آج کل ایوانوں میں صفائی کا بہت چرچا ہے۔ ارباب اختیار شہروں کو صاف بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔ یہ قابل تحسین بات ہے۔ صفائی محض ایک ضرورت نہیں، یہ صحت مند زندگی کی بنیادی شرط ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے شہروں میں گندگی کا آغاز اس سوچ سے ہوتا ہے جس کے تحت ہم نے صدیوں سے یہ طے کر رکھا ہے کہ میرے شہر، میرے گلی محلے کو صاف رکھنے کی ذمہ داری فقط ایک ذات یا مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ یا یہ ملک کے غریب ترین طبقے کا کام ہے۔ چوہڑے چمار کا پیشہ ہے، کسی کمی کمین کا کام ہے۔ یا پھر یہ میونسپیلٹی کی ذمہ داری ہے۔ جس ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہو‘ اور وہ مذہب صفائی کو نصف ایمان قرار دیتا ہو، وہاں صفائی کا سارا سلسلہ ایک طبقے کی ذمہ داری ٹھہرے، یا پھر غربت اور پسماندگی کے ماروں کا کام رہ جائے تو یقینا کچھ غلط ہے۔ مادی گندگی کو ہٹانے کی مہم انتہائی ضروری ہے ، مگر وہ گندگی ہٹانا بھی ضروری ہے ، جس نے ہمارے ضمیر اور روح پر قبضہ کر رکھا ہے۔
ہمارے ہاں صفائی اور گندگی کے ساتھ جو نفسیات جڑی ہے، وہ احساس برتری ہے، جو دراصل گہری احساس کمتری ہے۔ ارباب اختیار کی صفائی کی خواہش بہت اچھی ہے‘ مگر کافی نہیں۔ انہوں نے سماج سے تعصبات اور فرسودگی کی ان فلک بوس عمارتوں کو گرانا ہو گا جو ہم نے اس ضمن میں ذہنی طور پر تعمیر کر رکھی ہیں۔ ذہن اور مائنڈ سیٹ بدلنا ہو گا۔ ایسا کرنے کے لیے نا صرف ہمارے نصاب تعلیم میں تبدیلی کی ضرورت ہے، بلکہ ارباب اختیار کی طرف سے عملی اقدامات بھی لازم ہیں۔ مثال اور کردار کے ذریعے عوام کو ترغیب دینے اور انسپائر کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایسا تب ہی ہو گا جب جھاڑو اور گٹر کے ساتھ جڑی ذلت کا تصور ختم ہو گا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سرکاری وسائل کا اس مد میں سلیقے سے استعمال ہو گا۔ ایسا کرنے کے لیے گندگی اور صفائی کی سائنس اور آرٹ کو سمجھنا اور عوام کو سمجھانا بہت ضروری ہے۔ گندگی محض گلی میں پڑے کوڑا کرکٹ کا نام نہیں ہے۔ اور صفائی اسے اٹھا کر کہیں اور پھینک دینے سے نہیں ہوتی۔ اس وقت عالمی سطح پر جس چیز کو صفائی کہا جاتا ہے اس کے پانچ بنیادی عناصر ہیں۔ ان میں پہلا بڑا اور انتہائی اہم فیکٹر صاف پینے کے پانی کی دستیابی اور اس تک عام آدمی کی رسائی ہے۔ سڑک پر پڑا ہوا کوڑا کرکٹ ایک بد نما نظارہ ہے۔ اس کی سرانڈ اور بد بو بری لگتی ہے، اوراس سے چند بیماریاں بھی پھیل سکتی ہیں۔ لیکن جو نا قابل تلافی نقصان گندے پانی کے استعمال سے ہوتا ہے، اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کسی بھی شہر یا ملک میں صفائی کو صاف پانی کی وافر دستیابی کے ساتھ مشروط کرتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر بڑا فیکٹر کوڑا کرکٹ اٹھانا ہے۔ تیسرا بڑا عنصر استعمال شدہ اور گندے پانی کی نکاسی کا مناسب نظام ہے۔ چوتھا بڑا فیکٹر ہوا میں پائی جانے والی آلودگی ہے۔ صفائی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ کی سڑکیں اور گلی محلے چمکدار ہوں ، لیکن آپ کا پانی آلودہ ہو اور ہوا میں زہر گھلا ہو۔ صفائی کا انسانی صحت سے گہرا تعلق ہے۔ اور اس کا بنیادی مقصد ہی انسانی صحت کا تحفظ ہے۔ اس لیے جب تک ان پانچوں عناصر پر کام نہ کیا جائے اس وقت تک صفائی کے میدان میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہو سکتا۔ ان پانچوں فیکٹرز میں عوام کا کردار کلیدی ہے۔ جب تک عوام صحت اور صفائی کے بارے میں حساس نہیں ہوتے اس وقت تک صورتحال نہیں بدل سکتی۔ مگر اس باب میں حکومت کے کرنے کا جو ایک اہم ترین کام ہے وہ عوام کو اس معاملے کا احساس دلانا ہے، اور حساس بنانا ہے۔ دوسرا اس ضمن میں سخت قوانین بنانے اور ان قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرنا ہے۔ اس ضمن میں مغربی اور ترقی یافتہ دنیا میں بے شمار ایسے شہر ہیں ، جن کی صفائی کے معیار اور نظام پر رشک کیا جا سکتا ہے۔ چند سال پہلے کینیڈا کا ایک شہر کیلگری دنیا کے صاف ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر آیا تھا۔ دوسرے کئی مغربی شہروں کی شاندار مثالیں بھی ہیں۔ مگر یہاں میں مثال دوں گا ایک مشرقی مگر ترقی یافتہ ملک سنگا پور کی تاکہ جو لوگ مغرب کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے ہیں، ان کے دل کے نازک آبگینے کو ٹھیس نہ پہنچے۔ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا حامی ہونے کی وجہ سے مجھے سنگا پور کے بہت سارے قوانین سے اختلاف ہے۔ کئی معاملات میں اس کے قوانین کو کالے قانون قرار دیا جا سکتا ہے۔ صفائی کے باب میں بھی کچھ قوانین زیادہ ہی سخت ہیں۔ لیکن بسا اوقات کسی قوم کو کسی بڑے روگ سے چھٹکارا دلانے کے لیے کچھ معاملات میں معقول حدود کے اندر رہ کر شہری آزادیوں پر سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔ سنگا پور میں صفائی کے بابت سال انیس سو ساٹھ میں وزیر اعظم لی کان ییو نے کچھ سخت قوانین بنائے تھے ، جو اب تک رائج ہیں۔ بدلتے زمانے اور سنگا پور کے ایک مہذب اور ترقی یافتہ قوم بننے کے بعد آج شاید ان قوانین میں مناسب ترامیم کی جا سکتی ہیں، مگر حکام وقت اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ نظام کامیابی سے چل رہا ہے، اور عوام کو ان سخت قوانین سے کوئی بڑا شکوہ نہیں۔ انیس سو ساٹھ کے اس قانون کے تحت پہلی دفعہ گندگی پھیلانے کے جرم کا مرتکب ہونے والے شخص کو ایک ہزار ڈالر تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔ دوبارہ یہ جرم کرنے والے کو پانچ ہزار ڈالر جرمانہ، کمیونٹی سروس اور گندگی کے خلاف لیکچرز میں شرکت کی سزا دی جا سکتی ہے۔ تیسری مرتبہ اس جرم کے مرتکب شخص کو ایک سائن پہننے کی سزا دی جا سکتی ہے، جس پر لکھا ہوتا ہے کہ میں گندگی کی اوجھڑی ہوں۔ سنگا پور میں چیونگم پھینکنے پر یا ٹائلٹ نہ فلش کرنے پر سو ڈالر جرمانہ ہو سکتا ہے۔ سنگا پور آج دنیا کے صاف ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس نے اس مقصد کے لیے کچھ شہری آزادیوں کی قربانی ضرور دی۔ مگر شہری آزادیوں کا کوئی بہت بڑا پرچارک بھی کسی شہری کے لفٹ کے اندر تھوکنے یا گلی میں پیشاب کرنے کے حق کے لیے لڑنے کو تیار نہیں۔ اس باب میں جن لوگوں کو سخت سزائوں یا شہری آزادیوں کے محدود ہونے کا اعتراض ہے، ان کے لیے ایک افریقی ملک روانڈا قابل تقلید مثال ہے۔ روانڈا نے کسی سخت سزا کے بغیر صفائی کا ایک بہترین معیار قائم کیا ہے۔ پاکسان کی نئی حکومت شاید روانڈا کو بطور مثال اپنا کر بڑے وسائل اور سخت سزائوں کے بغیر ہی صفائی کا معیار قدرے بہتر کر سکتی ہے۔ صفائی کے لیے کئی دوسرے اقدامات کے علاوہ روانڈا میں ہر مہینے کے آخری ہفتے کی صبح تین گھنٹے کے لیے ہر قسم کی ٹریفک رک جاتی ہے، اور پورے کا پورا شہر صفائی کے لیے باہر نکل آتا ہے۔ اس دن اٹھارہ سے پینسٹھ سال کے تمام لوگ قانونی طور پر تین گھنٹے تک اپنے حصے کی صفائی کرنے کے پابند ہیں۔ تین گھنٹوں کی اس پُر مشقت مشق کے دوران ایک تو شہر گندگی سے پاک ہو جاتا ہے اور دوسرا اپنے ہاتھوں خود صفائی کا عمل شہریوں کو صاف رہنے اور سڑکوں پر گندگی پھیلانے سے باز رکھتا ہے۔ یہ لوگ سزا کے خوف سے نہیں، بلکہ فخر سے یہ کام کرتے ہیں۔ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ ان کا شہر لندن اور نیو یارک سے زیادہ صاف ہے۔ اور شہروں میں صفائی کرنے والی عورتوں کی ایک پوری فوج انتہائی کم معاوضوں کے باوجود صفائی کے کام کو حب الوطنی کا تقاضا سمجھ کر سر انجام دیتی ہیں۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ سڑکوں سے کوڑا کرکٹ ہٹانا یا گندے نالے صاف کر دینا صفائی نہیں، یہ اس کا صرف جمالیاتی پہلو ہے۔ پینے کو صاف پانی اور سانس لینے کے لیے صاف ہوا بھی صفائی کے اہم اور بنیادی عناصر ہیں۔ صفائی محض ذوق جمال کی بات نہیں، یہ صحت سے جڑی ہے اور زندگی کی ناگزیر ضرورت ہے۔