پاکستان میں جمہوریت جڑیں پکڑ چکی ہے۔ سماج میں اپنے لیے جگہ بنا چکی۔ حال ہی میں اقتدار تیسری بار شائستگی سے ایک تیسری پارٹی کو منتقل ہو گیا ہے۔ اب جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔ ہم لوگ آج کل یہ چار فقرے اکثر سنتے اور پڑھتے ہیں۔ ان چار فقروں میں بڑی حد تک صداقت ہے۔ مگر یہ آدھا سچ ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی جمہوریت پختہ نہیں ہوئی۔ اس کو درپیش خطرات ابھی ٹلے نہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ ایسا کرنا خود جمہوریت کی بقا اور تسلسل کے لیے ضروری ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان میں یکے بعد دیگرے تین انتخابات ہو چکے ہیں۔ مگر جیسا کہ ان سطور میں بارہا عرض کیا، اور جب تک ضروری ہے عرض کیا جاتا رہے گا، کہ جمہوریت فقط انتخابات کا نام نہیں۔ یہ ایک طرز زندگی ہے۔ ایک طرز فکر ہے۔ ایک ثقافت ہے۔ جس نظام میں رواداری بڑھنے کے بجائے گھٹ رہی ہو۔ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا احترام کم ہو رہا ہو۔ معاشی اور سماجی عدم مساوات میں اضافہ ہو رہا ہو۔ وہ نظام محض اس لیے جمہوری نہیں ہوتا کہ اس میں با قاعدگی سے چند انتخابات ہو چکے۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے ہارورڈ یونیورسٹی کے نفسیات کے پروفیسر اور مشہور لکھاری سٹیون پنکر کا اس موضوع پر ایک مضمون پڑھا تھا۔ اس مضمون میں اس نے دنیا میں جمہوریت کے اتار چڑھائو اور اس کی کامیابیوں اور نا کامیوں کا حساب کتاب پیش کیا تھا۔ پروفیسر لکھتا ہے کہ تقریباً پانچ ہزار برس سے انسان کسی نہ کسی اختیار یا اقتدار کے تحت رہ رہا ہے۔ اسے ہر دور میں انتشار اور طوائف الملوکی سے تحفظ کی ضرورت رہی ہے۔ انسان تب سے کسی ہرج مرج اور تشدد سے بچنے کے لیے اہل اقتدار کی طرف رجوع کرتا ہے، اور کبھی حکومت کے ظلم و استبداد سے تنگ آ کر بغاوت پر اتر آتا ہے۔ کبھی انقلاب کا پرچم اٹھاتا ہے۔
اقتدار اور طاقت سے پہلے قدیم قبائل ہمہ وقت جنگ اور خون خرابے میں مصروف رہتے تھے۔ ان کے اس چلن کی وجہ سے جدید دور کے پُر تشدد زمانوں سے بھی زیادہ قتل و غارت گری ہوتی رہی۔ ابتدائی ادوار کی حکومتیں جن لوگوں پر حکومت کرتی تھیں، ان کی حفاظت کا ذمہ بھی لیتی تھیں، جس سے تشدد اور آشوب میں کچھ کمی ضرور ہوئی، مگر دوسری طرف حکومتوں نے خود اپنے ظلم کے بازار گرم کیے رکھے۔ عام لوگوں کے خلاف جو ظالمانہ حربے اختیار کیے جاتے ان میں غلامی، حرم، انسانی قربانی، سزائے موت اور اختلاف کرنے والوں پر وحشیانہ تشدد وغیرہ عام تھے۔ یہ استبداد تھا۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں استبداد اور مطلق العنانی رہی ہے۔ اس لیے نہیں کہ مطلق العنانیت کوئی اچھا کام تھا، بلکہ اس لیے کہ اس کا متبادل بہت زیادہ پُر اشوب اور بُرا تھا۔
انتشار اور افراتفری استبداد سے بھی زیادہ مہلک چیز ہے۔ اگر تاریخ سے اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو لگتا ہے کہ دنیا میں جتنا خون خرابہ طاقت یا اقتدار کے ٹوٹنے اور افراتفری سے ہوا، اتنا طاقت یا اختیار کے استعمال سے نہیں ہوا۔ دنیا میں مٹھی بھر آمروں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جنہوں نے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو مروایا‘ مگر یہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو سترہویں صدی کے روس یا سال انیس سو چھبیس سے سال انیس انچاس تک چینی خانہ جنگی کے دوران ہوا۔ یا پھر سال انیس سو دس سے سال انیس بیس کے درمیان میکسیکو میں جو لاکھوں اموات ہوئیں، ان کی وجہ اقتدار اور اختیار کا بریک ڈائون تھا۔
جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت ہے، جس میں حکومت لوگوں کو ایک دوسرے کا شکار کرنے سے روکتی ہے۔ ایک اچھی حکومت کا سب سے پہلا کام لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ استبداد، جبر اور ظلم سے بچا کر آزادی سے زندگی گزارنے کے موقع فراہم کرنا ہے۔ صرف اس ایک وجہ سے ہی جمہوریت انسانی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، لیکن یہ واحد وجہ نہیں ہے۔ جمہوریت میں ترقی کی شرح زیادہ ہے۔ اس میں جنگیں اور قتل و غارت گری کم ہوتی ہے۔ اس میں نسبتاً زیادہ صحت مند اور زیادہ بہتر تعلیم یافتہ شہری ہوتے ہیں۔ اس میں قحط سالی نہیں ہوتی۔ سچی جمہوریت میں کوئی شخص بھوکا نہیں مر سکتا۔ مٹھی بھر لوگ سارے وسائل پر قابض نہیں ہو سکتے۔ اگر یہ سب ہو رہا ہے تو سمجھ لیں جمہوریت میں کوئی سقم ہے‘ اور یہ سچی جمہوریت نہیں ہے۔
