٹ میڈ نے کہا تھا: اس میں کوئی شک نہیںکہ پُر عزم اور سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں کا ایک چھوٹا سا گروہ بھی دنیا بدل سکتا ہے۔