"FBC" (space) message & send to 7575

قوم پرستی کیا ہے؟

ان دنوں سیاست میں قوم پرستی کا بڑا چرچا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ''مشہور زمانہ‘‘ یا ''بدنامِ زمانہ‘‘ تجارتی جنگیں جاری ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں سخت گیر اور رجعت پسندانہ امیگریشن پالیسیاں مقبول ہیں۔ نسل پرستی قوم پرستی سے مل کر نت نئی شکلوں میں سامنے آ رہی ہے۔ بھارت میں ہندو مذہبی قوم پرستی ایک نیا جنم لے رہی ہے۔ عرب اور مسلم قوم پرستی کی اکا دکا آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔
ہمارے دور میں قوم پرستی کے کئی تصورات ہیں۔ عام طور پر سادہ زبان میں ''کسی شہری کی اپنی قوم کے ساتھ وفاداری، محبت و عقیدت کو قوم پرستی سمجھا جاتا ہے‘‘ مگر آج کل جس طرح اچھے اور برے مقاصد کے لیے قوم پرستی کا لفظ استعمال ہو رہا ہے، اس کے پیش نظر اس سیاسی اصطلاح کو زیادہ گہرائی کے ساتھ اس کے مناسب تاریخی پس منظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ قوم پرستی کسی خاص قوم کے مفادات کے فروغ اور تحفظ کا ایک سماجی، سیاسی اور معاشی نظریہ یا تحریک ہے۔ اس تحریک یا نظریے کا مقصد قومی شناخت اور خود مختاری کا حصول یا تحفظ ہو سکتا ہے۔ 
قوم پرستی کا مطلب ہے کہ ایک قوم کو خود پر اپنی حاکمیت کا حق ہونا چاہیے۔ یہ قوم مداخلت سے آزاد ہو۔ اسے غیر مشروط حق خود ارادیت حاصل ہو۔ قوم پرستی کے نظریے یا تحریک کا مقصد مشترکہ ثقافت، زبان، تاریخ اور روایات کی بنیاد پر ایک قومی شناخت قائم کرنا ہے۔ 
قوم پرستی کا یہ سیدھا سادا تصور آگے چل کر دیگر سیاسی نظریات کے ساتھ باہمی عمل میں پیچیدہ شکل اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ اگر قدامت پسند نظریات سے جڑ جائے تو ایک تنگ نظر اور قدامت پرست قوم پرستی کا روپ دھار لیتا ہے۔ یہ بائیں بازو کے سوشلسٹ نظریات سے متاثر ہو کر سوشلسٹ قوم پرستی کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اور تھوڑی سی اگلی اور ترقی پسند سٹیج پر جا کر یہ نظریہ بین الاقوامیت یا گلوبل سوچ بھی قبول کر سکتا ہے۔
تاریخ میں قوم پرستی نسبتاً ایک نیا تصور ہے۔ قدیم رومن اور دوسری بڑی ایمپائرز کے کچھ پہلو قوم پرستی پر مبنی ہوتے تھے، لیکن بیشتر ایمپائرز کئی علاقوں اور قوموں پر مشتمل ہوتی تھیں۔ یہ وسیع و عریض سلطنتیں تھیں، جو کئی قوموں اور علاقوں پر پھیلی ہوتی تھیں۔ اگرچہ ان میں غالب اور بالا دست طبقہ عام طور پر کسی ایک نسل، مذہب یا سماجی گروہ پر مشتمل ہوتا تھا۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں امریکی اور فرانسیسی انقلاب کے بعد قوم پرستی کی سیاست اور جذبات ابھرنے شروع ہوئے۔ ان جذبات کے تحت اقوام کو مشترکہ معاشی اور سیاسی مفادات کے تحت متحد کیا جانے لگا۔ اس باب میں جان جیک روسو جیسے دانشور ابھرے۔ نپولین جیسے سیاست دان پیدا ہوئے، جنہوں نے فرانس میں قوم پرستی کے نظریات کو فروغ دیا۔ جرمنی میں بسمارک جیسے لوگ سامنے آئے، جنہوں نے جرمنی کو قوم پرستی کے نام پر متحد کر دیا۔ مگر یہاں قوم پرستی کے ساتھ ساتھ نسل پرستی اور قومی برتری کے خیالات کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ بیسویں صدی کے معاشی اور سیاسی بحران میں یہ خیالات خطرناک نظریات میں بدل گئے۔ ان کی کوکھ سے فاشزم اور نازی ازم نے جنم لیا۔ مسولینی اور ہٹلر جیسے لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے قومی شناخت، برتری اور روایات کے تصورات کو منفی ہتھیار بنا کر تباہی پھیلائی۔
قوم پرستی کی کئی اقسام اور کئی تصورات ہیں۔ نسل پر مبنی قوم پرستی میں ایک قوم سے مراد ہے وہ لوگ جن کی ایک مشترکہ نسل، ورثہ اور ثقافت ہے۔ ایسی قوم پرستی اور نسل پرستی میں باریک فرق ہوتا ہے۔ بسا اوقات یہ فرق بالکل مٹ جاتا ہے۔ اس طرح کی قوم پرستی قبائلی قوم پرستی کے بھی بہت نزدیک ہوتی ہے، لیکن یہ دونوں بنیادی طور پر ایک تصور نہیں ہیں۔
شہریت کی بنیاد پر قوم پرست وہ لوگ ہیں جن کی مشترکہ شہریت، اقدار، ادارے ہیں اور اس کا تعلق آئینی حب الوطنی سے ہے۔ اس قسم کی قوم پرستی کا تصور جان جیک روسو کے ''سوشل کنٹریکٹ‘‘ میں ملتا ہے۔ اس شہری قوم پرستی کا ایک مظہر ریاستی قوم پرستی بھی ہے۔ ریاستی قوم پرستی بعض اوقات نسلی قوم پرستی کے ساتھ مل کر خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔ تاریخ میں اس کی ایک بد ترین مثال اٹالین فاشزم کی ہے۔ اسی قوم پرستی کی بنیاد پر مسولینی نے یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ ''ہر چیز ریاست کے اندر، کوئی چیز ریاست سے باہر نہیں، اور کوئی چیز ریاست کے خلاف نہیں‘‘۔
