"FBC" (space) message & send to 7575

کیا ہم بھیڑ چال والے لوگ ہیں؟

بھیڑ چال، اندھی تقلید اور بلوائی ذہنیت کیا ہے؟ یہ تھا ایک مقامی ٹاک شو کا موضوع، جس میں آج مجھے شرکت کی دعوت تھی۔ اگرچہ مجھے ان تینوں چیزوں سے زندگی میں تھوڑا بہت واسطہ پڑا ہے اور میں نے بڑے قریب سے ان صفات یا خامیوںکو دیکھا ہے اور ان کا مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے۔ لیکن پھر بھی جب میں نے اس موضوع پر غور کرنا شروع کیا تو مجھے علم ہوا کہ اس موضوع پر میرے خیالات میں کچھ الجھائو ہے۔ میں نے مزید غور کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ الجھائو دراصل اس الجھائو کا عکس ہے، جو ہمارے سماج میں عام پایا جا تا ہے۔ چنانچہ میں نے ایک دو ڈکشنریوں سے استفادہ اور اس موضوع پر کچھ ریسرچ کر کے سوچ مزید واضح کرنے کی کوشش کی۔
آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق عام لوگوں کے اندر انسانی گروہ کے ساتھ مماثلت یا مطابقت پیدا کرنے کے رجحانات کو بھیڑ چال کہتے ہیں۔ یا ایک انسان کا اپنے جیسے دوسرے انسانوںکی طرح عمل کرنے کے رویوں اور رجحانات کو بھیڑ چال کہا جاتا ہے۔ بھیڑ چال کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ جب انسان کسی مسئلے پر سوچنے اور غور و فکر کے ذریعے اپنی رائے قائم کرنے کے بجائے کسی گروہ ، مجمعے، لیڈر یا پارٹی کی رائے یا طرز عمل کو اپنا لیتا ہے۔ 
بھیڑ چال صرف ہمارا ہی المیہ نہیں۔ یہ روگ دنیا کی ہر قوم کو لاحق ہے‘ ہر سماج میں موجود ہے۔ دنیا کی تاریخ بھیڑ چال کی وجہ سے رونما ہونے والی کئی المناک داستانوں سے بھری ہوئی ہے۔ یورپ اور امریکہ میں بھیڑ چال، اندھی تقلید اور بلوائی ذہنیت کی ایسی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ انسان کو بیک وقت ہنسی بھی آتی ہے، اور ماتم کرنے کو بھی دل چاہتا ہے۔ 
جب سے انسان نے قبائل کی شکل میں متحد ہونے، گروہوں کی شکل میں ہجرت کرنے یا مل جل کر زراعت کا کام شروع کیا ہے، تب سے ہرڈ مینٹیلٹی یا بھیڑ چال کا تصور موجود ہے۔ 
دنیا کے کئی بڑے معاشی بحرانوں کے پس منظر میں بھیڑ چال ذہنیت اور روئیے کارفرما رہے ہیں۔ اس ذہنیت کے تحت بسا اوقات سرمایہ کار لالچ اور خوف کے زیر اثر سٹاک کی خرید و فروخت کے فیصلے کرتے ہیں۔ جس سے منڈیوں میں بلبلے اٹھتے ہیں، اور منڈیاں کریش ہوتی ہیں۔ سال دو ہزار آٹھ میں امریکی معیشت کا بحران اس کی اہم اور تازہ ترین مثال ہے۔
اسی طرح دنیا کے بڑے بڑے سیاسی واقعات میں بھیڑ چال کو ایک اہم عنصر مانا گیا ہے۔ انقلاب فرانس سے لے کر جرمنی میں فاشزم کے عروج تک بھیڑ چال ایک عنصر رہا ہے۔ 
سماجی واقعات میں بھیڑ چال کا فیصلہ کن کردار رہا ہے۔ مغرب میں وچ ہنٹ ٹرائل سے لے کر بدنام زمانہ سالم ٹرائل تک بد روحوں اور چڑیلوں کے نام پر ہزاروں خواتین کو قتل کیا گیا۔
انسانی سماج میں بھیڑ چال کا مطالعہ سگمنڈ فرائیڈ نے بھی بڑی تفصیل سے پیش کیا ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ، گروہ کی نفسیات اور مجمع کی تاریخ ، میں لکھتا ہے کہ سیاست بھیڑ چال ہے۔ سیاست دان عوام کی رہنمائی نہیں کرتے، اس کے برعکس وہ صرف اس رائے کی عکاسی کرتے ہیں ، جو ان کے خیال میں عوام کی متفقہ رائے ہے۔ یعنی ان کے خیال میں کسی معاملے میں سماج کی جو متفقہ رائے ہے، وہ اس کی ترجمانی کرتے ہیں‘ بجائے اس کے کہ وہ لوگوں کی درست سمت میں راہنمائی کریں یا ان کی کسی مخصوص رائے کو بدلنے کی کوشش کریں۔ 
نٹشے نے بھیڑ کی اخلاقیات پر لکھا ہے۔ نٹشے کے نزدیک بھیڑ چال کی اخلاقیات غلامی کی اخلاقیات کی اگلی شکل ہے، جس میں بز دلی یا بے بسی کو نیک دلی کہا جاتا ہے، خوف کو انکسار پسندی قرار دیا جاتا ہے، اطاعت گزاری رضا جوئی یا عجز و انکسار بن جاتی ہے، اور بز دلی صبر کہلاتی ہے۔
بھیڑ چال انسان کے دل میں دوسرے لوگوں کا ایک گہرا خوف پیدا کر دیتی ہے، جو انسان کی جذباتی کمزوری بن جاتا ہے۔ ایک بھیڑ چال والے انسان میں ایسی جرأت اور حوصلہ نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں سے اختلاف کر سکے۔ بھیڑ چال سوچ، سمجھ داری اور عقلیت پرستی کی جگہ کو محدود کرتی ہے۔ نشٹے بھیڑ چال جیسی اخلاقیات کو لذت پسندی اور افادیت پسندی کے ساتھ جوڑتا ہے۔ جس میں زندگی کا مقصد لذت اور لطف بن جاتا ہے، جو انسان کو مضحکہ خیز، نا معقول اور حقیر بنا دیتا ہے۔
