نوآبادیاتی عہد میں تیسری دنیا کو یہ گلہ تھا کہ نوآبادیاتی قوتیں ان کے وسائل لوٹ رہی ہیں‘ خام مال کی تلاش میں قدرتی وسائل پر قابض ہو رہی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کا عمل شروع ہوا۔ نوآبادیاتی قوتوں نے اپنی نوآبادیاں خالی کرنا شروع کیں۔ جن ملکوں سے نوآبادیاتی قوتیں نکلنا نہیں چاہتی تھیں، وہاں سے بھی با دل نخواستہ ان کو نکلنا پڑا۔ دور ہی ایسا آ گیا تھا کہ قومیں آزادی، ملک خود مختاری اور عوام جمہوریت سے کم پر قناعت کے لیے تیار نہ تھے۔
بیسویں صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی میں بظاہر نوآبادیاتی نظام بڑی حد تک ختم ہو گیا‘ مگر حقیقت میں یہ نظام کئی نئے روپ دھار کر سامنے آیا‘ جس کو نئے نوآبادیاتی نظام جیسے کئی نئے نام دئیے گئے۔
نئے نوآبادیاتی نظام کا بظاہر ایجنڈا آزاد تجارت اور سرمایہ کاری تھا، مگر تیسری دنیا میں اس باب میں کئی تحفظات تھے۔ یہاں یہ تاثر عام ہوا کہ نئے نوآبادیاتی نظام کے تحت شاید رولز آف بزنس تھوڑے بدلے ہوں، مگر بزنس اب بھی وہی ہے، جو نوآبادیاتی دور میں تھا۔
سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد مگر گلوبل ویلیج اور کھلی تجارت ایک نیا منترا بن گیا۔ گلوبل ویلیج کے تصور نے بے شک دنیا میں نئی امیدیں پیدا کیں ۔ نئی نسل کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے۔ دنیا میں دولت کی گردش اور انسانی نقل و حمل آسان ہوئی‘ مگر اس دور میں بھی تیسری دنیا میں نچلے طبقات اور خاص طور پر کسانوں کے حوالے سے بڑی درد ناک کہانیاں سامنے آئیں۔ آزاد تجارت کے نام پر غریب ممالک کے کسان ہل اور بیل جیسے سادہ اوزاروںکے ساتھ کثیرالقومی کارپوریشنز کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ آزاد تجارت اور سرکاری سبسڈی کے خاتمے کی وجہ سے دنیا میں لاکھوں کسان شدید غربت اور کسمپرسی کا شکار ہو گئے۔ یہاں تک کہ بھارت اور برازیل جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں بھی کسان بھوک سے خود کشی پر مجبور ہوئے۔
کثیرالقومی کارپوریشنز کے آگے یہ لوگ بے بس اور بے حال ہو گئے۔ لیکن کسانوں کی خود کشیاں اور دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت کی نئی شکلیں ان لوگوں کیلئے کوئی تشویش کی بات نہیں تھی، جو آزاد تجارت کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے۔ مگر مسئلہ یہ پیدا ہو گیا کہ خود آزاد تجارت اور گلوبل ویلیج کے پرچارک ہی اس کے خلاف بول اٹھے۔ اس کا اظہار مختلف ممالک میں مختلف شکلوں میں ہوا۔ کہیں اس نے نیشنل ازم کی شکل میں اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔ کہیں یہ زینو فوبیا کی شکل میں ابھرا‘ اور کہیں نسل پرستی کی شکل میں ظاہر ہوا۔ عام دھارے کی سیاست میں اس کا کچھ اظہار امریکی انتخابات اور برطانوی ریفرنڈم میں بھی ہوا، جس کے تحت انہوں نے صدر ٹرمپ کے انتخاب کے خلاف اور یورپی یونین سے نکلنے کا بظاہر ایک ناقابل فہم فیصلہ کیا۔
نوآبادیاتی نظام کی ایک تازہ ترین شکل تیسری دنیا کو سرمایہ کاری کے نام پر 'ڈمپنگ گرائونڈ، کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ یہ ڈمپنگ گرائونڈ بننے سے تیسری دنیا کا شاید ہی کوئی ملک بچا ہو گا‘ مگر اس کا اصل شکار وہ ملک ہوئے، جو بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بے تاب تھے۔ ان کی اس بے تابی سے کثیرالقومی کارپوریشنز اور ترقی یافتہ ممالک نے لا محدود فوائد اٹھائے۔
یہ فائدے اٹھانے میں جنگی ساز و سامان کی تجارت سے لے کر وہ فرسودہ ٹیکنالوجی اور مشینیں بیچنا تک شامل ہیں، جن کا ترقی یافتہ دنیا میں کوئی تصرف نہیں رہ گیا تھا۔ ان چیزوں کی ایک طویل فہرست ہے، جو ترقی یافتہ دنیا میں بے کار اور نا قابل استعمال ہیں۔
پاکستان ان معدودے چند ملکوں میں شامل ہے، جو بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بے تاب ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی نے کروڑوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کا عندیہ ظاہر کیا۔ اس کمپنی کا امریکہ اور کینیڈا سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں دیگر اشیا کے علاوہ پراسیسڈ فوڈ، گلوکوز سیرپ، ویجیٹیبل آئل اور چربی بنانے میں بڑا نام ہے۔
جو لوگ ان مصنوعات کی جانکاری رکھتے ہیں، اور جو لوگ ترقی یافتہ دنیا میں اشیائے خورونوش کے جدید رجحانات سے واقف ہیں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ مذکورہ بالا اشیائے خورونوش کے خلاف یہاں پر ایک کھلی مہم جاری ہے، جس میں بہ امر مجبوری یہاں کی حکومتیں بھی شامل ہو گئی ہیں۔ کوئی دن جاتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ان اشیا کو کھانے پینے کی ممنوعہ اشیا میں شمار کیا جائے گا۔ اب بھی عملی طور پر کئی سکولوں اور ہسپتالوں میں یہ ممنوع ہی سمجھی جاتی ہیں۔ ایسا ہونے کے بعد ترقی یافتہ دنیا میں ایسی کمپنیوں کا مستقبل مخدوش ہے، جو اس طرح کے مضر صحت اشیائے خورونوش کے کاروبار میں مصروف ہیں۔
اب ان کمپنیوں کو ایسے کاروبار کے لیے نئی منڈیوں کی ضرورت ہے۔ چونکہ اس کاروبار میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے، اور اس میں کھربوں ڈالر کی مشینری موجود ہے؛ چنانچہ اس کے لیے بہترین منڈی وہی ہے، جہاں پاکستان کی طرح ہر قسم کی سرمایہ کاری کا بے صبری سے انتظار ہو، اور خوراک کی انسپکشن اور کنٹرول کا نظام نہ ہونے کے برابر ہو۔ گوشت کی مانگ کی ایسی بیتابی ہو کہ لوگوں کو دھوکے سے مری ہوئی مرغیوں اور گدھے کا گوشت بھی فروخت کیا جا سکتا ہو۔
کینیڈا کی حکومت نے حال ہی میں سال رواںکے لیے نئی فورڈ گائیڈ لائن جاری کی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے شہریوں کے لیے ہر سال مناسب تحقیق اور متعلقہ ماہرین سے مشاورت کے بعد ایک مفصل فوڈ گائیڈ لائن جاری کرتے ہیں، جس میں شہریوں کو بتایا جاتا ہے کہ کون سی خوراک صحت کے لیے اچھی ہے اور کون سی ضرر رساں ہے۔ کینیڈا میں یہ گائیڈ ایک اہم ترین ریفرنس بک کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب تمام ہسپتالوں، سکولوں، کیفے ٹیریاز، ہاسٹلز، لائبریریز‘ گروسری سٹوروں اور ایسی ہی دوسری جگہوں پر رکھی جاتی ہے۔
کینیڈا نے اس برس اس فوڈ گائیڈ میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی کی ہے۔ اس فوڈ گائیڈ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ گوشت اور دودھ یا دودھ سے تیار کی گئی خوراک کے کم از کم استعمال پر زور دیا گیا۔ یہ بات دو حوالوںسے اہم ہے۔ پہلی یہ کہ کینیڈا ڈیری اور گوشت کی پیداوار اور پراسیسنگ میں پوری ترقی یافتہ دنیا میں اہم مقام رکھتا ہے۔ امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر میں کینیڈا کی ڈیری پروڈکٹس اور گوشت کی بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ خود کینیڈا کے اندر روایتی طور پر دووھ اور گوشت کا فراخ دلی سے استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہاں پر ڈیری اور گوشت سے بہت بڑے بڑے کاروبار وابستہ ہیں‘ جن میں عظیم الشان ڈیری فارمز، میٹ پروسیسنگ پلانٹس شامل ہیں‘ جن میں ملین ٹن کے حساب سے روزانہ گوشت تیار کیا جاتا ہے۔ ٹریلین ڈالرز کے اس کاروبار کی موجودگی میں ظاہر ہے یہاں باقاعدہ لابی گروپ بھی موجود ہیں‘ جو حکومتوں میں لابنگ کرتے ہیں اور اس خیال کو پھیلاتے ہیں کہ گوشت صحت مند جسم کے لیے ضروری ہے، اور دودھ بچوں کی نشوونما کے لیے ناگزیر ہے۔ کینیڈا اور امریکہ میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ گروپ اتنے طاقت ور ہیں کہ ان ملکوں کی فوڈ گائیڈ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مگر اب یہ ممالک لابی گروپوں کے اثرات سے آزاد ہو کر جو معلومات عوام کو دے رہے ہیں‘ اس کی روشنی میں یہاں سرخ گوشت اور دودھ کی تجارت کا مستقبل مخدوش ہے۔ چونکہ بد قسمتی سے تیسری دنیا میں ابھی تک گوشت اور دودھ کو زحمت کے بجائے ایک نعمت سمجھا جاتا ہے؛ چنانچہ اس تجارت کا رخ تیسری دنیا کی طرف موڑا جائے گا، اور ڈیری فارمنگ کو نیا فیشن بنایا جائے گا۔ نئے نوآبادیاتی نظام میں تیسری دنیا کے ملکوں کی لوٹ کھسوٹ کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کے ہاتھ ایسی چیزیں فروخت کی جائیں، جو ترقی یافتہ دنیا میں نہیں بک سکتیں۔ یہ خواہ سامان جنگ ہو، آلودگی پیدا کرنے والی مشینیں یا ٹیکنالوجی ہو یا پھر ناقص اور مضر صحت خوراک۔ عالمی سرمایہ کاری کے لیے بے تاب ملکوں کو چاہیے کہ وہ سرمایہ کاری کے لیے ایسے حقائق کو ملحوظ خاطر رکھیں۔