"FBC" (space) message & send to 7575

زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے؟

شرح سود بڑھے، روپے کی قیمت گرے یا پھر مہنگائی میں اضافہ ہو، قیمت بالآخر عوام نے ہی چکانا ہوتی ہے۔ عوام کے لیے نئی افتاد شرح سود میں اضافہ ہے، جس کی وجہ سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار براہ راست متاثر ہوں گے۔ اب وہ اتنی بلند شرح سود کی وجہ سے قرض پر بھی انحصار نہیں کر سکیں گے، جو ان کی بقا کا روایتی ذریعہ رہا ہے۔ اس بلند شرح سے فائدہ اٹھا کر بینک اور دوسرے دولت مند طبقات بھاری منافع کمائیں گے۔ سارا بوجھ بالآخر عوام کو ہی اٹھانا ہو گا۔ عوام کی ایک بڑی اکثریت ہمیشہ تنگ دستی کا شکار رہی ہے۔ غریب لوگوں کی زندگی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ یہ ضروریاتِ زندگی اب ان کے شب و روز کی مشقت میں مزید اضافہ کر دیں گے۔
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
دنیا کی معلوم تاریخ میں مختلف ملکوں نے اپنے اپنے وقت و حالات کے مطابق ترقی کے الگ الگ راستے اختیار کیے۔ ان راستوں کی تفصیلات میں تو تھوڑا بہت فرق ہے مگر ان سب راستوں کی بنیادیں صرف دو تین ہیں۔ آج ہمارے ارد گرد ترقی یافتہ یا کامیاب ملک موجود ہیں، انہوں نے ترقی کے ان دو تین ماڈلز میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا‘ اور پھر اپنی ضروریات اور وسائل کے مطابق ان میں رد و بدل کر کے اس کو اپنایا۔ اس میں ایک ماڈل لبرل سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ یہ نظام مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ مقبول رہا ہے۔ یہ نظام بنیادی طور پر آدم سمتھ کے نظریات و خیالات پر قائم ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں دیگر نئے دانشوروں کے نظریات اور مختلف اقوام کے تجربات شامل ہوتے رہے۔ مغرب میں عام طور پر یہ ترقی کا ایک سست رو مگر قدم بہ قدم اور یقینی طریقہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی کامیابی کے کچھ بنیادی لوازمات ہوتے ہیں اور شرائط ہوتی ہیں، جن میں بد عنوانی سے پاک سیاسی و معاشی نظام، ایک کامیاب نظام انصاف اور آزاد جمہوریت شامل ہیںہے۔ اس نظام کی ایک کامیاب اور شاہکار مثال ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے۔ دوسری طرف مغرب میں ہی کچھ ممالک ایسے ہیں، جنہوں نے اپنی ترقی کا آغاز سرمایہ دارانہ نظام سے کیا۔ آدم سمتھ کے نظریات کو اپنی معیشت کی بنیاد بنا کر سفر شروع کیا۔ طویل تلخ و شیریں تجربات سے سیکھا۔ انہوں نے آدم سمتھ کے فلسفے سے کچھ اچھی باتوں کے ساتھ ساتھ جرمن فلسفی کارل مارکس کے فلسفے اور نظریات کو بھی اپنی رہنمائی کا ذریعہ بنایا۔ ان ممالک نے سماجی جمہوریتوں کا نظام قائم کیا، اور فلاحی ریاست کے تصور پر زور دیا۔ سویڈن، ناروے، آئس لینڈ کی طرح کی سکنڈے نیویا کی ریاستیں اس کی اچھی مثالیں ہیں۔ تیسری طرف کچھ ممالک ایسے تھے‘ جنہوں نے مکمل سوشلسٹ انقلاب کو ہی ترقی کا واحد راستہ قرار دیا۔ اس راستے کی نظریاتی بنیادی مارکسزم نے فراہم کی، جس کو تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ مختلف ممالک میں اپنایا گیا۔ سوویت یونین میں لینن کی قیادت میں یہ مارکسزم‘ لینن ازم کی شکل میں بروئے کار آیا۔ چین میں یہ نظریہ مائوازم کی شکل میں سامنے آیا۔ کوریا میں اس کو جوچے نظریہ کہا گیا۔ کیوبا جیسے ممالک میں اس کو مقامی حالات کے مطابق سوشلسٹ نظام کی شکل میں اپنایا گیا۔ سوشلسٹ انقلاب کے تحت ان بے شمار ممالک نے مختصر وقت میں حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کیں۔ پرانے فرسودہ نظاموں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا گیا۔ بہت بڑے پیمانے پر صنعتیں لگائی گئیں۔ لاکھوں لوگوں کو غربت سے باہر نکالا گیا۔ لاکھوں لوگوں کو روٹی کپڑا، مکان اور تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولیات فراہم کی گئیں۔
کوئی نظام، ساکت، جامد اور دائمی نہیں ہوتا۔ بقول اقبال ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں؛ چنانچہ بدلتے ہوئے حالات اور ضروریات کے مطابق نظام میں مناسب تبدیلیاں لانا پڑتی ہیں۔ نظریات و خیالات میں نئے زمانے کے نئے تقاضوں کے مطابق ترامیم اور اضافے کرنے پڑتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو نظام خود فرسودگی کا شکار ہو کر ناکام ہو جاتا ہے۔ مگر ان میں سے ہر ایک نظام کی اپنی الف ب پ، اپنے قاعدے قانون اور اپنے اصول و ضوابط ہیں۔ کوئی ملک جو بھی نظام اپناتا ہے اسے اس نظام کے کچھ قاعدے قوانین اپنانا پڑتے ہیں۔ اس نظام کی کچھ مخصوص قباحتوں اور آلائشوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ ہر نظام سے کچھ ایسی ناپسندیدہ چیزیں جڑی ہوتی ہیں، جن سے اس نظام کے اندر رہ کر چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔
پاکستان میں اس وقت جو نظام قائم ہے، اور ناکامی سے دوچار ہے، بظاہر یہی نظام امریکہ اور برطانیہ میں کامیابی سے چل رہا ہے۔ مگر امریکہ اور برطانیہ کے برعکس پاکستان میں اس نظام کو کامیابی سے چلانے کے لیے وہ اقدامات نہیں کیے گئے، جو امریکہ و برطانیہ میں اس کی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ ان میں آزاد جمہوریت کا قیام، کرپشن سے پاک معاشی نظام، قابل اعتماد اور تیز رفتار نظام انصاف شامل ہیں۔ یہ وہ بنیادی عناصر ہیں، جو ایک سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کی کامیابی کے لیے لازم ہیں۔
ایک آزاد جمہوری نظام کے قیام کے لیے محض اعلان کر دینا کہ ہم ایک جمہوری ملک ہیں، یا باقاعدگی سے انتخابات کرا دینا یا پھر ایک جمہوری آئین لکھ دینا کافی نہیں ہوتا۔ ایک جمہوری سماج قائم کرنے کے لیے پہلے عوام یعنی رائے دہندگان کو آزاد کرنا پڑتا ہے، تاکہ وہ آزادی سے اپنی رائے کا اظہار بلا خوف و خطر اور بلا کسی جبر کے کر سکیں۔ امریکہ میں غلامی اور جاگیرداری کے خاتمے کے بغیر جمہوریت محض ایک انتخابی مشق تھی۔ پاکستان میں بھی زرعی اور سماجی انقلاب کے بغیر جمہوریت درحقیقت ایک انتخابی مشق ہی تو ہے۔ جب تک عوام بالا دست طبقات کے غیر ضروری اثرورسوخ سے آزاد نہیں ہو جاتے، اس وقت تک وہ آزادانہ طریقے سے بھلا اپنے نمائندوں کا انتخاب کیسے کر سکتے ہیں؟
جو جمہوری نظام امریکہ اور برطانیہ میں کامیابی سے چل رہا ہے، اور پاکستان میں کامیاب نہیں ہے‘ اس کی دوسری وجہ معاشی بد عنوانی ہے۔ کرپشن سے پاک نظام کے بغیر کسی ملک کے پاس کتنے ہی وسائل ہوں وہ عوام اور اصل حق دار تک نہیں پہنچ سکتے۔ ایسے نظام میں پہلے سے امیر اور بالا دست طبقات کی طاقت اور دولت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ عوام کی غربت اور تنگ دستی بڑھتی رہتی ہے۔ جیسے پاکستان میں ہو رہا ہے۔ بلین ڈالرز کا قرض اور ملکی وسائل کے استعمال کا کوئی فائدہ زمین پر کہیں نظر نہیں آتا۔ تیسری اور اہم ترین شرط ایک شفاف، تیز رفتار اور موثر نظام انصاف کی موجودگی ہے۔
سرمایہ داری کا نظام بنی نوع انسان کے سارے مسائل کا حل نہیں ہے۔ ایک آزاد سرمایہ دارانہ جمہوریت انسان کے ہر دکھ درد کا مداوا نہیں ہے۔ مگر جن ممالک میں اس نظام کو کامیابی سے چلایا گیا‘ اس نے وہ بے شمار مسائل حل کر دیے جو پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ترقی پذیر اور پسماندہ ملک میں نا قابل حل نظر آتے ہیں۔ ان مسائل میں روٹی کپڑا، مکان، علاج، تعلیم اور عزت نفس وغیرہ شامل ہیں۔ اگر یہاں یہ مسائل حل نہیں ہوئے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں ایک لبرل، سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کے بنیادی لوازم پورے نہیں ہوئے۔
ہمارے ہاں سرمایہ دارانہ نظام ہی ناکام نہیں ہوا، یہاں سوشلزم کے ساتھ بھی کوئی زیادہ سنجیدہ برتائو نہیں ہوا۔ ستر کی دہائی میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں سوشلزم کا علان کیا تھا، اس وقت آدھی دنیا میں سوشلزم کو پسماندہ ممالک کے لیے تیز رفتار ترقی کا کامیاب نسخہ مانا جاتا تھا۔ مگر پاکستان میں سوشلزم اگر وہ معجزہ دکھانے میں ناکام رہا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں سوشلزم کا ڈھنڈورا تو بہت پیٹا گیا، مگر عملی طور پر ایک ایسا ایک قدم بھی نہیں کیا گیا‘ جس سے سوشلزم کا دور پرے کا کوئی تعلق بھی ہو۔ یہی صورت آج آزاد سرمایہ دارانہ جمہوریت کی بھی ہے۔ ایک آئین لکھ کر اور چند ایک انتخابات کروا کر ہم خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہیں، مگر دوسری طرف ہم کوئی ایسا سنجیدہ قدم اٹھانے سے مسلسل گریزاں ہیں جو ہمیں حقیقی جمہوریت کی طرف لے جا سکتا ہے۔ ایک طرف ہمیں جمہوریت چاہیے اور دوسری طرف ہم نے جاگیرداری، سرداری نظام، وڈیرہ شاہی اور قبائلی نظام کو مقدس درجہ دے رکھا ہے۔ ان حالات میں بنیادی تبدیلی کے بغیر کسی بھی قسم کے نظام سے کسی چمتکار کی امید بے کار ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں