دو ہزار اٹھارہ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ کا ایک ہیجان خیز سال تھا۔ اس سال سپریم کورٹ نے اہم فیصلے کیے۔ ان تہلکہ خیز فیصلوں نے عدالت عظمیٰ کو عوامی دلچسپی کا مرکز بنا دیا اور یہ تاثر پیدا ہوا کہ سپریم کورٹ کسی بھی معاملے میں جو چاہے کر سکتی ہے؛ چنانچہ جب اس سال جنوری میں عدالت عظمیٰ نے گلگت بلتستان کیس کی سماعت کا اعلان کیا تو کچھ لوگوں نے اس سے بہت زیادہ توقعات باندھ لیں۔ اس کے نتیجے میں جو لوگ معجزات کی آس لگائے بیٹھے تھے، وہ مایوس ہوئے۔ مگر جو قانون و سیاست کی نزاکتوںکو سمجھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس فیصلے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کی ایک بار پھر تصدیق کی اور اس بات سے اتفاق کیا کہ اس کے مستقبل کا تعین باقی ہے‘ مگر جب تک یہ تعین نہیں ہو جاتا، اس وقت تک یہاں کے عوام کو پاکستان کے دیگر شہریوں کے برابر حقوق دئیے جائیں‘ ان کے بنیادی حقوق تسلیم کیے جائیں۔
جو لوگ یہ مقدمہ لے کر سپریم کورٹ گئے، ان کا ایک نیک مقصد تھا۔ مقصد یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعے گلگت بلتستان کے مستقبل کے بارے میں سالہا سال سے الجھے ہوئے سوالات کا جواب تلاش کیا جائے۔ ان کے حسن ظن کا یہ عالم تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر جیسے تنازعہ کو بھی عدالت کے ذریعے حل کرانے کے خواہش مند تھے۔ سپریم کورٹ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ضرور ہے، مگر اس کی اپنی حدود و قیود ہیں۔ اس کا دائرہ اختیار اپنی آئینی حدود تک محدود ہے۔ گلگت بلتستان کے مستقبل کا سوال ان حدود سے آگے ہے۔ اگر اس معاملے میں سپریم کورٹ کوئی حکم جاری بھی کرے، تو ضروری نہیں کہ حکومت اس حکم پر عملدرآمد کی قدرت رکھتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتیں ایسے مقدمات کی سماعت سے گریزاں رہتی ہیں۔ اس کی کئی عدالتی روایات اور نظائر موجود ہیں۔ اس فیصلے کے کئی پہلو ہیں۔ ایک روشن پہلو یہ ہے کہ گلگت کے عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق دینے کا حکم دیا گیا؛ تاہم ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ الجہاد ٹرسٹ کیس میں پہلے ہی یہ فیصلہ دے چکی ہے۔ یہ دو عشرے پہلے کی بات ہے۔ کیا اس پر عمل ہوا؟ جواب نفی میں ہے۔
جو لوگ عدالتوںکے ذریعے گلگت بلتستان کے مستقبل کا تعین چاہتے ہیں، وہ قانون پسند اور بھلے مانس لوگ ہیں۔ مگر وہ یقینا گلگت بلتستان کی تاریخ جانتے ہوں گے۔ مستقبل کے تعین کے لیے ماضی ہمیشہ اہم نہیں ہوتا۔ مگر یہاں ماضی اہم ہی نہیں، پائوں کی زنجیر بھی ہے۔ اس زنجیر کے مختلف حلقے مختلف طاقتوں کے ہاتھ میں ہیں۔ جن جن قوتوں کے ہاتھ میں ایک ایک حلقۂ زنجیر ہے، انہیں آپ سٹیک ہولڈرز کہہ سکتے ہیں۔ ان سٹیک ہولڈرز کے مفادات کو سمجھنے کے لیے تاریخ میں جھانکنا ضروری ہے۔ ان حالات و واقعات کا ادراک ضروری ہے، جن کی وجہ سے گلگت بلتستان کی موجودہ صورت گری ہوئی ہے۔
گلگت بلتستان کی تاریخ برصغیر کی دیگر ریاستوں، قومیتوں اور علاقوں جیسی ہی ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ لوگ بھی کبھی تو بڑی سلطنتوں کے زیر نگیں رہے‘ کبھی اپنے چھوٹے موٹے مقامی حکمرانوںکے زیرِ اثر رہے‘ اور کبھی تبت، چین اور کشمیر کی نامور ایمپائرز کا حصہ رہے۔
جدید تاریخ میںکشمیر کے ساتھ ان علاقوں کی واضح جڑت کا قصہ اٹھارہ سو انتالیس کے موسم خزاں میں کمانڈر زور آور سنگھ کے حملے سے شروع ہوا۔ اٹھارہ سو چھیالیس میں یہ علاقے مہاراجہ کشمیر گلاب سنگھ کے پاس چلے گئے۔ جس کے بعد گلگت بلتستان کو ریاستی حکمرانوں نے انگریزوں کو لیز پر دے دیا، مگر ان پر یونین جیک کے ساتھ ساتھ ریاست جموں و کشمیر کا جھنڈا بھی لہراتا رہا۔
ستائیس اکتوبر انیس سو سینتالیس کو ریاست جموں و کشمیر سے مہاراجہ ہری سنگھ کے اقتدار کے خاتمے کے چند دن بعد گلگت سکائوٹس نے بغاوت کر دی۔ اس بغاوت کی قیادت میجر ولیم برائون، اے ایس میتھیسن اور صوبیدار بابر خان تھے۔ جس کے نتیجے میں مہاراجہ کے گلگت میں تعینات کردہ گورنر میجر جنرل گھنسارہ سنگھ کو باہر نکال دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک عارضی حکومت کا اعلان کیا گیا، جس کے سربراہ راجہ شاہ رئیس خان اور مرزا حسن خان کمانڈر انچیف مقرر ہوئے۔ دو ہفتے بعد سردار محمد عالم خان کو پاکستان کی طرف سے پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیا گیا۔
