ہم جس دور میں رہتے ہیں، یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو شکوہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی نے ہمارے گرد گھیرا بہت تنگ کر دیا ہے۔ ہماری زندگی مکمل طور اپنے قابو میں کر لی ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے نیا کلچر اور نئی اخلاقیات جنم لے رہی ہیں۔ یہ نیا کلچر اور نئی اخلاقیات ہمارے پرانے کلچر اور اخلاقیات کو مار کر خود اس کی جگہ لے رہی ہے۔ ہماری روایات غائب ہو رہی ہیں۔ رسوم و رواج دم توڑ رہے ہیں۔ اخلاقی ضابطے بدل رہے ہیں۔ انسانی رشتے ختم ہو رہے ہیں، یا نئی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ انسان کا انسان سے براہ راست تعلق واسطہ کم ہو رہا ہے۔ اس کی جگہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا لے رہا ہے۔
انسان کا ایک دوسرے سے تعلق کا مقبول ترین ذریعہ ان باکس، ای میل، ٹیکسٹ بنتا جا رہا ہے۔ سماجی طور پر متحرک ہونے کا یہ پیمانہ نہیں ہے کہ آپ نے کتنی سماجی تقریبات میں شرکت کی۔ کتنے تعزیتی ریفرنسز میں شامل ہوئے۔ کتنے لوگوں کی عیادت کی۔ کتنے دکھ درد یا خوشی غمی میں شرکت کی۔ سماجی طور پر متحرک ہونے کا پیمانہ یہ ہے کہ آپ کے ان باکس میں کتنے پیغامات کا تبادلہ ہوا، آپ کے پیج پر کتنے لائق ہیں۔ آپ کا پیغام کتنے لوگوں نے ری ٹویٹ کیا ہے۔
نئی ٹیکنالوجی کے بارے میں فکرمند لوگوں کے یہ سارے گلے شکوے بجا ہیں۔ مگر یہ ابتدا ہے۔ جس کو ہم مستقبل کہتے ہیں، وہ صیح معنوں میں ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔ ایک ایسا زمانہ جس کا اوڑھنا بچھونا ہی ٹیکنالوجی ہو گی‘ یعنی جو کچھ ہمیں مستقبل میں دیکھنا پڑے گا، اس کے مقابلے میں جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں محض اس کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ مستقبل میں کیا دیکھنا باقی ہے؟ اس پر مغرب میں وسیع پیمانے پر ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ آئے دن نئی کتب سامنے آ رہی ہیں‘ جو مستقبل قریب اور مستقبل بعید میں ٹیکنالوجی کے ساتھ انسان کے تعلق کو سمجھنے سمجھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ہر سال اس تعلق پر ہزاروں کتب سامنے آتی ہیں۔ اس تیز رفتار زمانے میں یہ سب لٹریچر پڑھنا‘ اور اس سے استفادہ کرنا بہت مشکل ہے۔ مگر اس کے بغیر لگتا ہے انسان نئی سوچ، نئی ایجادات اور نئے رجحانات سے نا واقف ہے۔ سال دو ہزار سولہ میں اس موضوع پر ایک دلچسپ کتاب آئی تھی۔ الیگزینڈر وائین سٹائن کی یہ کتاب تیرہ افسانوں کا مجموعہ ہے۔ نئی دنیا کے بچے، نامی اس کتاب میں اس مستقبل کی ہلکی سی جھلک ملتی ہے، جو ہمارا انتظار کر رہا ہے۔ اس کتاب کے مطابق ہمارے مستقبل یعنی جوان سال نسل کی زندگی کا ایک اہم حصہ سوشل میڈیا ہے، جس کے ارد گرد ان کی زندگی گھومے گی۔
سوشل میڈیا پر آج بہت لوگوں کو شکوہ ہے کہ یہ عام دھارے کے میڈیا کی جگہ لے رہا ہے۔ بہت زیادہ بے قابو اور آزاد ہے۔ اس کو اپنی حدود میں رکھنے یا اس پر نگاہ رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ جو ایسا کرنا بھی چاہتے ہیں‘ ان کے پاس ایسا کرنے کا کوئی مؤثر طریقہ یا دوسرے الفاظ میں ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ مگر یہ تو کچھ بھی نہیں، اس طوفان کے مقابلے میں جس کا ہم مستقبل میں سامنا کرنے جا رہے ہیں۔ مستقبل کی نئی دنیا حقیقی معنوں میں سوشل میڈیا کے گرد گھوم رہی ہو گی۔ اس دور میں ہماری خوشی غمی، کامیابی اور ناکامی کا دارومدار سوشل میڈیا پر ہو گا۔ عام دھارے کے میڈیا اور سوشل میڈیا میں فرق مٹ جائے گا۔ دونوں ایک دوسرے میں ضم ہو جائیں گے۔ عام دھارے کا میڈیا بھی سوشل میڈیا ہی ہو گا، اور سوشل میڈیا نئے زمانے کی ایک نئی حقیقت‘ ایک نئی کمیونٹی ہو گی۔ آج بے شک سوشل میڈیا کو آزاد و بے قابو سمجھا جاتا ہے، مگر پھر بھی ہمارے دور کی مطلق العنان حکومتیں اور سماج کے دوسرے طاقت ور طبقات اس پر قابو پانے یا اس کو محدود کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جن ممالک کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی ہے، اور جن ممالک کے عوام کو بنیادی انسانی حقوق یا شہری آزادیوں کے لیے آئینی اور قانونی تحفظ نہیں ہے، وہاں حکومتیں سوشل میڈیا کی مختلف اقسام کو کنٹرول کرتی ہیں۔ وہ اپنے ملک کی سرحدوں کے اندر سوشل میڈیا کی پہنچ کو روک سکتی ہیں۔ ماضی میں یوٹیوب اور فیس بک کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔ بسا اوقات بعض مخصوص علاقوں میں سوشل میڈیا کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ کو ہی بند کر دیا جاتا ہے۔ تو گویا فی الوقت ارباب اختیار کو اس معاملے پر کچھ نہ کچھ اختیار حاصل ہے مگر مستقبل قریب میں ایسا شاید نہ ہو سکے؛ چنانچہ سوشل میڈیا پر کیا دیکھا جائے، اور کیا نہ دیکھا جائے؟ یہ فیصلہ خود براہ راست دیکھنے والوں کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ نئی نسل اس ٹیکنالوجی کی برکت سے لا محدود آزادی کی مالک ہو گی۔ اگر اس پر کوئی حد ہو گی تو صرف وہ جو نئی نسل خود اپنے آپ پر عائد کرے گی۔
انیس سو اسی اور نوے کی دہائی میں سائنس فکشن ادب اور سائنس فکشن فلمز نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ ان فلموں کے کرداروں کے ہاتھوں میں ایسے آلات ہوتے تھے، جن کے ذریعے وہ شہر کی گلیوں میں مطلوبہ راستہ اور ایڈریس تلاش کر سکتے تھے۔ یا زمین پر اپنی لوکیشن بتا سکتے تھے۔ وہ کوئی بھی معلومات لینے کے لیے کمپیوٹر سے سوال کر سکتے تھے، جس کا درست جواب مل سکتا تھا۔ ان فلموں میں لوگ دور دراز ہو کر اپنے پیاروں کے ساتھ وڈیو کے ذریعے بات کر سکتے تھے۔ تین چار دہائیاں پہلے ان باتوں کا تصور صرف ایک سائنس فکشن لکھاری ہی کر سکتا تھا، اور عام آدمی تو کیا اس وقت کے اچھے خاصے دانشور، اور سائنسی سوچ رکھنے والے لوگ بھی اس پر یقین کرنے کو تیار نہ تھے۔ مگر یہ سب اب ایک حقیقت بن گئی ہیں۔ اب ہاتھ میں لیپ ٹاپ یا جی پی ایس اٹھا کر چلنے کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ اب نئی ٹیکنالوجی آپ کی جلد کے نیچے ایک چپ نصب کر سکتی ہے۔ اس چپ میں جی پی ایس، نیوی گیٹر اور کمپیوٹر سب کچھ ہے۔
اب ہم میں سے کچھ لوگ اپنے ارد گرد خود کار کاریں گزرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ان میں اب وہ کاریں بھی آ گئی ہیں کہ اگر ڈرائیور نے زیادہ شراب پی رکھی ہو تو کار چلنے سے انکار کر دیتی ہے۔ ہم کچھ شہروں میں اڑتی ہوئی کاریں بطور ٹیکسی استعمال ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ بڑے بڑے کام آ ہستہ آہستہ روبوٹ کے ہاتھ میں آ رہے ہیں۔ جن پیشوں، کام اور مہارت پر ہمیں آج فخر ہے، کل یہ روبوٹ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوں گے۔ ڈاکٹرز، انجینئرز اور وکلا کے بیشتر کام بھی یہ مشین سنبھال لے گی۔ جس طرح بیس سال پہلے کی سائنس فکشن ہمارے دور کی حقیقت بن چکی ہے۔ اس طرح جو آج کے دور کی سائنس فکشن ہے‘ وہ کچھ عرصے بعد کی حقیقت بن جائے گی۔
روبوٹ سائنس فکشن اور خود سائنس کا بھی پسندیدہ موضوع رہا ہے مگر ہمارے دور میں یہ فکشن نہیں رہا، بلکہ یہ ایک حقیقت بن چکا ہے۔ مستقبل کے انسان کی سب سے بڑی ضرورت، مجبوری اور ساتھی بھی روبوٹ ہو گا۔ جس طرح انسان سوشل میڈیا کے ذریعے حقیقی دنیا کے بجائے اپنی تخلیق کردہ دنیا میں رہے گا‘ اسی طرح روبوٹ کا انسانی زندگی میں عمل دخل اس قدر بڑھ جائے گا کہ انسان کے شب و روز روبوٹ کے سہارے گزریں گے۔ اس سلسلۂ عمل میں انسان جذباتی طور پر بھی روبوٹ پر انحصار کرے گا۔ انسان کی محبت و نفرت کے رشتوں کا رخ کی روبوٹ کی طرف مڑ جائے گا‘ اور انسان کی جذباتی وابستگیاں یا دشمنی بھی حقیقی انسان کی طرح روبوٹ اور دیگر مشینوں سے ہو جائے گی۔ اس کتاب کا ایک اہم موضوع یہ بھی ہے کہ کیا انسان روبوٹ سے محبت کر سکتا ہے؟ اگر وہ محبت کرے گا تو اس کی شکل کیا ہو گی۔ اور اس کا انجام کیا ہو گا؟