لکھنے پڑھنے کے معاملے میں ہم لوگ کافی افلاس کا شکار ہیں۔ ہمارے ماہرین تعلیم سے لے کر عام آدمی تک‘ سب اس بات سے اتفاق کرتے ہے کہ ہمارا نظام تعلیم رو بہ زوال ہے۔ پاکستان میں پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں لکھائی پڑھائی کا جو معیار تھا، وہ اب نہیں ہے۔ زبان بطور ذریعہ تعلیم، وسائل کی کمی اور نقل کا عام ہونا اس کی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے پچاس اور ساٹھ کی دہائی سے مسلسل رو بہ زوال اس نظام کا اثر زندگی کے ہر شعبے میں پڑنا تھا، جو پڑا۔ ہمارے طلبا عالمی معیار کے کسی مقابلے میں کوئی شاندار کارکردگی نہیں دیکھا سکتے۔ ہمارے سائنسدان دنیا میں کوئی خاص نام نہیں پیدا کر سکے۔ یہی صورت حال اکڈیمیا کی ہے۔ ہماری اکڈیمیا دنیا کی ان معدودے چند شعبوں میں شامل ہے، جن پر نقل کرنے اور پورے پورے تھیسس چوری کرنے کے الزامات لگ چکے ہیں۔ مگر اس زوال کا ایک نمایاں اظہار تحقیق، تخلیق، ادب اور تاریخ میں ہوا۔ ہمارے ہاں اب عالمی معیار کا ادب تخلیق نہیں ہو رہا۔ اس وقت معدودے چند ادیب ہی ہوں گے جن کو کسی بڑے عالمی ادیب کے مقابلے میں رکھا جا سکتا ہے۔ تحقیق کے میدان میں اس صورت حال کے سب سے زیادہ اثرات مرتب ہوئے۔ اس کی ایک مثال ہماری تاریخ کی کتب کی تدوین و تدریس ہے۔ تاریخ ایک ایسا شعبہ ہے، جس میں بہت کم اور غیر معیاری کام ہوا ہے۔ ہمارے ہاں تاریخ کو جس انداز میں لکھا، پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے، وہ دنیا کے آزاد اور کامیاب ممالک کے بر عکس ہے۔ آزاد اور ترقی یافتہ ممالک میں تاریخ کا کوئی ایک یا سرکاری طور پر منظور شدہ بیانہ نہیں پڑھایا جاتا۔ اس کے برعکس ان ممالک کے کمرۂ جماعت میں ایک تاریخ دان اور طالب علم کے درمیان کھڑی دیوار گرائی جاتی ہے۔ ایک سفارتی تاریخ دان با اثر مدبرین کے نقطہ نظر سے تاریخی واقعے کو دیکھتا ہے، اور تاریخی پس منظر، محرکات اور اس کے سفارتی نتائج کے حوالے سے جائزہ لیتا ہے۔ ایک ثقافتی تاریخ نویس ایک خاص دور کی چیزوں، منظر اور آوازوں پر پڑا تہہ در تہہ پردہ اتار کر انسانی بے چینیوں اور جذبات کی کھوج لگاتا ہے۔ ایک مارکسی تاریخ دان واقعات کو طبقاتی عینک سے دیکھتا ہے۔ ایک ہی واقعہ کی مختلف تاریخ دان مختلف تشریح کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ ماضی کے واقعات کو بیان کرنے اور ان کی تشریح کرنے کا نام ہے۔ اگر ہم حقیقت میں تحقیق و تجزئیے کے ان اوزاروںکو سیکھنا اور ان کے استعمال پر عبور حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم تاریخ کے مختف بیانیے پڑھیں اور پیش کریں۔ اور یہ دیکھیں کہ کس طرح مختلف تاریخ نویس ایک ہی واقعے سے مختلف نتائج اخذ کرتے ہیں۔ ایک تاریخ نویس کی تحریر میں موجود کمی دوسرے تاریخ نویس کو پڑھ کر ہی سامنے آ سکتی ہے۔
تاریخ ماضی کو یاد رکھنے اور محفوظ کرنے کی ایک کوشش ضرور ہے، مگر یہ محض یادیں نہیں ہیں۔ یادیں تاریخ کا ایک بنیادی ذریعہ ہیں، مگر وہ اکیلی تاریخ نہیں ہیں۔ تاریخ بنیادی طور پر یادوں کا مجموعہ ہے، جس کے تجزئیے کے بعد ایک با مقصد نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے، لیکن اس مجموعے کا انحصار ان یادوں پر ہے، جن کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جب انتخاب کا وقت آتا ہے، تو ہم اپنے آپ کو اسی سانچے میں ڈھال دیتے ہیں، جو صدیوں پہلے اس خطے میں تاریخ نویسی کے لیے بنا دیا گیا تھا۔ اس سانچے میں رہتے ہوئے تاریخ صرف بادشاہ اور سپہ سالار ہی بناتے ہیں‘ یا ان کے وزیر و مشیر ہی کسی تاریخ کے قابل ذکر کردار ہوتے ہیں۔ اس سانچے میں ڈھلی ہوئی تاریخ میں عام آدمی کا کردار ہوتا ہی نہیں۔ عوام کا کوئی بیانیہ ہی نہیں پیش کیا جاتا۔ اس میں سپاہیوں، پیادوں، مزدوروں اور کسانوں کا ذکر سرسری اور غیر اہم پیرائے میں ہی ہوتا ہے۔ مجھے ایک کتاب یاد آ رہی ہے، جس کا ذکر میں نے گزشتہ ہفتے انہی سطور میں کیا تھا۔ یہ کتاب ایک نسبتا گمنام انگریز پروفیسر ای پی تھامسن نے لکھی‘ جسے بائیں بازو کے ایک چھوٹے سے پبلشر نے چھاپا تھا۔ اس کتاب کے بارے میں پچاس سال بعد گارڈین نے لکھا کہ تب سے آج تک کوئی برطانوی تاریخ نویس اس کتاب کے برابر کی کوئی کتاب نہ سامنے لا سکا۔ اس کتاب کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں انگریز محنت کش طبقے کے تجربات کو ایک نئے زاویے سے دیکھا گیا، اور پیش کیا گیا۔
