کشمیر کا ذکر نہیں ہوا ؟ برا ہوا۔ ذکر ہوتاتو اور برا ہوتا۔ کوئی بھی صاحبِ کردار آدمی، وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی ہی تقریر میں کوئی جھوٹا وعدہ یا جھوٹا دعویٰ کرنا پسند نہیں کرے گا۔ ستر برس سے کشمیر پر بہت جھوٹے وعدے، بہت جھوٹے دعوے ہو ئے۔ اب کہنے ،سننے کو باقی کیا ہے ؟ اب یہ بر صغیر کی سب سے پیچیدہ پہیلی ہے، جس کا سلجھائو اس خطے میں امن کے خواب سے جڑا ہے۔
قوم سے خطاب بہت اچھا تھا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ لاجواب تھا۔ اس میں سارے ضروری مسائل اٹھائے گئے۔ ماضی میں قوم سے جس قسم کے خطاب ہم نے سننے کی مشق کر رکھی ہے، ان کے مقابلے میں تو یہ موسیقی تھی جو کانوں کو بھلی لگی۔ خطاب میں ان سیدھے سادے مگر ہیبت ناک مسائل کا ذکر تھا ، جو پاکستان کے غریب اور مفلوک الحال لوگوں کو درپیش ہیں۔ ان تمام مسائل کو بڑے درد مندانہ انداز بھرائی ہوئی آواز میں پیش کیا گیا۔ مسائل کی فہرست مکمل ہے۔ ان سے اختلاف کی گنجائش ہی نہیں، البتہ مسائل کی جو حل عمران خان صاحب نے پیش کیے ان پر دو سے زائد آرا ہو سکتی ہیں،کہ ہر مسئلے کے ہمیشہ ایک سے زائد حل اور حل کے ایک سے زائد راستے ہوتے ہیں۔
وزیر اعظم نے یہ بات دل گداز پیرائے میں بیان کی ، اور یہ بات وہ ماضی میں کئی بار دہرا چکے ہیں کہ یہ جو مغرب کی کچھ ریاستوں میں جمہوریت، انسانی حقوق اور مساوات کا تصور ہے، وہ انہوں نے مدینہ کی ریاست سے لیا ہے۔ شکر ہے انہوںنے یہ نہیں کہا کہ اہلِ مغرب نے یہ اقدار ہم سے چرائی ہیں۔ ہمارے کچھ جوشیلے مذہبی رہنما اکثر جوشِ خطابت میں یہ فرما چکے ہیںکہ اہلِ مغرب کے پاس پہلی بات یہ ہے کوئی اچھی چیز ہے ہی نہیں۔ یہ تو کفر و شرک کا گڑھ ہے، جس کے سارے ہنستے مسکراتے ، آسودہ حال اور حسین لوگ تو محض جہنم کا ایندھن ہیں، اوربغیر کوئی رحم کھائے براہِ راست جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ڈالے جائیں گے۔ لیکن اگر ان میں کہیں کوئی اچھی چیز ہے بھی مثلاً دیانت داری ، سچائی، جھوٹ کم بولنا، کرپشن میں کمی وغیرہ تو یہ وہ چیزیں ہیں ، جو انہوں نے ہم سے یعنی مسلمانوں سے چرائی ہیں۔ ورنہ گناہ کی دلدل میں دھنسے ہوئے ان لوگوں کو اتنی عقل سلیم کہاں کہ اتنے اعلیٰ اوصاف کے مالک بن سکیں۔ ان نام نہاد علماکے بر عکس عمران خان صاحب جمہوریت، سماجی انصاف اور مساوات جیسی ان اقدار کو حسد اور جلن کے بجائے رشک سے دیکھتے ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ پاکستان جیسے سماجی و معاشی نا انصافی کے شکار سماج میں انہی اقدار کو اپنا کر ایک بڑی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ آپ ان اقدار کو ریاست مدینہ کی اقدار کا نام دیںیا جدید مغربی فلاحی ریاستوں کی اقدار، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ لالچ، خود غرضی، لوٹ کھسوٹ اور آپادھاپی پر مبنی کسی بھی سماج کے بہت سارے مسائل کا حل انہی اقدار میں پوشیدہ ہے۔
یہ غالباً سال دو ہزار بارہ کی بات ہے، عمران خان صاحب نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یورپ میں فلاحی ریاست کا کوئی تصور نہیں تھا۔ یہ تصور انہوں نے مسلم دنیا سے لیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ سکنڈے نیویا کی فلاحی ریاستیں اسی اسلامی تصور کے تحت تشکیل دی گئی ہیں۔ اس لیے سکنڈے نیویا میں اس قانون کو عمر لاء بھی کہا جاتا ہے۔ خان صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں اپنا کلچر واپس اپنی زمین پر لانے کی ضرورت ہے۔ ا س پریس کانفرنس کے بعد سکنڈے نیویا میں مقیم کچھ دانشوروں اور صحافیوں نے یہ کھوج لگانا شروع کی کہ سکنڈے نیویا کے سماجی و معاشی نظام کی تشکیل میں عمر لاء کا کیا کردار ہے۔ اس سلسلے میں اس وقت آن لائن میگزین ویوپوائنٹ نے سویڈن کے ایک مشہور تاریخ دان ڈاکٹر ہاکن بلوموسٹ سے اس پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا تھاکہ ان کے خیال میں کیا واقعی سویڈن کے فلاحی نظام اور عمر لاء میں وہی تعلق ہے جو پریس کانفرنس میں بیان کیا گیا۔ اس تاریخ دان کا کہنا تھا کہ یہ عمر لاء والی بات میں نے پہلی دفعہ سنی ہے۔ یہ تاریخ دان سٹاک ہوم کی ایک یونیورسٹی میں معاصر تاریخ کے ایک تحقیقی ادارے کا ڈائریکٹر ہے، اور اس کا شمار سویڈن کے مستند تاریخ دانوں اور تاریخ کے پروفیسروںمیں ہوتا ہے۔ میں نے کل ہی پھر ناروے کے ایک دانشور سے، جو دنیا میں مختلف فلسفیانہ افکار اور مذاہب کی تاریخ میں گہری دلچسپی رکھتا ہے، یہ سوال کیا۔ اس نے مجھے اس موضوع پر کوئی پندرہ منٹ کا نان سٹاپ لیکچر دیا۔ اس نے قدیم یونان اور روم کی کئی شہری ریاستوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جمہوریت، سماجی انصاف اور مساوات بہت قدیم تصورات ہیں۔ یہ سارے تصورات ان قدیم شہری ریاستوں میں بہت ابتدا ہی سے مختلف شکلوں میں پائے جاتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں رد و بدل ہوتا رہا۔ قدیم ریاستوں میں بہت سے قدریں مشترک تھیں، اس کی وجہ یہ ہے انسان بنیادی طور پر ایک ہی طرح سوچتا ہے۔ جو چیزمدینہ کی ریاست کو باقی قدیم ریاستوں سے ممتاز کرتی تھی وہ یہ تھی کہ اس ریاست میں ابتدا میں جن چیزوں کو اپنایا گیا ان پر بڑی سختی سے عمل بھی ہوا۔ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا۔ مالی بد عنوانیاں اور نا انصافیاں نہیں ہوئیں۔
قطع نظر اس بات کے کہ جمہوریت، سماجی انصاف اور مساوات جیسی اقدار کا ماخذ یا منبع کیا ہے، اہم بات یہ ہے کہ عمران خان ان اقدار کو دل سے اچھاسمجھتے ہیں۔ اور ان کو پاکستانی سماج میں متعارف کروانے کا بھر پور عزم رکھتے ہیں۔ مغرب میں یہ اقدار جہاں سے بھی آئی ہوں، یہاں کے عام لوگ اور دانشور ان اقدار کو پورے دل سے اپنی اقدار مانتے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ سو فیصد لوگ ان اقدار پر ایمان رکھتے ہیں۔ لالچ اور خودغرضی یہاں بھی موجود ہے۔ کچھ دائیں بازو کی قدامت پرست قوتوں کو سماجی و معاشی انصاف اور مساوات کی باتیں ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔ وہ ان چیزوں پر دل میں کڑھتے رہتے ہیں، مگر کچھ کر نہیں سکتے۔ چونکہ مغرب میں عام آدمی بہت سیانا ہو گیا ہے۔ اس لیے وہ طبقاتی مفادات کے نظرئیے اور سیاست کو سمجھتا ہے۔ مگر یہ سچ ہے کہ قانون کی حکمرانی، جمہوریت، سماجی و معاشی انصاف اب یہاں لوگوں کے طرز زندگی کا حصہ ہے۔ زندگی کی ایک بڑی حقیقت ہے۔ کوئی نہ تو اب ان اقدار کی کھل کر مخالفت کرسکتاہے، اور نہ ہی کسی کو ان اقدار کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔ جن اقدار کا عمران خان نے ذکر کیا اور کہا کہ ان کا رواج مدینہ کی ریاست سے قائم ہوا، اب بنی نوعِ انسان کا مشترکہ ورثہ ہیں۔
عمران خان نے عوام سے اپنے دلوں میں رحم پیدا کرنے کی اپیل کی ہے۔ یہ ایک درد مندانہ اپیل ہے جو دلوں میں گداز پیدا کرتی ہے۔ اس سے سماج کے اندر مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ مگر غربت اور نا ہمواریوں جیسے مسائل رحم دلی اور درد مندی سے حل نہیں ہو سکتے۔ جب تک اس رحم اور ہمدردی کو قانون سازی کے ذریعے نظام کا حصہ نہ بنا لیا جائے۔ محض پندو نصائح سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ ایک ہمدردانہ اور انسان دوست نظام ہی انسانی مصائب کا مداوا کر سکتا ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ یہ مغرب و مشرق کی بات نہیں، اچھی اقدار جہاں کہیں بھی ہوں بنی نوعِ انسان کا مشترکہ ورثہ ہیں۔ سماجی و معاشی انصاف کا قیام اور عدم مساوات کا خاتمہ پاکستان کی سماج کی سب سے بڑی اور بنیادی ضرورت ہے۔ پاکستان کی آدھی سے زائد آبادی غربت کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے۔ ظلم و نا انصافی کا شکار ہے۔ عمران خان کے دل میں ان لوگوں کے لیے رحم کے جذبات ہیں، اور وہ باقی لوگوں کے دلوں میں بھی رحم کے جذبات پیدا کر رہے ہیں۔ مگر سیاست کی بے رحم نگری میں رحم کے جذبات کافی نہیں، کسی قسم کی مثبت تبدیلی کے لیے ان جذبات کو قانونی شکل دے کر نظام کا حصہ بنانا ضروری ہے۔