سیمول ہنٹنگٹن جمہوریت کی تاریخ کو تین لہروں میں تقسیم کرتا ہے۔ پہلی لہر انیسویں صدی کے ابتدا میں آئی۔ یہ وہ وقت تھا جب روشن خیالی پر عظیم تجربات ہوئے۔ اس وقت مغربی ممالک میں جمہوریت ہر قسم کے چیک اور بیلنس کے ساتھ کام کرتی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ تھوڑے بہت مقامی فرق کے ساتھ اس تجربے کو کئی مغربی ممالک میں دہرایا گیا۔ ان ممالک کی تعداد سال انیس سو بائیس تک تقریباً تیس تک پہنچ گئی‘ مگر جمہوریت کی اس پہلی لہر کو فاشزم کے ابھار نے پیچھے دھکیل دیا‘ اور انیس سو بیالیس تک جمہوری ممالک کی تعداد صرف بارہ رہ گئی۔ دوسری جنگ عظیم میں فاشزم کی شکست کے بعد نوآبادیاتی ملکوں نے خود مختاری حاصل کرنا شروع کی۔ اس دور میں جمہوریتوں کی تعداد سال انیس باسٹھ میں چھتیس تک پہنچ چکی تھیں‘ مگر اس کے باوجود یورپین جمہوریتیں مشکل کا شکار رہیں۔ مشرق میں سوویت نواز آمریتوں کے زیر نگین رہیں‘ اور شمال مغرب میں فاشسٹ آمریتوں کے درمیان سینڈوچ بن گئیں۔ جمہوریت کی دوسری لہر کو جلدی ہی یونان اور لاطینی امریکہ میں فوجی جنتا، ایشیا میں مطلق العنان حکمرانوں، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں کمیونسٹ انقلابوں نے پیچھے دھکیل دیا۔ ستر کے وسط تک جمہوریت کا مستقبل روکھا اور بے رنگ لگتا تھا۔ جرمن چانسلر ولی برانٹ اور امریکی سینیٹر اور سماجی سائنس دان دانیال پیٹرک جیسے لوگ مستقبل قریب میں جمہوریت کے مکمل خاتمے کی پیشین گوئی کر چکے تھے۔ مگر ان پیشین گوئیوں کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے جمہوریت کی تیسری لہر سونامی کی طرح اٹھی۔ فوجی اور فاشسٹ آمریتوں کے گرنے کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ سلسلہ یونان، سپین، پرتگال، ارجنٹینا، برازیل، چلی، تائیوان، فلپائن اور جنوبی کوریا تک پھیل گیا۔ سال انیس سو نواسی میں دیوارِ برلن گر گئی، اور مشرقی یورپ کی اقوام نے اپنے اپنے ملکوں میں جمہوریتیں قائم کرنا شروع کر دیں۔ سال انیس سو اکانوے میں سوویت یونین کے ٹوٹنے سے روس اور دوسرے ممالک کے لیے راستہ صاف ہو گیا۔ افریقہ میں کچھ ریاستوں نے طویل مدتی آمروں سے چھٹکارا پایا۔
سال انیس سو نواسی میں فرانسس فوکویاما کا مشہور مضمون سامنے آیا، جس میں اس نے لکھا کہ لبرل جمہوریت تاریخ کے خاتمے کا نشان ہے، اس لیے نہیں کہ آئندہ تاریخ میں کچھ نہیں ہو گا، یا تاریخ یہاں ہی ختم ہو جائے گی، بلکہ اس لیے کہ دنیا میں حکومت کرنے کے بہترین طریقے پر دنیا میں اتفاق ہو رہا ہے، اور وہ طریقہ جمہوریت ہے۔ اور اب دنیا کو نظام پر لڑنے کی ضرورت نہ ہو گی۔
مگر اس کے فوراً بعد متبادل نظام سامنے آنا شروع ہو گئے‘ جیسے کچھ مسلم ممالک میں تھیوکریسی اور کچھ دوسرے ممالک میں آمرانہ سرمایہ داری نظام۔ جمہوریت نے استبدادی یا آمرانہ نظاموںکو خود جگہ دینا شروع کر دی۔ پولینڈ، ہنگری، ترکی اور روس میں قدیم زار اور سلطان نما حکمران واپس آنا شروع ہو گئے۔ قنوطیت پسندوں نے جمہوریت کی تیسری لہر کی پسپائی کا عندیہ دینا شروع کیا۔ انہوں نے جمہوریت کو مغربی دنیا کا زعم اور خود فریبی قرار دیا، جسے وہ باقی دنیا پر مسلط کرنا چاہتے تھے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ دنیا بھر میں جمہوریت نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ کئی ممالک میں جمہوریت ایک طوفانی لہر کی طرح اٹھی، اور کچھ عرصے بعد پیچھے دھکیل دی گئی۔ اس کی جگہ مطلق العنان قوتوں نے لے لی۔ روس کی طرح کئی ممالک میں انتخابات کا تسلسل تو برقرار رکھا گیا، مگر وہاں پر انسانی حقوق اور شہری آزادیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ فکر پر پہرے بٹھائے گئے؛ چنانچہ کسی ملک میں جمہوریت کی سطح اور معیار معلوم کرنے کی کسوٹی انتخابات نہیں، انسانی حقوق اور شہری آزادیاں ہیں۔ اور سب سے مقدم آزادی اظہارِ رائے ہے، جس کے بغیر جمہوریت بے معنی ہے‘ مگر اس بے معنی جمہوریت کا متبادل بھی جمہوریت ہی ہے، ایک حقیقی اور سچی جمہوریت۔