انتخابات کے باب میں شخصیات پر بحث جاری ہے، مگر سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور زیر بحث نہیں۔ کوئی تقابلی جائزہ نہیں لے رہا۔ کوئی تنقید یا تبصرہ نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عوام انتخابی منشور سے لا تعلق ہیں، دانشور لوگوں نے بھی ان کو در خور اعتنا نہیں سمجھا۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ لوگ کہتے ہیں، منشور لکھنے سے کیا ہوتا ہے؟ لکھنے کو تو کوئی منشور میں کچھ بھی لکھ سکتا ہے۔ اصل مسئلہ تو اس منشور پر عمل کا ہے۔ ہماری ساری قومی تاریخ میں، ایک آدھ استثنا کے ساتھ، سیاسی جماعتوں نے جو بھی منشور پیش کیے‘ ان پر عمل کبھی نہیں ہوا۔
ہمارے ہاں انتخابات منشور پر نہیں لڑے جاتے۔ یہ لڑائی برادری، قبیلوں، تعلق واسطے، پیسے اور شخصیات کے نام پر لڑی جاتی ہے۔ جب سب من و سلویٰ کے وعدے کریں تو پھر بات آ کر بھروسے اور اعتبار پر ٹھہرتی ہے۔ لوگ پھر سوچتے ہیں کہ باتوں کی حد تک تو سب ٹھیک ہیں، مگر بھروسہ کس پر کیا جائے... اور کیوں کیا جائے؟
ایک رہنما نے منشور میں مدینے کی طرز پر اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں‘ جہاں مذہب لوگوں کی زندگی میں بہت بڑا وزن رکھتا ہے، اور جگہ گھیرتا ہے، وہاں مدینے کی طرز پر کسی فلاحی ریاست پر بھلا کون اعتراض کر سکتا ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس ملک میں اسلام، مذہب اور مدینے کے نام پر عوام سے بہت دھوکے ہو چکے ہیں۔ اسلام کے نام پر اقتدار پر قبضے بھی ہوتے رہے، اقتدار کو طوالت بھی بخشی جاتی رہی‘ اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ آج بھی کئی لوگ مذہب کے نام پر کاروبار اور سیاست میں مصروف ہیں؛ چنانچہ عوام اب کچھ محتاط ہو چکے ہیں، اور مذہب کے مقدس نام پر آنکھیں بند کر کے سیاسی فیصلہ کرنے کو تیار نہیں۔
جس پلیٹ فارم سے مدینے کی اسلامی ریاست کی بات ہوئی، وہیں سے کچھ عرصہ قبل پاکستان کو ڈنمارک جیسا بنانے کی بات ہوئی تھی۔ یہ ایک علامتی بات تھی۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کو عملی طور پر ڈنمارک بنا دیا جائے گا۔ ایسا کرنا ناممکن بھی نہیں‘ مگر اس کے لیے ڈنمارک جیسے کام کرنے ہوں گے۔
گزشتہ ہفتے اسی پلیٹ فارم سے پاکستان کو سوئٹزر لینڈ جیسا بنانے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا تھا۔ پاکستان میں عام لوگ، اور بسا اوقات دانشور بھی، اچھے ممالک کے تذکرے میں ڈنمارک، سویڈن، ناروے اور آئس لینڈ کے ساتھ سوئٹزر لینڈکا نام بھی لے لیتے ہیں۔ گویا یہ سب ممالک ایک ہی جیسے ہیں، اور ان میں کوئی خاص فرق نہیں۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے؛ تاہم اگر ایک دوسرے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ایسا نہیں بھی ہے۔ درست اس وجہ سے کہ مذکورہ بالا ممالک دنیا کی کامیاب ترین سماجی جمہوریتیں اور فلاحی ریاستیں ہیں؛ تاہم اگر تفصیلات میں جایا جائے تو خود ناروے‘ ڈنمارک، آئس لینڈ اور سویڈن میں بہت بڑی مماثلت کے باوجود تھوڑا بہت فرق ہے۔ سب کی شاندار اور قابل رشک ترقی کے باوجود تقلید کے لیے شاید پاکستان جیسے ملک کے لیے ڈنمارک ہی مثالی ماڈل ہے۔
مجھے ذاتی طور پر سوئٹزر لینڈ کو بہت ہی قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ قدرتی طور پر جو معاشی فوائد اس ملک کو حاصل ہیں، وہ کسی دوسرے ممالک کے پاس نہیں۔ قدرتی حسن، سیاحت، اقوام متحدہ کے دفاتر، بینکنگ اور فارن انویسٹ منٹ کی وجہ سے یہ ایک خاص معیشت ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر اسے کچھ خاص فوائد حاصل ہیں، جو دوسرے ملک کو حاصل نہیں۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن میں سوئٹزرلینڈ امریکہ اور برطانیہ سے تو بہتر ہے، مگر اس کا مقابلہ ڈنمارک یا آئس لینڈ سے نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں ایک چیز جنسی برابری ہے‘ یعنی جنس کی بنیاد پر عورت اور مرد سے امتیازی سلوک کیے بغیر ان کو مساوی مواقع فراہم کرنا۔ اس میدان میں آئس لینڈ اور ڈنمارک دنیا کے پہلے چار ملکوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جبکہ بدقسمتی سے سوئٹزرلینڈ اس فہرست میں بہت پیچھے یعنی اکیسویں نمبر پر ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ نے سوئٹزر لینڈ کو جنسی نا ہمواری اور جنسی امتیازی سلوک میں کمی لانے کی سفارش کی ہے۔ آئس لینڈ اور ڈنمارک کی مثالی صورت حال کی بات تو کوئی دیرینہ خواب پورا ہو جانے والی بات ہے، مگر پاکستان جیسے ملک میں جہاں خواتین کی سماجی و معاشی حالت انتہائی مخدوش ہے، وہاں خواتین کے حقوق اور سماجی مساوات کے میدان میں سوئٹزر لینڈ کی بات کرنا بھی اونچے خواب دیکھنے والا معاملہ ہی ہے۔
سماجی ترقی اور حقوق کے میدان میں سوئٹزر لینڈ بے شک آئس لینڈ اور ڈنمارک سے کمتر ہی سہی، مگر اس میں بھی کچھ ایسی چیزیں ہیں، جو شاید ہمارے یہ رہنما ابھی کرنے کے لیے تیار نہ ہوں کیونکہ یہ ہماری مروجہ روایتی، رجعتی سوچ سے متصادم ہیں۔ اس میں پہلی چیز زبانوں کا مسئلہ ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں چار زبانیں بولی، لکھی پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں۔ تین کو سرکاری حیثیت حاصل ہے۔ سوئٹزر لینڈ کی طرح کے ادارے بناتے ہوئے اس اصول کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ بچوں کو ان کی مادری زبان میں ابتدائی تعلیم دی جائے۔ اس سوئس طرز پر پاکستان میں سندھی، بلوچی، سرائیکی، پشتو، اردو، کشمیری وغیرہ میں بچوں کو تعلیم دینے کا اصول تسلیم کرنا پڑے گا، اور ان زبانوں کو سرکاری سطح پر تسلیم کرنا پڑے گا۔ اور اگر ایسے ہوا تو یہ آئندہ نسلوں کے لیے ایک بہت بڑا تحفہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی پوری دنیا میں یہی چلن ہے ۔ اور اس وقت پاکستان میں ذریعہ تعلیم کے لیے زبان کے انتخاب کا مسئلہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کا حل بھی سوئس نظام کے اندر موجود ہے۔ یعنی بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں دی جائے اور ساتھ میں انگریزی دوسری زبان کے طور پر پڑھائی جائے۔ اس کے دو فائدے ہیں۔ ایک: اس سے طبقاتی نظامِ تعلیم میں بہت بڑی حد تک کمی آسکتی ہے۔ دوسرا: اپنی مادری زبان میں تدریس کے لیے اساتذہ آسانی سے دستیاب ہو سکتے ہیں، اور ان کی تربیت کا مسئلہ بھی آسان ہو جاتا ہے۔ اساتذہ کے لیے بچوں کو مادری زبان میں پڑھانا اور بات سمجھانا بھی آسان ہوتا ہے۔ یہ طریقہ تعلیم اپنا کر ہمیں احساس کمتری سے نکلنے میں آسانی ہو گی، اپنے بچوں کے لہجے تبدیل کرنے کی فکر اور مشقت سے بھی جان چھوٹ جائے گی‘ اور بچوں کو اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا یونیورسل حق بھی مل جائے گا۔
جہاں تک اداروں کی بات ہے، تو سوئٹزر لینڈ کے اداروں کے تصور میں کوئی نئی بات نہیں۔ اصل مسئلہ تو مستقل ذہنی کیفیت یا اس ذہنیت کا ہے، جو ہمارے ہاں پائی جاتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ ذہنیت طاقت اور اختیارات کو عوام کے ہاتھ میں جاتے ہوئے دیکھ سکتی ہے، اور برداشت کر سکتی ہے۔ سوئٹزر لینڈ کے لوکل کمیون مکمل طور پر با اختیار ہیں۔ بیشتر اختیارات بلدیات اور شہروں اور قصبوں کی لوکل کونسل کے پاس ہیں‘ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سوئٹزر لینڈ نے ادارے بنا کر ہماری طرح ان کے ہاتھ پائوں نہیں باندھے، بلکہ آئین میں لکھے ہوئے طریقۂ کار کے تحت تمام اختیارات ان اداروں کو منتقل کر دئیے ہیں۔
جہاں تک خواتین کے سماجی‘ معاشی اور سیاسی حقوق کی بات ہے ، تو آئس لینڈ یا ڈنمارک کو تو چھوڑئیے، اگر ہم اس میدان میں روانڈا جیسے ایک غریب افریقی ملک کا ہی مقابلہ کر سکیں تو ہماری خواتین کی زندگی بدل سکتی ہے۔ روانڈا جیسا افریقی ملک پارلیمان میں خواتین کی نمائندگی کے اعتبار سے دنیا میں چوتھے نمبر پر آ گیا ہے۔ یہاں گزشتہ سال کے انتخابات میں خواتین نے اسّی میں سے اکیاون نشستیں جیتی ہیں۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ کسی بھی کامیاب ترین سماج کا طرز حکمرانی اپنانے یا اس کے اداروں جیسے ادارے بنانے سے آپ اپنے نظام کو نہیں بدل سکتے۔ یہ نظام بدلنے کے لیے وہ مستقل ذہنیت بدلنی ضروری ہے، جو ہمارے ہاں عوام کے حقِ حکمرانی کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہے، اور ہمارے پائوں کی زنجیر بن چکی ہے۔ اختیارات کی انتہائی بنیادی اور نچلی سطح پر عوام کو منتقلی اس کی طرف پہلا قدم ہے۔ عوام کو خود ان کے مقدر کا مالک بنانا ہی آزادی اور ترقی کی سمت سفر کا آغازہے۔