نیوزی لینڈ کے واقعے کے کئی پہلو ہیں۔ اس میں سب کے لیے کوئی نہ کوئی سبق ہے۔ جو جس نظر سے چاہے اس واقعے کو دیکھ سکتا ہے، اپنی مرضی کا سبق سیکھ سکتا ہے۔ اس طوفانی واقعے کی گرد بیٹھ چکی ہے۔ جذبات میں اٹھنے والا تلاطم کچھ کم ہوا ہے، مگر انسانی جانوں کا ماتم ابھی ختم نہیں ہوا۔ آنے والے کئی ماہ و سال اس پر افسوس ہوتا رہے گا۔ واقعے پر جو رد عمل ہوا ہے، وہ بیک وقت حیرت انگیز، قابل رشک اور قابل غور ہے۔
پاکستان میں اس پر ایک طرح کا نہیں، بلکہ مختلف و متضاد رد عمل ظاہر ہوا ہے، جو پاکستانی سماج میں فکری اعتبار سے گہری تقسیم کی عکاسی کرتا ہے؛ البتہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کے کردار کو سب نے سراہا ہے، جس کی مختلف اور متضاد وجوہات ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس واقعے سے مغرب کے اندر بڑے پیمانے پر گڈ وِل یعنی خیر خواہی اور نیک جذبات کو فروغ ملا ہے۔ مغرب کو احساس ہوا ہے کہ اگر مسلمانوں کی صفوں میں کچھ خونخوار لوگ چھپے بیٹھے ہیں، تو ایسے لوگ خود مغرب میں بھی موجود ہیں۔ اچھے برے لوگ ہر مذہب و معاشرے میں ہوتے ہیں۔ یہ اگرچہ ایک پرانی اور تسلیم شدہ حقیقت ہے، مگر اس عمل کے بعد اس حقیقت کو تقویت ملی ہے۔
نیوزی لینڈ کی لیڈرشپ اور دیگر خواتین نے دوپٹے، حجاب اور نقاب پہن کر مسلمانوں کے ساتھ جو اظہار یکجہتی کیا ہے‘ وہ بہت اہم ہے۔ مغرب میں عام طور پر حجاب اور خصوصاً نقاب ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے۔ اس طرح کے لباس کے ساتھ بہت ساری سوچیں اور خیالات منسوب کر دئیے گئے۔
ان میں سے ایک خیال یہ ہے کہ مغربی ممالک میں یہ نقاب اور حجاب کسی مذہبی علامت کے بجائے مغربی سماج کے خلاف ایک سیاسی بیان کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں‘ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مغربی سماج فحاشی و عریانی کا شکار ہے‘ جس کی وجہ سے یہ بے راہ روی میں مبتلا ہے؛ چنانچہ کچھ لوگ برقعے یا نقاب کو ایک مذہبی ضرورت کے بجائے اپنی اخلاقی برتری اور پاکیزگی کی علامت کے طور دکھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
مغرب میں یہ بھی عام خیال یہ ہے کہ بازاروں اور سڑکوں پر برقعے اور نقاب پہن کر روزمرہ کے کاموں کی لیے نکلنے والی خواتین کی اکثریت اپنی مرضی سے ایسا نہیں کرتیں، بلکہ انہیں یہ لباس پہننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یعنی خواتین برقعہ و نقاب اپنی آزادانہ مرضی سے نہیں پہنتیں، بلکہ ایسا کرنا ان کی مجبوری ہے، جس کے پیچھے کسی نہ کسی شکل میں مرد کی مرضی کارفرما ہے، جو غالب حیثیت کا حامل ہے۔ خواہ یہ مرد کوئی مذہبی پیشوا ہو، بھائی ہو، بیٹا ہو، شوہر یا پھر باپ ہو۔ اس لیے برقعہ، حجاب اور نقاب پہننے والی خواتین کو مظلوم اور مظلومیت کا شکار سمجھا جاتا ہے؛ چنانچہ نیوزی لینڈ کے رد عمل سے مغرب میں عام آدمی کو یہ پیغام جائے گا کہ ایسا لباس کچھ مسلمانوں کی طرز زندگی و ثقافت کا حصہ ہے، اور اس کے پیچھے کوئی جبر یا خفیہ ایجنڈا نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ خواتین‘ مردوں کی وجہ سے نقاب یا حجاب پہننے پر مجبور ہوں، مگر ایسی خواتین بھی موجود ہیں، جو یہی کام اپنی مرضی سے کرتی ہیں۔
مغرب میں غلط طور پر داڑھی، برقعہ یا نقاب کو دہشت گردی یا عسکریت پسندی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ نائن الیون کے بعد عام طور پر مغربی ذرائع ابلاغ پر دہشت گردوں یا عسکریت پسندوں کی جو تصاویر آئیں، وہ زیادہ تر داڑھی، برقعہ یا نقاب میں ہیں۔ نیوزی لینڈ کے رد عمل سے یہ غلط تاثر ٹوٹے گا اور یہ بات واضح کرنے میں مدد ملے گی کہ ہر داڑھی والا، نقاب پوش یا برقعہ پوش دہشت گرد یا ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس واقعے کی وجہ سے پہلی بار مغرب کے حکمرانوں میں اس مسئلے پر واضح اختلاف رائے سامنے آیا ہے‘ اور اس حوالے سے تقسیم واضح ہوئی ہے۔ ایک طرف ٹرمپ اور ان جیسی سوچ کے حامل مغربی لیڈر ہیں، جنہوں نے اس واقعے کی واضح مذمت کرنے یا مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی سے گریز کیا‘ اور دوسری طرف نیوزی لینڈ کی خاتون رہنما جیسے لوگ بھی سامنے آئے، جنہوں نے کھل کر مسلمانوں کی حمایت کی۔