محمد عالم نے سولہ نومبر کو علاقے کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ میجر ولیم برائون اس کے ساتھ تھا۔ اس نے مقامی امیر اپنے ساتھ ملا لیے تھے۔ مقامی عبوری حکومت نے مزاحمت کی کوشش کی جسے دبا دیا گیا؛ چنانچہ مقامی عارضی حکومت سولہ دن بعد ہی بے اثر ہو گئی، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قصہ پارینہ بن گئی۔ ریاست جموں و کشمیر کا مقدمہ اقوام متحدہ میں چلا گیا‘ اور گلگت بلتستان سمیت ساڑھے چوراسی ہزار مربع میل علاقہ متنازعہ قرار پایا۔
انیس سو انچاس میں معاہدہ کراچی کے تحت گلگت بلتستان کا انتظام پاکستان کے سپرد کر دیا گیا۔ یہاں پر 'فرنٹیئر ریگولیشنز‘ نافذ کر دی گئیں‘ جن میں بنیادی انسانی حقوق کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ انیس سو ننانوے میں الجہاد ٹرسٹ کی ایک پٹیشن پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ دیا کہ حکومت یہاں کے عوام کو پاکستان کے شہریوں کے برابر حقوق دے‘ اور ان کے تمام بنیادی حقوق بحال کرے‘ مگر ایسا ہوا نہیں۔ ارباب اختیار کا عذر یہ تھا کہ ہم ان لوگوں کو جمہوری حقوق دو وجوہات کی بنا پر دینے سے قاصر ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ تنازعہ کشمیر کا حصہ ہیں، اور ان کی متنازعہ حیثیت میں تبدیلی اس مسئلے پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے، اور دوسرا یہاں فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم اتنی سخت ہے کہ کسی ایک حل پر اتفاق ممکن ہی نہیں ہے۔
گلگت بلتستان کی المیہ داستان حکمران طبقات کی نا اہلی اور بے رحمی کی داستان ہے۔ حقوق کی بات پر حکمران ایک طرف تو ان علاقوں کو متنازعہ کہہ کر دامن چھڑاتے رہے، جبکہ دوسری طرف بوقت ضرورت ان علاقوں کو پاکستان کا جزو لاینفک قرار دیتے رہے۔
اس کی ایک کلاسیکل مثال جنرل ضیا الحق تھے۔ انیس بیاسی کے موسم بہار میں انہوں نے کوئی ابہام رکھے بغیر واضح الفاظ میں کہا کہ گلگت بلتستان متنازعہ علاقے نہیں، بلکہ پاکستان کا حصہ ہیں۔ انہوں نے نو مئی انیس سو بیاسی کو بھی یہ بات دہرائی، مگر یہ واضح کیا کہ وہ کشمیرکی بات نہیں کر رہے، یعنی کشمیر تو بہرحال ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ مگر گلگت بلتستان نہیں، جو کہ بقول ان کے کشمیر نہیں بلکہ نادرن ایریاز ہیں، اور پاکستان کا حصہ ہیں۔ مگر حقوق کی بات پر ان کا جواب بھی وہی رہا، اور گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ اور متنازعہ ٹھہرائے گئے۔
نصف صدی سے گلگت بلتستان میں ایک عجب تماشا لگا رہا۔ یہاں اپنے پارٹی کارکنوں یا مٹھی بھر حامیوں کی ایما پر ہر نئی حکومت ایک نیا آئینی پیکیج لے کر آتی رہی۔ حکومت بدلنے کے ساتھ یہاں آئینی پیکیج بھی بدلتے رہے۔ اس کھیل میں جنرل ضیا سے جنرل مشرف تک، اور بے نظیر بھٹو سے نواز شریف تک کوئی استثنا نہیں۔ اس کھیل میں گلگت بلتستان کے کچھ مقامی رہنما بھی برائے نام ہی سہی، مگر شریک رہے۔ خواہ یہ جنرل ضیا کی مجلس شوریٰ ہو، جس میں ان علاقوں کو پاکستان کا حصہ کہا گیا‘ یا پھر پاکستان کی کوئی منتخب پارلیمنٹ ہو، جس میں گلگت کونسل، گلگت اسمبلی یا سیلف رول یا بنیادی حقوق جیسے پیکیجز دئیے گئے ہوں۔ ہوتا یہ رہا ہے کہ جو پارٹی اسلام آباد سے کسی نئے پیکیج کا اعلان کرتی‘ اس کے حامی گلگت میں جشن مناتے‘ اور مخالفین صفِ ماتم بچھا کر بیٹھ جاتے۔ ماتم و جشن کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے‘ مگر اصل مسئلہ جوں کا توں ہے۔ نہ تو یہاں کے لوگوں کو حق حکمرانی ملا، نہ ہی بنیادی حقوق اور شہری آزادیاں مل سکیں۔ اور سزا وار مسئلہ کشمیر ٹھہرا‘ حالانکہ مسئلہ کشمیر کا سارا قصہ ہی آزادی اور انسانی حقوق سے متعلق ہے۔ اور اگر مسئلہ کشمیر سے منسلک کسی بھی اکائی میں عوام کو شہری آزادیاں اور انسانی حقوق مل رہے ہیں، تو یہ مسئلہ کشمیر کے لیے کوئی منفی بات نہیں، بلکہ اس کے حل کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