یہ کتاب انگریز مزدور طبقے کی تاریخ ہے، جس کو اب کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ اس کتاب کو بیسویں صدی کی کامیاب ترین تاریخ کی کتاب تصور کیا جاتا ہے۔ کتاب کے دیباچے میں کتاب لکھنے کا مقصد غریب لوگوں کو بچانے کی ایک کوشش بتایا گیا ہے۔ یہ کتاب سماجی تاریخ کی نئی لہر کا حصہ ہے۔ سیاست، سفارت اور حکومت کے عام دھارے سے باہر رہنے والوں کو تاریخی فریم میں رکھنے کی ایک کوشش ہے۔
اس کتاب کو دنیا بھر میں پڑھا گیا۔ اس پر بے شمار تبصرے لکھے گئے۔ اس سے پہلے کے سماجی اور معاشی تاریخ دان کام کرنے والے لوگوں‘ یعنی محنت کشوں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے رہے۔ لیکن ان کی توجہ کا مرکز ہمیشہ وہ چیزیں رہی ہیں، جو ٹھوس اور قابل احساس ہیں۔ یا وہ لوگ رہے ہیں جو بہت خستہ حال ہیں۔ یا پھر انہوں نے محنت کش کے معاوضوں، ان کے معیار زندگی، یونینز اور ہڑتالوں پر ہی لکھا ہے۔
مگر تھامسن نے ایک مختلف کوشش کی۔ اس نے مزدور انجمنوں اور محنت کش کے معاوضوں پر بھی لکھا‘ لیکن بیشتر کتاب کو اس تجربے کی نذر کیا، جس کو وہ محنت کش کا تجربہ کہتا ہے۔ مقامی اور قومی ریکارڈ اور محفوظ شدہ دستاویزات سے اس نے صبر آزما اور جامع تجزئیے کے بعد اس وقت کے کارخانوں کے رسوم و راج بیان کیے۔ اس نے اس وقت کی ناکام سازشوں، دھمکی آمیز خطوط اور مقبو ل گیتوں پر لکھا۔ اس نے آرکائیو سے وہ مواد لیا جس کو دوسرے تاریخ نویسوں نے ردی قرار دے دیا تھا؛ چنانچہ اس نے دوسرے تاریخ نویسوں کے سامنے سخت سوالات رکھے۔ اس طرح اس کتاب میں اس نے ان انسانی تجربات کو بیان کیا، جس پر ابھی تک تاریخ دانوں نے نہیں لکھا تھا۔ اس کتاب کے منظر عام پر آنے کا وقت بھی بہت مناسب تھا۔ ساٹھ کی دھائی میں یونیورسٹی کے شعبے میں بہت وسعت آئی تھی۔ نئی یونیورسٹیاں بن رہی تھیں۔ یہ نئی یونیورسٹیاں ایسے لیکچراروں اور طلبہ سے بھر رہی تھیں، جو روایتی طور پر تعلیم و تدریس کی ایسی مراعات نہیں رکھتے تھے، جو اب ان کو حاصل تھیں؛ چنانچہ بہت سوں کو تھامسن کی کتاب میں دکھائے گئے بے چارے، مغلوب اور گرے پڑے لوگوں سے ہمدردی محسوس ہوئی۔ یہ ایک ایسا وقت بھی تھا جب مارکسی دانشور ابھی تک یقین رکھتے تھے کہ سرمایہ داری کا حقیقی متبادل موجود ہے، اور حقیقی مارکسزم کو ابھی تک آزمایا ہی نہیں گیا۔
تھامسن نے اپنی کتاب میںکئی ایسے سوالات کا جواب نہیں دیا، جو اس وقت زبان زد عام تھے۔ مگر سوالات کا حتمی جواب دینے کے بجائے اس کا مقصد سماج میں ایک جگہ بنانا تھا، جس میں اساتذہ اور طلبہ کی آئندہ نسلیں پسماندہ اور بے بس لوگوں کی بات بھی کریں جنہوں نے تاریخ پر بظاہر بہت کم اثر مرتب کیا، ان کا ذکر بہت کم آیا، مگر در حقیقت ان کا کردار بہت اہم ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ہمارے ہاں تاریخ عموماً بڑے اور طاقت ور لوگوں کے قصے کہانیوں اور یادوں کو سمجھا جاتا ہے؛ چنانچہ ہماری تاریخ صرف انہی قصے کہانیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ عام لوگوں کے اہم اور بنیادی کردار کو یا تو تاریخ میں پیش ہی نہیں کیا جاتا یا پھر ان کو ایک غیر متحرک اور غیر اہم شے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تاریخ کا صرف ایک ہی اور عموماً سرکاری طور پر منظور شدہ بیانیہ پڑھایا جاتا ہے، جس سے تصویر کا صرف ایک ہی رخ سامنے آتا ہے۔ دوسرا ہمارے ہاں علمی و فکری آزادی کا فقدان بھی ہے، جس کی وجہ سے کسی بھی تاریخی واقعے کو علمی و تحقیقی انداز میں دیکھنے کے بجائے طے شدہ پالسیی اور حکومتی گائیڈ لائن کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے۔