وزیر اعظم نے بحران کے دوران ایک مخصوص کردار ادا کیا جو ہر رہنما پر لازم ہے۔ ہر رہنما پر لازم ہے کہ وہ ایسے قومی بحران کے دوران تعصبات سے اوپر اٹھ کر اپنا کردار ادا کرے۔ یہ ہر مہذب ریاست کی بنیادی اور آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے درمیان مذہب، نظریات یا نسلی امتیاز کے بغیر انصاف کے تقاضے پورے کرے۔
میرے ایک دانشور دوست ہیں، جو پاکستانی اخبارات کے ادارتی صفحات میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے قریب قریب ہر اداریہ اور کالم پڑھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نیوزی لینڈ کے واقعے کا رد عمل لگے بندھے راستوں سے ہٹ کر تھا۔ جو کالم نگار مغرب کی ہر بات کو تنقیدی انداز یا شک کی نگاہ سے دیکھنے کی پختہ عادت کا شکار ہیں‘ وہ بھی اب کی بار کچھ بدلے بدلے سے ہیں۔ دائیں بازو کے کئی سکہ بند قلم کاروں نے بھی نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی تعریف و توصیف میں بہت اعلیٰ قسم کے کالم و مضامین لکھے، جو ان کی عام روایت اور ڈگر سے ذرا ہٹ کر ہیں۔
موصوف نے سوال کیا کہ کیا یہ قلم کار جیسنڈا کے نظریات، خیالات اور طرز زندگی سے واقف ہیں؟ ان کا خیال تھا کہ چند ایک سینئر ترین کالم نویس شاید بہت زیادہ روایتی میڈیا پر تکیہ کرتے ہیں۔ اس میں شاید صرف ٹیلی ویژن، اخبارات اور کتابیں شامل ہیں۔ ان ذرائع سے جیسنڈا کی شخصیت اور خیالات سے پوری طرح آگاہی ممکن نہیں ہے۔ عام دھارے کے میڈیا نے ان کی شخصیت کے صرف وہ پہلو دکھائے، جو پاکستان میں قدامت پرست لوگ دیکھنا چاہتے تھے۔
موصوف کا کہنا تھا کہ جیسنڈا کے خیالات و نظریات کا سب سے نمایاں ترین پہلو یہ ہے کہ وہ ایک غیر متزلزل قسم کی سوشلسٹ ہیں۔ ان کی سیاست کی بنیاد ہی ان کے سوشلسٹ خیالات و نظریات ہیں۔ ان کی کامیابیوں کی پہلی سیڑھی ہی ان کا سوشلسٹ انٹرنیشنل یوتھ کا قائد منتخب ہونا تھا۔ اس حیثیت میں انہوں نے دنیا کے کئی مسلمان ممالک کا سفر کیا۔ ان مسائل و معاملات کا براہ راست تجربہ، مشاہدہ و مطالعہ کیا، جو بیشتر مغربی رہنما دور سے کرتے ہیں۔ مغرب کی سیاست میں انہیں ایک ریڈیکل رہنما سمجھا جاتا ہے، جس نے چرچ سے اس لیے قطع تعلق کر لیا تھا کہ چرچ کی تعلیمات اس کے نظریات سے متصادم تھیں۔ انہوں نے مغرب میں ہم جنس پرستی اور ہم جنس شادیوں کی کھل کر حمایت کی۔ اسقاط حمل کے حق پر انہوں نے دوٹوک موقف اختیار کیا۔ گویا ان کے نظریات اور عملی سیاست ان مسائل پر استوار ہیں‘ جن سے اکثر دائیں بازو کے قدامت پرست مذہبی پیشوا اتفاق نہیں کرتے۔ مگر ان سارے متضاد خیالات اور نظریات کے باوجود ان لوگوں نے اُن کی کھل کر تعریف کی، جبکہ خود پاکستان میں ان نظریات کے حامل لوگوں سے وہ کھلے عام نفرت اور عدم رواداری کا سلوک کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ عام دھارے کے معتدل مزاج لوگوں کو بھی کافر اور ایجنٹ قرار دینے سے نہیں چونکتے۔
جیسنڈا کی تعریف میں وہ لوگ آگے آگے تھے، جو عموماً پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق، مذہبی رواداری، انسانی مساوات اور سماجی انصاف کے مسائل پر سخت قسم کا موقف رکھتے ہیں‘ مگر اگر انہوں نے جیسنڈا کے خیالات، نظریات اور شخصیت سے واقفیت کے باوجود اس کو عظمت کی بلندیوں پر بٹھایا ہے، تو یہ ایک نیک شگون اور قابل تعریف عمل ہے۔ اس سے پاکستان میں اقلیتوں کے باب میں ان کے رویے میں مثبت تبدیلی کی امید پیدا ہوتی ہے۔ اور شاید یہ ان کو یاد کرانے کا اچھا موقع ہے کہ ملک کے اندر بھی اقلیتوں اور دوسرے کم خوش نصیب طبقات کو ان کی رحم دلی اور کرم نوازی کی اشد ضرورت ہے۔