اس نے گن کر بیس قدم اٹھائے۔ اس کا خیال ہے کہ یہ تاریخی قدم تھے۔ سرزمین شمالی کوریا کی تھی، جس کا سربراہ کم جانگ اس کا ہم قدم تھا۔ وہ جنوبی کوریا سے شمالی کوریا میں داخل ہوا تھا۔ اس نے اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ وہ پہلا امریکی صدر ہے، جس نے اس سر زمین پر یوں قدم رکھا ہے۔ میں حیرت و افسوس سے سوچ رہا تھا کہ یہ دنیا کتنی بدل چکی ہے۔ جس بات پر صدر ٹرمپ کو اتنا فخر ہے شاید اس بات کا صرف تصور کر کے ہی ماضی کے کئی امریکی صدور شرم سے پانی پانی ہو جاتے۔ امریکی شاعر، ادیب و دانشور اور سول سوسائٹی والے اس بات پر ماتم کرتے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ امریکہ کوئی فرشتوں کی سر زمین ہے یا اس کے صدور میں سے کبھی کسی نے ایسا ان ہونا کام نہیں کیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا کی سیاست میں امریکہ کا ''ٹریک ریکارڈ‘‘ کوئی بہت قابل رشک نہیں ہے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ ٹرمپ اور کم کی یہ تاریخی تصویر دیکھنے سے پہلے میں آج صبح صبح امریکی دانشور نوم چومسکی کی کتاب ''دنیا پر کون حکمران ہے‘‘ کی ورق گردانی کر رہا تھا۔ اس کتاب میں ایک جگہ نوم چومسکی یہ گرہ کھولتے ہیں کہ امریکہ عرب دنیا میں سچی جمہوریت کی حمایت کیوں نہیں کر سکتا۔ پروفیسر کے دلائل اور تجزیہ دونوں چشم کشا ہیں، جس کا لطف اٹھانے اور استفادے کے لیے کتاب پڑھنا ضروری ہے۔
پروفیسر اس باب میں ایک دلچسپ قصہ سناتے ہیں۔ سن انیس سو اٹھاون میں صدر آئزن ہاور نے عرب دنیا میں امریکہ کے خلاف نفرت کی مہم پر تشویش کا اظہار کیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ یہ مہم عرب حکومتوں کی طرف سے نہیں، بلکہ عرب عوام کی طرف سے تھی، جس پر صدر کو زیادہ تشویش تھی۔ صدر نے اپنی تشویش کا اظہار امریکہ کی نیشنل سکیورٹی کونسل سے کیا۔ جواب میں سکیورٹی کونسل نے وضاحت کی کہ عرب دنیا میں یہ ''پرسیپشن‘‘ یعنی خیال یا احساس پایا جاتا ہے کہ امریکہ وہاں ڈکٹیٹرز کی حمایت کرتا ہے، اور جمہوری تحریکوں اور ترقی کی مخالفت کرتا ہے تاکہ وہ علاقے کے وسائل پر اپنا کنٹرول رکھ سکے۔ نیشنل سکیورٹی کونسل نے صدر کو بتایا کہ یہ ''پرسیپشن‘‘ بنیادی طور پر درست ہے۔ ہمیں عرب دنیا میں ایسا ہی کرنا چاہیے جو ہم کر رہے ہیں۔ گیارہ ستمبر کے بعد پینٹاگون نے عرب دنیا کے بارے میں جو تحقیقاتی رپورٹ تیار کی اس سے اس بات کی تصدیق ہوِئی کہ یہ پرسیپشن آج بھی برقرار ہے۔ غیر جانب دار اور معتبر اداروں کی طرف سے تیار کیے گئے تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ عرب و ایران وغیرہ میں عوام کی بھاری اکثریت امریکہ اور اسرائیل کو اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ عوام کی یہ بھاری اکثریت اگر اپنی مرضی سے اپنے نمائندے منتخب کرے تو یہ لوگ امریکہ کے بارے میں سخت رویہ اپنائیں گے اور امریکہ کو اس خطے سے نکلنا پڑے گا۔ امریکہ کے باب میں یہ قصہ صرف عرب دنیا تک ہی محدود نہیں ہے۔ امریکہ نے دنیا بھر میں اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کے لیے یہی پالیسی اپنائے رکھی۔ جمہوری قوتوں کے مقابلے میں آمروں کی حمایت کی یا ان کے ظلم و تشدد سے چشم پوشی کی۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور ضیاالحق سے تعاون اس کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ زبانی کلامی ہی سہی امریکہ نے دنیا میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے حوالے سے ایک بڑا کردار ادا کیا؛ اگرچہ اس کی اپنی وجوہات تھیں۔ ایک بڑی بھاری وجہ سوویت یونین اور سوشلزم کا خوف تھا۔ امریکی دانشوروں کے نزدیک انسانی حقوق اور شہری آزادیاں سوشلسٹ ریاستوں کی سب سے کمزور ترین کڑی تھی۔ اس کڑی پر حملہ کر کے سوشلسٹ ریاستوں کو زمین بوس کیا جا سکتا تھا۔ سٹالن جیسے حکمرانوں نے اس محاذ پر بہت نا عاقبت اندیشی سے کام لیا۔ وہ دنیا کا مشکل ترین کام کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ وہ کام تھا ریاست کی طرف سے عوام کو روٹی کپڑا، مکان، روزگار، صحت اور تعلیم کی سہولیات مہیا کرنا۔ اب کرنے کا کام یہ تھا کہ عوام کو انسانی حقوق اور شہری آزادیاں دینے کی کوئی سبیل نکالی جائے۔ یہ سبیل نکالی جا سکتی تھی۔ ریاست کو خود اپنے عوام سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں تھی‘ مگر سرمایہ داری کی سازش کا خوف اور اپنے عوام پر عدم اعتماد کی وجہ سے آمرانہ طرز عمل انہیں لے ڈوبا۔ بات کہیں اور نکل گئی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ امریکی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا ڈھنڈورا سوویت یونین کی وجہ سے زیادہ پیٹتے تھے مگر امریکہ میں لاکھوں لوگ ایسے بھی تھے جو انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے بارے میں مخلص اور سنجیدہ تھے۔ ان میں امریکہ کے دانشور، شاعر ادیب، فن کار اور سول سوسائٹی کے ممتاز افراد شامل تھے۔ ان میں کچھ امریکی صدور بھی تھے ، جنہوں نے انسانی حقوق پر بڑا واضح موقف اختیار کیا؛ اگرچہ ایسا کسی ثواب کے لیے نہیں تھا، بلکہ اس کے پس منظر میں معاشی اور عسکری وجوہات تھیں۔ کوریا بھی اس کی ایک نمایاں مثال تھی۔ کوریا کے بارے میں جو سخت امریکی پالیسی تھی اس کی وجہ خطے میں امریکی مفادات اور اس کے اتحادیوں کے مفادات تھے۔ مگر اس کا کچھ نہ کچھ فائدہ تو ان قوتوں کو بھی ہوا جو انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے تصورات کے لیے لڑ رہے تھے۔ زیادہ لمبی تاریخ میں نہیں جاتے۔ صرف تین سال قبل سال دو ہزار سولہ میں صدر اوبامہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی پاداش میں شمالی کوریا، اور خود کم جونگ پر ذاتی نوعیت کی پابندیاں عائد کیں۔ اس وقت کون سوچ سکتا تھا کہ ایک امریکی صدر صرف تین سال بعد کم کی بانہوں میں بانہیں ڈالے اپنے قدم گن رہا ہو گا۔ جہاں تک کوریا میں انسانی حقوق کا تعلق ہے تو اس پرکوئی دو آرا نہیں ہو سکتیں۔ اس باب میں یہ شایدآج اس کرہ ارض پر سب سے بد ترین جگہ ہے۔ تھامس برگنتھل انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں جج رہا ہے۔ ذاتی طور پر اپنے بچپن میں یہ شخص جرمنی میں نازی کیمپ میں رہا، جہاں اس نے نازی تشدد اور غیر انسانی سلوک کا ''فرسٹ ہینڈ‘‘ اور بنفس نفیس تجربہ سہا اور مشاہدہ کیا ہے۔ اس نے شمالی کوریا کے سیاسی قیدیوں پر دو ہزار سترہ کی ایک رپورٹ میں لکھا کہ نازی کیمپ کا کوریا کے سیاسی قیدیوں کے کیمپوں سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اس نے لکھا: میں نے اپنی جوانی میں نازی کیمپوں کی جو حالت دیکھی مجھے یقین ہے کہ شمالی کوریا کے قیدی کیمپوں کی حالت اس سے زیادہ خوفناک اور بد ترین ہے۔ سیاسی قیدیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں جو تحقیقاتی رپورٹ تیار کی گئی ہے‘ اس میں سابقہ قیدی، موجودہ قیدی، اور کیمپوں کے گارڈز کے تفصیلی انٹرویوز شامل ہیں۔ سابقہ قیدیوں کے معاملات کی سماعت کرنے والے ایک پینل نے کہا ہے کہ دنیا میں گیارہ مسلمہ جنگی جرائم ہیں۔ شمالی کوریا کے سیاسی قیدیوں کے کیمپوں میں ان گیارہ جنگی جرائم میں سے دس کا کثرت سے ارتکاب ہوتا ہے۔ ان جرائم میں قتل، جبری غلامی، ریپ اور جنسی تشدد شامل ہیں۔
جس سرزمین پر سیاسی قیدیوں کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے، اس سرزمین پر بیس قدم چل کر تاریخ بنانے کا یہ عمل امریکہ کی سول سوسائٹی کے ماتھے پر ایک بد نام داغ ہے۔ حیرت و افسوس کی بات یہ ہے کہ اس عمل کے خلاف خود امریکہ کے اندر کوئی خاص رد عمل ظاہر نہیں ہوا۔ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی تنظیموں نے اس باب میں تقریباً خاموشی اختیار کیے رکھی۔ عالمی سطح پر اس نوعیت کے اقدامات کے دور رس نتائج نکلتے ہیں۔ اس سے دنیا بھر میں آمریت پسند قوتوں اور دل میں آمریت کی خواہش اور ایجنڈا رکھنے والی قوتوں کو حاصلہ افزا پیغام ملتا ہے۔ آج دنیا کے کئی ممالک میں پہلے ہی جمہوریت رو بہ زوال ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں معمول کی بات ہے۔ میڈیا پر پابندیاں لگ رہی ہیں۔ شہری آزادیوں کو محدود کیا جا رہا ہے۔ ایک ایسے ماحول میں کم جونگ جیسے بے رحم ڈکٹیٹر کے ساتھ اس طرح کی چہل قدمی کوئی اچھا اشارہ نہیں ہے۔ تیسری دنیا کی نوخیز جمہوریتوں پر اس کے خوفناک اثرات پڑیں گے۔