عوام کیا سوچتے ہیں؟ سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟ عوام کی رائے سازی کیسے ہو سکتی ہے؟ ان کو اپنے حق میں کیسے موڑا جا سکتا ہے، یا ان کو اپنے مخالفین کے خلاف کیسے کیا جا سکتا ہے؟ انتخابات کے قریب آنے کے ساتھ ساتھ یہ سوالات بہت اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ امیدوار یہ سوالات نا صرف ان لوگوں سے پوچھتے ہیں، جو بقول عمران خان انتخاب لڑنے کی سائنس جانتے ہیں، بلکہ وہ یہ سوالات نجومیوں، دست شناسوں اور پیروں‘ فقیروں سے بھی پوچھتے رہتے ہیں۔
ان سوالات کے ساتھ ایک اہم ترین سوال مگر یہ جڑا رہتا ہے کہ یہ رائے عامہ ہے کیا چیز؟ ہم اپنی رائے کیسے بناتے ہیں؟ رائے کہاں سے آتی ہے؟ سرکار اس رائے کو کیسے استعمال کرتی ہے؟ سیاست دان ، معتبر اور با اثر شخصیات رائے عامہ پر کیسے اثر انداز ہوتی ہیں؟ کیا روایتی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا ہمیں وہ درست معلومات فراہم کرتا ہے، جس کی بنیاد پر ہم اپنی رائے بنا سکتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں، جن کا جواب فراہم کرنے کے لیے والٹر لپمین نے آج سے تقریباً سو برس قبل ''رائے عامہ‘‘ نامی کتاب لکھی تھی۔ والٹر ایک مشہور امریکی صحافی اور سماجی ناقد تھا۔ اس کو امریکہ میں جدید صحافت کا باپ، اور اس کی اس کتاب کو جدید صحافت کی بنیاد کہا جاتا ہے۔
''رائے عامہ‘‘ نامی اس کتاب کا بنیادی نکتہ جمہوریت کو درپیش اس مسئلے کو بیان کرنا ہے کہ عوام کے دماغ کے اندر چیزوں کی جو تصویر ہوتی ہے، وہ باہر کی دنیا سے مختلف ہوتی ہے۔ وہ دلائل سے ثابت کرتا ہے کہ کس طرح سٹیریوٹائپ یعنی دقیانوسی تصورات ایک فرد کی رائے پر اثر انداز ہوتے ہیں، اور پھر یہ فرد دوسرے افراد سے مل کر رائے عامہ تشکیل دیتا ہے۔ رائے عامہ لوگوں کے دماغ کے اندر ایک تصویر یا عکس کا نام ہے ۔ یہ ان کی اپنی تصاویر ہیں، دوسروں کی تصاویر ہیں‘ ان کی ضروریات ، مقاصد اور رشتوں کی تصاویر ہیں۔ رائے عامہ مجموعی طور پر ان تصاویر پر مشتمل ہوتی ہے، جو لوگوں نے اپنے سینوں میں سجا رکھی ہوتی ہیں۔
سیاسی طور پر جس دنیا سے عام لوگوں کا واسطہ پڑتا ہے، وہ ان کی پہنچ سے باہر، نظروں سے اوجھل، اور سوچوں سے دور ہے، ان دیکھے، دور اور پیچیدہ واقعات کی اس دنیا میں جھوٹے افسانے اور مقدس علامتیں انسانی ابلاغ کا اہم حصہ ہیں۔ انسان کا رویہ اس جعلی یا نقلی ماحول جیسا بن جاتا ہے، جو اس کے دماغ میں سجی ہوئی تصاویر میں ہوتا ہے۔ لوگ واقعات کے ذہنی عکس اور تصاویر بناتے ہیں، ان تصاویر کے ساتھ ان کی کوئی جذباتی وابستگی نہیں ہوتی۔ اس لیے رائے عامہ کا تجزیہ کرنے والوں کو اس سہ زاویائی شکل یا مثلث کے رشتے کو تسلیم کر کے اپنا تجزیہ شروع کرنا چاہیے۔ وہ رشتہ جو کسی خاص نظارے، انسانی دماغ میں اس کی تصویر، ا ور انسانی دماغ میں اس کے رد عمل کے درمیان موجود ہوتا ہے۔ اور انسانی دماغ کے رد عمل کو سٹیریوٹائپ، خیالی، اور علامتی تصاویر سے الگ کرنا ضروری ہے۔
والٹر اپنی کتاب میں ان عناصر کا جائزہ لیتا ہے، جو حقائق تک لوگوں کی رسائی کو محدود کرتے ہیں، اور اس طرح ان کے دماغ میں موجود تصویر کی سچائی یا درستگی کو متاثر کرتے ہیں۔ سینسرشپ اور نجی معلومات کی پوشیدگی معلومات کے ذرائع میں سد راہ، اور اس طرح عوام اور واقعات کے درمیان رکاوٹ بنتی ہے۔ مادی اور سماجی رکاوٹیں، اجارہ داریاں، کم آمدن، اور دلچسپی میں کمی اور اس جیسے دوسرے عوامل خیالات کی گردش اور حلقۂ اشاعت کو محدود کرتے ہیں۔ بسا اوقات زبان بھی محدود کرنے والا ایک عنصر بن جاتی ہے کہ لفظ مختلف تصویر ظاہر کرتے ہیں، اور لفظوںکے مختلف لوگوں کے ذہنوں میں مختلف مطالب یا معنی ہوتے ہیں۔ وقت کی کمی، شہری زندگی کا اضطراب و پریشانیاں، جذباتی تنازعے اور تھکاوٹ بھی حقائق تک رسائی کو محدود کرتے ہیں۔
والٹر اس بات کا بھی بڑی تفصیل سے جائزہ لیتا ہے کہ کس طرح ذاتی مفادات اور سٹیریوٹائپ رائے عامہ پر اثر انداز ہوتے ہیں، اور کس طرح انسان اندر موجود تصاویر، عکس، پیش بینی اور عصبیت باہر سے آنے والے پیغامات کو متاثر کرتے ہیں۔ لوگ ان پیغامات کو سمجھنے اور ان کی تشریح کے لیے اپنے تعصبات سے کام لیتے ہیں، باہر کی دنیا کا مشاہدہ کرنے والا تخلیقی سوچ اور انتخاب کرنے کا اختیار رکھتا ہے تو وہ مناظر میں اپنی مرضی کے سٹیریوٹائپ اور توقعات کا رنگ بھر سکتا ہے۔ اس پیچیدہ دنیا میں لوگ چیزوں کو اس سٹیریوٹائپ کی روشنی میں دیکھتے ہیں، جو ان کے کلچر نے بنایا ہوتا ہے۔ وہ سٹیریوٹائپ کو ایک ذہنی شارٹ کٹ کے طور پر قبول کرتے ہیں، اس طرح وہ غور و فکر کی مشقت سے بچ جاتے ہیں، اور سماج میں اپنی حیثیت، جگہ اور عزتِ نفس کا تحفظ کرتے ہیں۔
اخلاقی ضابطے، سماجی فلسفے اور سیاسی احتجاج سٹیریوٹائپ کی مختلف شکلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ انسان میں شعور و ادراک پیدا کرتے ہیں۔ مگر عموماً لوگ وہ حقائق دیکھنا پسند کرتے ہیں، جو ان کے پسندیدہ اخلاقی فلسفے سے ملتے جلتے ہوں، ان کے سٹیریوٹائپ کی حمایت کرتے ہوں اور ان کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوں؛ چنانچہ والٹر کا خیال ہے کہ رائے عامہ حقائق کا منسوب بہ اخلاق اور تدوین شدہ ورژن ہے، جو کہ ذاتی ہے اور ہر فرد کا اپنا ہے۔
وہ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد جو انفرادیت پسند ہے، کس طرح مل کر ایک اجتماعی رائے بنا سکتی ہے۔ جواب میں وہ کہتا ہے کہ کچھ کام، خیالات اور آفاقی علامات لوگوں کی رائے کو یکجا کرتے ہیں۔ متحارب گروہوں کو متحد کرنے کے لیے سیاست دان اور رہنما ان علامات کا استعمال کرتے ہیں، ہر فرد کسی بھی علامت کو اپنے ذاتی معنی دیتا ہے۔ جب معتبر شخصیات علامتوں کو یکجا کرنا شروع ہوتے ہیں ، تو لوگ درست یا غلط کی جگہ قابلِ اعتماد یا نا قابلِ اعتماد کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ اپنا یہ انتخاب خود پر انحصار کر کے نہیں کرتے، بلکہ ان معتبر شخصیات کی وجہ سے کرتے ہیں ، جن کی وہ بات سنتے ہیں۔
وا لٹر نے یہ کتاب سن انیس سو بائیس میں لکھی تھی۔ اس نے بہت حد تک امریکی صدارتی انتخابات اور جمہوریت سے استفادہ کیا تھا‘ مگر والٹر کے دور کی دنیا ہماری آج کی دنیا کی نسبت بہت سیدھی سادی تھی۔ روایتی میڈیا اس وقت موجود ضرور تھا ، مگر اس کے رجحانات، پالیسیاں اور کردار اس میڈیا سے یکسر مختلف تھے، جن کا ہمیں سامنا ہے۔ اس وقت میڈیا پر سرکار کا ایک حد تک کنٹرول ضرور تھا، مگر اس وقت اس میں اتنی سوداگری کے رجحانات نہیں تھے، اور یہ اس قدر کاروباری نہیں ہوا تھا۔ اشتہار دینے والے افراد اور کارپوریشنز کی وہ گرفت نہیں تھی جو اب ہے۔ سوشل میڈیا ابھی تک معرض وجود میں نہیں آیا تھا، جس نے دراصل اب گیم چینجر کا کردار اپنا لیا ہے۔ یہ رائے عامہ اور ووٹر پر بساا اوقات روایتی میڈیا کی نسبت زیادہ مؤثر طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے۔ امریکہ کے گزشتہ انتخابات میں موجودہ صدر کی کامیابی اس کی ایک واضح مثال ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ انتخابات کے موسم میں رائے دہندگان کی رائے سازی میں کئی عناصر کردار ادا کرتے ہیں۔ لوگ جن چیزوں پر یقین رکھتے ہیں، ان کو مقدس مانتے ہیں، ان پر اعتبار کرتے ہیں، ان کے نام پر ان کی رائے سازی کرنا آسان ہے۔ ان چیزوں میں مذہب بھی ہو سکتا ہے، نظریہ بھی ہو سکتا ہے، اور بڑی شخصیات بھی ہو سکتی ہیں۔ انتخابات میں ان چیزوں کو مثبت اور منفی دونوں طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کہیں مذہبی یا نظریاتی عصبیت کے نام پر ووٹ اینٹھے جا سکتے ہیں۔ کہیں نسلی‘ علاقائی اور لسانی عصبیت کے نام پر عام لوگوں کو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ملک کے دانشوروں، میڈیا اور سول سوسائٹی کا کام ہے کہ وہ اپنے ارد گرد نظر رکھیں۔ غلط اطلاعات کے عام گردش کے اس دور میں درست اطلاعات اور حقائق عوام تک پہنچائیں تاکہ وہ گمراہ نہ ہوں، اور با شعور فیصلہ کر سکیں۔