قوم پرستی کی ایک شکل توسیع پسندانہ قوم پرستی ہے۔ اس میں قومی عظمت اور تاریخ کے نام پر دوسرے علاقوں کو اپنی ریاست میں شامل کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ فاشسٹ اٹلی، نازی جرمنی، جاپانی ایمپائر، قدیم البانیہ اور سربیا وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ اس طرح کی قوم پرستی اپنی برتری کے زعم میں دوسری اقوام کے حق خود ارادایت کی نفی کر کے ان کو اپنے زیر نگیں لاتی ہے۔
قوم پرستی کی ایک ریڈیکل شکل بھی ہے، جس کو انقلابی قوم پرستی کہا جا سکتا ہے۔ اس قوم پرستی کی بنیاد ایک مشترکہ مقصد اور مشترکہ منزل ہوتی ہے۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں فرانس اور اٹلی میں اس طرح کی قوم پرستی کے رجحانات عام تھے۔ ہمارے دور میں تیسری دنیا کے کئی ممالک میں اس نوع کی قوم پرستی کی انقلابی تحریکیں موجود ہیں۔ مختلف علیحدگی پسند تحریکوں میں قوم پرستی کے رجحانات پائے جاتے ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ ہر علیحدگی پسند تحریک قوم پرست ہو۔ بسا اوقات سیاسی و معاشی تصادم، علاقائی پسماندگی اور ناراضگی کی وجہ سے افراد کا کوئی گروہ الگ ریاست کا مطالبہ کر سکتا ہے، جس کا لازمی مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ قوم پرستی کی تحریک ہے۔ ہر الگ ریاست کا مطالبہ قوم پرست مطالبہ نہیں ہوتا۔
قوم پرستی کی ایک شکل مارکسسٹ لیننسٹ قوم پرستی ہے۔ قوم پرستی کے اس رجحان کے تحت کسی قسم کے نسلی، مذہبی یا علاقائی امتیاز کے بغیر قوم پرستی کو عالمی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے، اور اس تصور کے تحت قوموں کا غیر مشروط حق خود ارادیت تسلیم کرتے ہوئے انہیں ایک بین الاقوامی لڑی میں پرویا جا سکتا ہے۔ اس قسم کی غیر متعصبانہ ترقی پسند قوم پرستی کے قریب بائیں بازو کی قوم پرستی بھی ہے، جس کو سوشلسٹ قوم پرستی بھی کہا جا سکتا ہے۔ 
قوم پرستی کی ایک شکل لبرل یا آزاد خیال قوم پرستی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ قوم پرستی کا یہ تصور آزادی، رواداری اور مساوات جیسے لبرل تصورات کے ساتھ میل کھاتا ہے۔ ارنسٹ رینن اور جان سٹورٹ مل کو اس طرح کی قوم پرستی کا نظریہ ساز سمجھا جاتا ہے۔
تاریخی اعتبار سے قوم پرستی کا دہرا کردار رہا ہے۔ ایک کردار مثبت تھا، جس سے دنیا میں کئی انقلاب برپا ہوئے۔ ایک کردار منفی رہا ہے، جس کے بطن سے نسل پرستی اور ہالوکاسٹ جیسے درد ناک واقعات رونما ہوئے ہیں۔ قوم پرستی کے ساتھ یہ دُہرا کردار آج بھی جڑا ہے، جس کے مظاہر ہمیں جا بجا نظر آتے ہیں، اور جس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
آج قوم پرستی کو تجارتی جنگوں، نسل پرستی کی آڑ میں امیگریشن کی سخت گیر پالیسیوں اور دوسری قوموں سے ڈرانے یا نفرت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی تنگ نظری پر مبنی قوم پرستانہ پالیسیاں، نسل پرستی، امیگریشن دشمنی اور تجارتی جنگیں اس کی ایک مثال ہیں۔ اور دوسری طرف مغربی یورپ کے کئی ممالک میں نسل پرست اور تنگ نظر نظریہ رکھنے والی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کا مقبولیت حاصل کرنا قوم پرستی کا ایک منفی اظہار ہے۔
بعض جگہوں پر قوم پرستی اور حب الوطنی کو آپس میں کنفیوزڈ کیا جاتا ہے‘ حالانکہ یہ دو مختلف تصورات ہیں۔ حب الوطنی اپنے وطن سے محبت اور وفاداری کا نام ہے۔ اس کے مقاصد اور اقدار سے محبت کا نام ہے۔ قومی ترانہ، قومی کھیل اور قومی دنوں میں اپنے جذبات کے اظہار کا نام ہے۔ اس کے بر عکس قوم پرستی زیادہ تر زبان، اور کلچر کی بنیاد پر اپنی شناخت اور قومی خود مختاری کے احساس کا نام ہے۔ پسماندہ علاقے کے لوگوں کی طرف سے مساوی حقوق کا مطالبہ یا اپنی زبان و ثقافت کے لیے ریاست کے اندر جائز مقام مانگنا، اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے مطالبے لازمی طور پر قوم پرستی نہیں ہوتے، بلکہ یہ مساوی حقوق کی منصفانہ جدوجہد ہوتی ہے، جس کو درست تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں