ہر قوم کے لیے ایک کہانی ضروری ہے۔ اپنی کہانی کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ آزاد ترقی یافتہ دنیا میں بہت کچھ مشترک ہے‘ اس کے باوجود سب کی اپنی اپنی کہانی بھی ہے۔ جاپان اور جرمنی کی اپنی کہانی ہے۔ فرانس اور امریکہ کی اپنی اپنی کہانی ہے۔ سکینڈے نیویا والوں کی بالکل جداگانہ اور منفرد داستان ہے۔ یہ کہانیاں ان کو ایک ہی طرح کے نظامِ زندگی اور ثقافتوں میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے جدا کرتیں ہیں۔ یہ کہانیاں ان کو پسماندگی سے نکال کر ترقی کے راستے پر چلانے کے لیے انجن کا کام دیتی ہیں۔
پاکستان میں المیہ یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے پاس کوئی ایسی کہانی ہی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس بے مثال شخصی قربانیوں کی داستان ہے‘ مگر یہ پارٹی اس عظیم کہانی کو ملک کے غریب عوام کے مسائل اور مستقبل کے ساتھ جوڑ نہ سکی۔ مسلم لیگ کا حال اس سے بھی برا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے پاس ایک جمہوری اور روادار پاکستان کی کہانی تھی، جس کو انہوں نے گیارہ اگست والی تقریر میں واضح کر دیا تھا۔ مسلم لیگ مگر اس کہانی کو آگے لے کر چلنے میں ناکام رہی۔ اب اس کے دامن میں چند سڑکوں اور پلوں کے سوا بیان کرنے کو کچھ نہیں‘ یا پھر چند ایک ذاتی المیے ہیں جنہوں نے اس کی داستان میں کچھ رنگ بھرے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے خوابوں اور امکانات کے جہاں سجائے ہیں‘ مگر ان کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے جو وسائل چاہئیں وہ ان کے پاس نہیں ہیں‘ اور نہ ہی کوئی انہیں کھل کر بتاتا ہے کہ یہ وسائل آئیں گے کہاں سے؟ دنیا کے کسی بھی ملک میں تاریخ میں آج تک جو تبدیلی آئی ہے، اس کے پیچھے ایک کہانی رہی ہے۔ یہ کہانی اس نقشے پر مشتمل ہوتی ہے جو عوام کے سامنے رکھا جاتا ہے‘ اور انہیں پوری تفصیل سے بتایا جاتا ہے کہ راستہ کون سا ہے، اور منزل کیا ہے۔ یہ خواہ کمیونزم ہو، لبرل ازم ہو یا کوئی اور نظام۔ تاریخِ انسانی میںآج تک کسی بھی نظام نے انسان کو درپیش ہر مسئلے کا حل نہیں پیش کیا، مگر ہر نظام نے ایک وقت میں انسان کا کوئی نہ کوئی بڑا مسئلہ ضرور حل کیا۔ اپنے وقت کے کچھ مشکل مسائل حل کیے۔ ابتدا میں ایک حد تک ترقی پسندانہ کردار ادا کیا۔ پھر اپنے سلسلۂ عمل میں یہ نظام فرسودگی کا شکار ہو کر خود اپنے بوجھ کے نیچے دب کر ٹوٹ گیا۔ اس تاریخی سلسلۂ عمل کو انتہائی تفصیل سے پروفیسر حریری نے اپنی تازہ کتاب 'اکیسویں صدی کے لیے اکیس اسباق‘ میں پیش کیا ہے۔
حریری لکھتا ہے کہ انسان اعداد و شمار اور حقائق کے بجائے کہانی کے ذریعے سوچتا ہے۔ اور کہانی جتنی سادہ ہو اتنی ہی بہتر ہوتی ہے۔ ہر فرد، گروہ اور قوم کے اپنے اپنے قصے ‘ اپنی اپنی کہانیاں ہوتی ہیں‘ لیکن بیسویں صدی کے دوران عالمی اشرافیہ نے لندن، نیو یارک اور ماسکو میں تین عالمی کہانیاں تیار کیں ۔ ان کہانیوں میں انسان کے سارے ماضی کی وضاحت اور مستقبل کی پیشین گوئیوں کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ یہ تین کہانیاں فاشسٹ، کمیونسٹ اور لبرل ازم کی کہانیاں تھیں۔ دوسری جنگ عظیم نے فاشزم کی کہانی کو شکست دے کر میدان سے باہر کر دیا‘ اور سال انیس سو چالیس سے لے کر انیس سو اسی تک دنیا دو کہانیوں یعنی کمیونزم اور لبرل ازم کے درمیان میدان جنگ بنی رہی۔ پھر کمیونزم کی کہانی ختم ہو گئی‘ اور لبرل ازم کی کہانی انسان کے ماضی کی وضاحت اور دنیا کے مستقبل کے ناگزیر دستورالعمل کے طور پر باقی رہ گئی۔
لبرل ازم کی کہانی آزادی کی قدر و قیمت اور طاقت کے جشن کا امکان پیدا کرتی ہے۔ یہ کہتی ہے کہ انسان ہزاروں سال تک جابر حکمرانوں کے تسلط میں رہا ہے۔ اس حکمران نے انسان کو بہت محدود سیاسی آزادیاں دیں۔ بہت ہی کم معاشی مواقع عطا کیے، شخصی آزادیاں سلب کیے رکھیں‘ اور فرد کی آزادی، خیالات اور اشیا پر سخت پابندیاں عائد کیے رکھیں۔ لیکن لوگ اپنی آزادی کے لیے لڑتے رہے اور قدم بہ قدم آزادی نے اپنی جگہ بنائی۔ جمہوری حکومتوں نے ظالم آمریتوں کی جگہ لی۔ آزاد تجارت سے معاشی پابندیاں کم ہوئیں۔ لوگوں نے اپنے لیے سوچنا شروع کیا۔ متعصب پادریوں اور تنگ نظر روایات کی جگہ اپنے دل کی بات سننا شروع کی۔
لبرل کہانی تسلیم کرتی ہے کہ دنیا میں سب اچھا نہیں ہے، اور ابھی کئی مسائل ہیں ، جن پر قابو پانا باقی ہے۔ ہماری زمینی کائنات کا ایک بڑا حصہ اب بھی ظلم کے غلبے میں ہے‘ یہاں تک کہ انتہائی آزاد ممالک میں بھی کئی عام شہری غربت، تشدد اور جبر کا شکار ہیں، مگر ہم کم از کم یہ تو جانتے ہیں کہ ان مسائل کا حل لوگوں کو مزید آزادیاں دینا ہے۔ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ انسانی حقوق کا تحفظ کریں۔ لوگوں کو ووٹ کا حق دیں۔ آزاد منڈیاں قائم کریں۔ دنیا میں افراد، خیالات اور اشیا کی آزادانہ نقل و حرکت کی ہر ممکنہ حد تک اجازت دیں۔ یہ لبرل اکسیر اعظم ہے ، جو جارج بش اور بارک اوبامہ‘ دونوں نے ایک ہی طرح تسلیم کیا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ہم اسی طرح اپنے سیاسی اور معاشی نظام کو آزاد کرتے رہیں، تو امن و خوشحالی آ جائے گی۔ ان کے خیال میں یہ آزادی کی سمت عظیم مارچ تھا۔ جو ملک آزادی کی سمت اس عظیم مارچ میں شامل ہوں گے ان میں جلدی خوشحالی آئے گی۔ جو ملک مزاحمت کریں گے ان کو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ وہ پیچھے رہ جائیں گے، اور بالآخر ایک دن ان کو اس کا احساس ہو گا۔
نوے کی دہائی میں یہ کہانی ایک مقبول عالمی منتر تھا۔ برازیل سے بھارت تک کئی ممالک نے تاریخ کے اس مارچ میں شرکت اختیار کی۔ جو نہ شریک ہوئے ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ تاریخ کی غلط سمت میں کھڑے ہیں۔ بل کلنٹن نے بڑے اعتماد سے چین کو بتایا تھا کہ چینی سیاست کو آزاد کرنے سے انکار کا مطلب تاریخ کی غلط سمت میں کھڑا ہونا ہے۔ تاہم دو ہزار آٹھ کے عالمی معاشی بحران کے بعد دنیا میں لبرل کہانی کے بارے میں خوش فہمی ختم اور وہم دور ہو گیا۔ اس کے بعد اب آزادانہ تجارت اور افراد کی آزادانہ نقل و حمل کے خلاف مزاحمت ہو رہی ہے۔ آج ہمارے سامنے دنیا بھر میں جمہوری حکومتیں عدلیہ کو کمزور کر رہی ہیں، پریس کی آزادی کو محدود کر رہی ہیں، اور سیاسی مخالفت کو غداری قرار دے رہی ہیں۔ روس اور ترکی میں مردان آہن ایک نئی آمریت کا تجربہ کر رہے ہیں۔ اور آج بہت ہی کم لوگ بل کلنٹن جیسے اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ چینی کمیونسٹ پارٹی تاریخ کی غلط سمت پر کھڑی ہے۔
سال انیس سو اڑتیس میں انسان کو تین کہانیوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ انیس سو اڑسٹھ میں ہمارے پاس دو ، اور انیس سو اٹھانوے میں صرف ایک کہانی باقی رہ گئی تھی۔ اور سال دو ہزار اٹھارہ میں ہم زیرو پر پہنچ گئے ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس کوئی کہانی ہی نہیں ہے۔ اس میں حیرت کی بات نہیں کہ لبرل اشرافیہ کا وہ چھوٹا سا گروہ ، جس کا دنیا پر غلبہ تھا اب بے سمت ہے۔ اچانک بغیر کسی کہانی کے رہ جانا بڑی ڈرائونی بات ہے۔ جب کسی چیز کا بھی کوئی مطلب نہ ہو۔ جیسا کہ اسّی کی دہائی میں سوویت اشرافیہ کے ساتھ ہوا تھا ۔ لبرل ازم کو بھی اندازہ نہیں کہ تاریخ اپنے طے شدہ راستے سے کیسے ہٹ چکی ہے، اور ان کے پاس حقائق کی تشریح کا کوئی متبادل راستہ نہیں ہے۔ ہوش و حواس کے اختلال یعنی چکرا جانے کی وجہ سے وہ الہامی اورکشفی انداز میں سوچنے لگے ہیں، جیسے یہ معرکۂ خیر و شر ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ سیاست کوئی معرکہ خیر و شر نہیں۔ یہ نظریات کی جنگ ہے۔ ہر نظریہ کسی نہ کسی طبقے کے مفادات کا ترجمان ہوتا ہے۔ نیا پاکستان بنانے والوں کو اگر ملک سے غربت، بے روزگاری اور نا انصافی کا خاتمہ کرنا ہے تو انہیں ان طبقات کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا جو ان آفات کا شکار ہیں نہ کہ ان کے ساتھ جو آفات کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے لیے ایک کہانی ضروری ہے‘ اور یہ کہانی ہی کسی حقیقی تبدیلی کی نوید ثابت ہو سکتی ہے۔