بھیڑ چال والی اخلاقیات کا بنیادی نکتہ یہ نہیں کہ یہ صرف بذات خود ہی بری چیز ہے بلکہ یہ اندھی تقلید ہے، ان اخلاقی معیاروں کی جو من مانے ہیں، اور یک طرفہ طور پر ہم پر مسلط کیے گئے ہیں۔ 
بھیڑ چال کی ایک مثال صدر ٹرمپ کے پیروکار ہیں، جن پر آج کل ہر جگہ نفسیاتی تجزئیے ہو رہے ہیں۔ ایک ماہر نفسیات کے تجزئیے کے مطابق اس کے پیروکاروں میں دو باتیں مشترک ہیں۔ پہلی یہ کہ وہ ایسے رہنمائوں کو پسند کرتے ہیں جو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں۔ یعنی سادہ زبان میں بڑھک باز ہیں۔ دوسری یہ کہ وہ ایسے رہنمائوں کو پسند کرتے ہیں، جو انہیں بتائیں کہ ہمارے مسائل بالکل سیدھے سادے ہیں ، اور ان کا حل بھی بہت آسان ہے‘ حالانکہ حقیقت میں ایسا ہے نہیں۔ اس نفسیات دان کے بقول ٹرمپ کے حامی اس تیزی سے بدلتی ہوئی بے ترتیب اور بد حواس دنیا میں مسائل کا آسان حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ سیاست میں بالکل یہی صورت ہمارے ہاں بھی ہے۔ لوگ آسان اور فوری حل کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بعض مسائل کا کوئی بھی آسان اور فوری حل نہیں ہوتا۔ 
بھیڑ چال کا سب سے بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ یہ آپ کو اندھی تقلید کی طرف لے جاتی ہے۔ آپ اپنے پسندیدہ رہنمائوں یا گروہوںکے اندھے پیروکار بن جاتے ہیں۔ اس کے دو نقصانات ہیں۔ ایک تو آپ کا لیڈر یا گروہ مطلق العنانیت کی طرف بڑھ سکتا ہے، جو بالآخر فاشزم تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ جرمنی میں ہٹلر کی مقبولیت اور فاشزم کا ابھار بھیڑ چال کا ہی نتیجہ تھا۔ دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان سوچنا اور غور کرنا چھوڑ دیتا ہے، جو انسانی شخصیت کی موت کا آغاز ہوتا ہے۔ اپنے لیڈر کی اندھی تقلید کے باب میں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بے شک لیڈر عظیم لوگ ہوتے ہیں، مگر بد قسمتی سے ان کی اکثریت نرگسیت پسندی کا شکار ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ میں سائیکوپیتھک رجحانات بھی پائے جاتے ہیں۔ 
ہمارے ہاں سیاست میں گروہ، سیاسی جماعت یا لیڈر کی اندھی تقلید بہت زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں انفرادیت کو بہت بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے۔ یہاں مذہب اور سیاست کے نام پر متعصبانہ گروہ بندی ہے۔ اور سماج کا ہر فرد اس گروہ بندی کا شکار ہے۔ 
ترقی یافتہ جمہوریتوں میں لوگ ووٹ ضرور دیتے ہیں۔ قومی معاملات میں بھی گہری دلچسپی لیتے ہیں‘ لیکن ان کو با وقار زندگی گزارنے کے لیے کسی گروہ کا حصہ بننے کی ضرورت نہیں۔ وہاں انفردیت کو تحفظ ہے۔ آپ انفرادی سوچ رکھ سکتے ہیں۔ اپنے انفرادی عقائد، نظریات اور طرز زندگی کے باوجود با وقار زندگی گزار سکتے ہیں۔ سماج میں آپ کے مفادات اور عزت نفس کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ ہمارے ہاں انفرادی سوچ ، عقائد و نظریات رکھ کر آپ نہ تو اپنے معاشی، سماجی و سیاسی مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں، اور نہ ہی سماج میں آپ کے وقار اور عزت نفس کی کوئی ضمانت ہے۔ یہاں زندہ رہنے کے لیے آپ کا کسی نہ کسی گروہ ، فرقے، ادارے یا با اثر شخصیت سے تعلق ضروری ہے۔ یہ ضرورت آپ کو بھیڑ چال والی اخلاقیات اپنانے پر مجبور کرتی ہے۔ ایک اطاعت گزار یا اندھا مقلد بناتی ہے۔ 
اس اندھی تقلید میںہم اپنی پارٹی کو مقدس سمجھتے ہیں، اپنے رہنما کو دیوتا مانتے ہیں۔ اپنی رائے کو حتمی قرار دیتے ہیں۔ اپنے فرقے کو برتر تصور کرتے ہیں۔ ہم اپنے گروہ، فرقے یا پارٹی کی خاطر ہر وقت مرنے مارنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں؛ چنانچہ ہم صرف بھیڑ چال کا شکار نہیں ہیں ، ہماری بھیڑ چال میں ایک خاص قسم کی شدت پسندی بھی ہے۔ 
ہمارے دور میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر کی وجہ سے بھیڑ چال ہمارا مقدر بن گئی ہے‘ اور خطرناک بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی مدد سے بھیڑ چال کا فائدہ اٹھا کر کوئی بھی خطرناک بیانیہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں