"FBC" (space) message & send to 7575

ہم غریب کیوں ہیں؟

ہم غریب کیوں ہیں؟ یہ ایک عام اور پیچیدہ سوال ہے۔ یہ سوال اٹھانا اور اس پر غور کرنا ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ مگر عوامی سطح پر یہ سوال اٹھانا اور اس پر کھلی بحث ضروری ہے تاکہ عوام بھی یہ جان سکیں کہ ان کی غربت کا راز کیا ہے۔ ان کے دکھ درد کا ذمہ دار کون ہے‘ اور غربت کی جس چکی میں وہ پس رہے ہیں، اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے۔ 
ماہرینِ معاشیات کے پاس غربت ناپنے کے الگ الگ پیمانے ہیں۔ ان میں جو زیادہ عام ہے وہ فی کس آمدنی والا فارمولہ ہے۔ معیشت دان کسی ملک کی آمدنی کو اس ملک کی کل آبادی پر تقسیم کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو عدد سامنے آتا ہے اسے فی کس آمدنی کہا جاتا ہے۔ یہ فی کس آمدنی دیکھ کر ہی پتہ چلتا ہے کہ کسی ملک کے معاشی حالات کیا ہیں۔ اس ملک کے عوام کس حال میں زندہ ہیں۔
معاشیات دانوں کے بعض مکاتب فکر غربت معلوم کرنے کے اس طریقہ کار سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ اس کے اندر کچھ خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں؛ تاہم اگر اسی طریقے کو مان لیا جائے تو ایک سال پہلے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی فی کس آمدن ساٹھ ہزار دو سو ڈالر تھی۔ پاکستان کی فی کس آمدن پانچ ہزار آٹھ سو تیس ڈالر بتائی گئی تھی۔ دنیا کے غریب ترین ممالک میں افغانستان اور یوگنڈا جیسے ممالک شامل ہیں، جن کی سالانہ فی کس آمدن دو ہزار ڈالر سے بھی نیچے تھی۔ 
امریکہ، پاکستان اور یوگنڈا کے لوگوں کے رہن سہن اور معیار زندگی میں جو نمایاں فرق نظر آتا ہے اس کی ایک وجہ فی کس آمدنی کا فرق ہے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ترقی یافتہ دنیا میںکوئی غریب نہیں ہوتا۔ ہر ملک میں کچھ لوگ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ اس کی گوناگوں وجوہات ہیں۔ اس اعتبار سے کوئی استثنا نہیں ہے۔ امریکہ سے لے کر جاپان تک آزاد خیال سرمایہ دار ممالک میں غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگ موجود ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں جن لوگوں کو سرکاری سطح پر غریب تسلیم کیا جاتا ہے، ہو سکتا ہے کہ ان کا معیار زندگی ہمارے کچھ امیروں سے بھی بہتر ہو‘ کیونکہ ان ممالک میں ان غریب لوگوں کو بھی ان اجتماعی سہولیات تک بہرحال رسائی حاصل ہوتی ہے‘ جو اب بھی ہمارے ہاں خواب ہیں، جیسے آلودگی اور کثافت سے پاک صاف ہوا، پینے کے لیے صاف پانی، گرمی اور سردی سے بچائو کا مثالی نظام، پبلک ٹرانسپورٹ، طبی سہولیات، قانونی تحفظ، انصاف اور عزت نفس وغیرہ۔ ترقی یافتہ لبرل اور سرمایہ دارانہ جمہوریتوں کی نسبت سماجی جمہوریت والی فلاحی ریاستیں اپنے غریبوں کا خاص اور زیادہ خیال رکھتی ہیں۔ اور ان کی زندگیوں میں آسانیاں لانے کے لیے کئی اقدامات کرتی ہیں، ان کو کئی مراعات دیتی ہیں۔ ان ممالک میں غربت کی لکیر کے تعین کا فارمولہ بھی تھوڑا مختلف ہے۔ اس کے معیار اور پیمانے جداگانہ ہیں۔ 
کچھ ملک غریب اور کچھ امیر کیوں ہیں ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، جو تاریخ میں لاکھوں بار اٹھایا گیا۔ اور اس کے کئی جوابات ہیں۔ ہمارے یہاں ایک مقبول عام جواب یہ ہے کہ اس کی وجہ نوآبادیاتی نظام ہے۔ آج کے حساب سے دیکھا جائے تو سات سو سال پہلے مختلف ممالک کے معاشی حالات میں تھوڑا بہت ہی فرق تھا۔ لیکن پھر نوآبادیاتی نظام کے تحت کچھ ممالک امیر تر ہونا شروع ہوئے، اور کچھ غریب تر۔ اس کا آغاز نیدر لینڈ سے ہوا، پھر انگلستان، فرانس سمیت دوسرے مغربی ممالک اپنی نوآبادیوں کی دولت اور قدرتی وسائل کی وجہ سے امیر ہوتے گئے۔ اس تاریخی حقیقت کو مانے بغیر تو چارہ نہیں۔ مگر یہ اب ماضی کا قصہ ہے۔ نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد دنیا میں کئی ممالک آزاد ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو گئے، جن کے عوام کا معیار زندگی کسی طرح بھی مغربی یورپ کے ممالک سے کم نہیں۔
کچھ لوگوں کا یہ استدلال ہے کہ جب انگریز ہندوستان پر قابض ہوئے تو ہندوستان ایک امیر ملک تھا، وہ جس کے وسائل لوٹ لے گئے۔ جس وقت انگلستان نے ہندوستان پر قبضہ کیا اس وقت دنیا کی دولت میں ہندوستان کا حصہ چوبیس فیصد کے قریب تھا، جو کہ مغربی یورپ کے تقریباً برابر تھا۔ پھر مختلف نوآبادیاتی ہتھکنڈوں کے ذریعے اس کی صنعت و حرفت کی ترقی روک دی گئی۔ یعنی انگریزوں نے اس ملک کو اس بے دردی سے لوٹا کہ اس کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے لیے ایک عرصہ درکار تھا؛ چنانچہ پاکستان اور بھارت میں اس دلیل کو غور سے سنا اور مانا جاتا ہے‘ اور اپنے آپ کو لاچار اور بے بس و بے قصور ثابت کرنے کے لیے اس دلیل کا سہارا لیا جاتا ہے۔ 
اس حقیقت کو مانتے ہوئے مگر ایک دوسری تلخ حقیقت سے نظریں چرائی جاتی ہیں کہ انگریز کو گئے ہوئے بھی تو ستر سال ہو گئے ہیں۔ اس کا جواب یہ آتا ہے کہ ستر سال قوموں کی زندگی میں کچھ نہیں ہوتے۔ حالانکہ ستر سال قوموں کی ترقی کے لیے کوئی کم عرصہ نہیں ہوتا۔ چین اور سنگا پور سمیت دنیا میں درجنوں ممالک کی مثالیں موجود ہیں۔ ان ممالک نے پندرہ سے بیس برس کے عرصے کے اندر حیرت انگیز ترقی کی۔ انیس سو سترہ کے انقلاب کے بعد آنے والے بیس تیس برسوں میں سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکالا گیا۔ ستر سال بعد جب سوویت یونین ٹوٹی تو وہ ایک ترقی یافتہ ملک اور سپر پاور بن چکی تھی، اور شہریوں کو زندگی کی بیشتر بنیادی ضروریات میسر تھیں۔ چین نے انیس سو انچاس میں ایک آزاد ملک کی حیثیت سے ترقی کا آغاز کیا اور ستر سالوں میں دنیا کی معاشی سپر پاور بن گئی۔ 
تو وہ کیا چیز ہے جو کسی ملک کو امیر اور دوسرے ملک کو غریب بناتی ہے۔ معاشیات کی مشکل اصطلاحوں سے بچتے ہوئے اس کا سادہ سا جواب ہے: پیداواری صلاحیت۔ اور پیداواری صلاحیت بڑھتی کیسے ہے ؟ پیداواری صلاحیت نئی ٹیکنالوجی پر خرچ کرنے سے بڑھتی ہے۔ یہ انسانی سرمائے یعنی افرادی قوت پر خرچ کرنے سے آتی ہے۔ جہاں لوگوں کو بہتر تعلیم و تربیت دی جاتی ہے اور جہاں ان کے پاس بہتر جانکاری ہوتی ہے۔ پیداواری صلاحیت ان تین چیزوں کو جمع کر کے بروئے کار لانے سے بڑھتی ہے۔ اگر کسی ملک میں ان تین چیزوں پر مناسب توجہ اور مناسب سرمایہ کاری نہ کی جائے تو وہ ملک ترقی نہیں کر سکتا ۔ اس کی ترقی کی شرح سست یا منفی ہو جاتی ہے، جس سے کسی ملک و قوم کی غربت بڑھ جاتی ہے۔
تو گویا یہ کوئی راز نہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم غریب کیوں ہیں۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ غربت ختم کیسے ہو سکتی ہے ۔ تو پھر اس کے خاتمے میں کیا امر مانع ہے؟
کسی چیز کا صرف علم ہونا کافی نہیں ہے۔ اس علم کا عملی اطلاق ایک دشوار اور پیچیدہ عمل ہے۔ جہاں تک جاننے کی بات ہے تو ہر دور کا انسان اپنی اپنی فہم کے مطابق ہر دور میں اپنے ارد گرد کی چیزوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ علم رکھتا رہا ہے۔ مگر علم کے عملی اطلاق کے باب میں ملک کے رسمی اور غیر رسمی طور طریقے، یعنی آئین‘ قانون اور اخلاقیات کا فیصلہ کن کردار ہوتا ہے۔ 
سن سترہ سو چھہتر میں آدم سمتھ نے غربت کی اصل وجہ بتانے کے لیے ایک عظیم الشان کتاب لکھی۔ اقوام کی دولت کی نوعیت اور اسباب کی انکوائری میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اس نے کھول کر لکھ دیا تھا کہ امیر ملک اس لیے امیر نہیں کہ وہ محنت زیادہ کرتے ہیں ، یا ان کے پاس وسائل زیادہ ہیں۔ اس کے نزدیک ترقی اور خوش حالی کا راز مارکیٹ اکانومی میں مضمر تھا؛ چنانچہ یہ کتاب سرمایہ داری نظام کے حامیوں کی بائبل بن گئی۔ مگر اس کے سو سال بعد اٹھارہ سو ستاسٹھ میں کارل مارکس جیسا نابغہ روزگار دانشور داس کیپیٹل لے کر سامنے آیا۔ اس نے فلسفے، سیاسیات اور معاشیات کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات پر ایک منفرد نقطہ نظر پیش کیا، اور ایک دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ مگر تاریخ انسانی کے ان طویل مباحث ، علوم و تجربات کے باوجود غربت، طبقاتی تضادات، سماجی و معاشی انصاف کے بارے میں جدید سوالات کا ابھی تک تسلی بخش جواب آنا باقی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں