ہمارے دور میں اظہار کا سب سے مؤثر ذریعہ الیکٹرانک میڈیا ہے‘ اس میں مقبول ترین ٹیلی ویژن ہے، مگر اس کے پہلو بہ پہلو سوشل میڈیا اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ دنیا کے جن ممالک میں مطلق العنانیت کے رجحانات ہیں، وہاں اربابِ اختیار سوشل میڈیا بارے بہت فکر مند رہتے ہیں۔ وہ اس بات پر غور کرتے رہتے ہیں کہ اظہار کے دیگر ذرائع کی طرح سوشل میڈیا کو ''لگام‘‘ دینے کا کیا بندوبست کیا جائے۔ اس باب میں کوئی ٹھوس فارمولہ ان کے پاس نہیں ہے، اس لیے کہیں اخلاقیات، کہیں مذہب اور کہیں ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے نام پر سوشل میڈیا کو قابو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جلد ہی سوشل میڈیا کو قابو میں رکھنے کا کوئی نہ کوئی مناسب طریقہ ڈھونڈ لیں گے۔ چین اس باب میں کامیاب تجربات کر رہا ہے اور دوسرے اس کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ لیکن تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اگر سوشل میڈیا پابند ہو گیا تو اظہار کا کوئی نیا ذریعہ سامنے آ جائے گا۔ حکمران طبقات اور میڈیا کے درمیان یہ آنکھ مچولی صدیوں سے جاری ہے۔ لگتا ہے حکمران طبقات نے تاریخ کے اس لمبے سفر سے کچھ نہیں سیکھا۔ اظہار رائے پر پابندی کی خواہش ان کے اندر ہر دور میں مچلتی رہی ہے۔ اس باب میں یورپ کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ یورپ میں ارباب اختیار، سماجی و معاشی طور پر غالب اور اجارہ دار قوتوں اور اظہار رائے کی آزادی کی جدوجہد کی لمبی تاریخ تلخ واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اس تاریخ میں کئی مفید اسباق ہیں۔ یورپ میں اس پابندی کا بڑے پیمانے پر آغاز پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد کتابوں پر پابندی لگنے سے ہوا تھا۔
سولہویں صدی کی ابتدا میں یورپ میں ''ممنوعہ کتابوں کی فہرست‘‘بہت مشہور ہوئی۔ یہ فہرست رومن کیتھولک چرچ نے جاری کی تھی۔ رومن کیتھولک چرچ کو اس وقت لوگوں کے ذاتی خیالات اور نظریات پر اتھارٹی مانا جاتا تھا اور باور کیا جاتا تھا کہ چرچ کو لوگوں کے ذاتی، سیاسی و سماجی خیالات پر حکم صادر کرنے کا حق ہے۔ ان کے خیالات کو درست قرار دینے یا غلط قرار دے کر دبانے کا اختیار بھی حاصل ہے۔
ممنوعہ کتابوں کی فہرست کا کیٹالاگ ترتیب تو چرچ نے دیا تھا، مگر اس کو زمین پر نافذ مقامی اتھارٹی اور مقامی حکومتوں نے کیا؛ چنانچہ اس کیٹالاگ کے تین سو سے زائد ایڈیشن شائع ہوئے۔ اس فہرست میں ان لوگوں کی کتابیں بھی شامل تھیِں جو آج یورپ میں احیائے علوم اور شعور کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ اس طویل فہرست میں رینے ڈسکارٹس، برونو، گلیلیو، ڈیوڈ ہیوم، جان لاک، جان جیک روسو اور والٹیر جیسے نابغہ روزگار دانشور شامل تھے۔
یہ پریس پر پابندی کے ابتدائی ایام کی کہانی ہے، جس کی وجہ خود پرنٹنگ پریس تھا۔ پرنٹنگ پریس کی وجہ سے کتابیں چھاپنا ایک آسان عمل بن گیا تھا‘ ان کو بڑی تعداد میں عوام تک پہنچایا جا سکتا تھا۔ اس طرح ایسی ایسی کتابیں چھپنا شروع ہوئیں، جن سے اہلِ حکم خوفزدہ تھے۔ خواہ یہ چرچ ہو یا حکومت ہو۔ ان ارباب اختیار کا بس چلتا تو یہ ترک حکمرانوں کی طرح پریس پر پابندی لگا دیتے۔ مگر چونکہ پریس میں بڑے پیمانے پر بائبل جیسی کتابیں بھی چھپنا شروع ہو گئی تھیں، جس سے مذہبی طبقات کو فائدہ نظرآتا تھا؛ چنانچہ انہوں نے پرنٹنگ پریس پر پابندی کے بجائے کتاب چھاپنے کے عمل کو مشکل بنانے اور مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لینے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے حکم صادر کیا کہ کوئی بھی کتاب چھاپنے کے لیے حکومت سے پیشگی اجازت یعنی لائسنس لینا ضروری ہے۔ یہ لائسنس عطا کرنے کے لیے درباری اور سرکاری دانشور پوری کتاب کو بار بار پڑھتے تھے۔ اس کی خوب چھان پھٹک کرتے تھے۔ اور صرف ایسی کتاب کو لائسنس عطا کرتے تھے جو چرچ اور ارباب اختیار کے مروجہ خیالات و عقائد سے مطابقت رکھتی ہو۔ یہ علم، خیالات و سوچ کا قتل عام تھا، جس کے خلاف یورپ میں بڑے پیمانے پر ایک باقاعدہ مزاحمت شروع ہوئی۔
بڑے بڑے لکھاری اور دانشور اس مزاحمت میں شامل ہوئے۔ جان ملٹن نے اس وقت ''حق طلاق‘‘ پر ایک مضمون لکھا تھا۔ چرچ نے اس مضمون پر پابندی لگوا دی اور اسے چھاپنے کا لائسنس دینے سے انکار کر دیا گیا؛ چنانچہ ملٹن آزادیٔ اظہارِ رائے کے ایک بڑے مبلغ کے طور پر ابھرا۔ اس سے اظہارِ رائے کے اصول، اس کے سکوپ، نقصانات اور حدود و قیود پر بڑے پیمانے پر مباحثے شروع ہوئے۔ مگر اس مزاحمت کے باوجود ارباب اختیار نے اپنی روش جاری رکھی اور یہ قانون برقرار رہا۔ انقلاب کے بعد جب سن سولہ سو نواسی میں ''بل آف رائٹس‘‘ متعارف ہوا تو یہ کالے قوانین ختم ہوئے۔ مگر اس کے باوجود چھاپنے کا حق چند تنظیموں اور گروہوں تک محدود رہا۔ اس وقت لندن شہر میں پچاس سے زائد چھاپہ خانے تھے، مگر صرف بیس پبلشرز اور دو یونیورسٹیوں کو کتابیں چھاپنے کی اجازت تھی۔ پھر بھی یہاں پبلشرز کے لیے ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ ان کو جلا وطن ہو کر نیدرلینڈ اور دوسرے یورپی ممالک میں پناہ لینا پڑی۔ اس وقت یورپ کے دیگر ممالک میں بھی حالات کوئی زیادہ سازگار نہ تھے۔ سترہ سو نواسی میں صرف پیرس شہر میں آٹھ سو مصنف، پبلشرز اور بک سیلرز قید تھے۔
اٹھارہویں صدی کے شروع میں اظہارِ رائے کی آزادی کا سوال پورے یورپ میں ایک بڑا موضوعِ بحث بنا۔ یہ موضوع عملی اور نظریاتی سیاست کا حصہ بننا شروع ہوا۔ کسی باقاعدہ ریاست کی طرف سے اظہارِ رائے کی آزادی کے حق میں پہلا حکم چار دسمبر سترہ سو ستر میں ڈنمارک‘ ناروے میں جاری ہوا۔
اس دور میں جان سٹیورٹ مل ابھر کر سامنے آیا۔ اس نے کہا کہ علم آزادی سے مشروط ہے۔ اپنی رائے کے آزادانہ اظہار کے بغیر علم سائنس، قانون یا سیاست میں کوئی ترقی ممکن نہیں۔ اس موضوع پر مل کی کتاب ''آون لبرٹی‘‘ سامنے آئی۔ یہ اظہار رائے پر کلاسک کا درجہ حاصل کر گئی۔ اس نے لکھا کہ سچ جھوٹ کو خود شکست دیتا ہے۔ اس لیے سچ یا جھوٹ کے آزادانہ اظہار سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سچ کوئی ساکت یا جامد چیز نہیں ہے، یہ وقت کے ساتھ نشوونما پاتا ہے۔ ایک وقت میں ہم جو کچھ سچ سمجھتے تھے، اس کا بڑا حصہ جھوٹ ثابت ہو چکا ہے۔ اس لیے جو خیالات ہمیں بظاہر غلط لگتے ہیں، انہیں ممنوع نہیں قرار دینا چاہیے۔ ایک طے شدہ موقف کے گہرے تاریک اندھیروں سے نکلنے کے لیے آزادانہ مکالمہ ضروری ہے۔
ایک انسان کی رائے اس کی اصل قدر اور اثاثہ ہوتی ہے۔ لہٰذا رائے پر پابندی انسان کے بنیادی حق سے نا انصافی ہے۔ رائے پر پابندی کا صرف ایک جواز ہے کہ اس سے کسی دوسرے کو جسمانی نقصان کا احتمال ہو۔ اس کے کوئی بھی معاشی یا اخلاقی نتائج پابندی کا جواز نہیں بن سکتے۔
اظہار رائے کی آزادی کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ دوسروں کو اس رائے کے اظہار کی آزادی دیں جو آپ کو نا پسند ہے۔ صرف ان خیالات کے اظہار کی اجازت جو آپ کو پسند ہیں یا آپ کے خیالات و نظریات سے مطابقت رکھتے ہیں، اظہار کی آزادی نہیں ہے۔ ورنہ مجرد اظہار کی آزادی تو فاشزم اور مطلق العنان حکومتوں میں بھی رہی ہے۔ ہٹلر نے فاشزم کے پرچار پر پابندی تو نہیں لگائی تھی۔ اس نے ان خیالات پر پابندی لگائی تھی، جو فاشزم کو خطرناک قرار دیتے تھے۔ سٹالن کمیونزم کے پرچار کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔ مگر اس نے ان سائنس دانوں کو قید کر دیا تھا، جو اس کی سماجی، معاشی اور زرعی پالیسیوں کے نقاد تھے۔
اظہارِ رائے کی آزادی کا بنیادی اور اہم ترین نکتہ ہی یہ ہے کہ ان خیالات و نظریات کے اظہار کی آزادی ہو جو اربابِ اختیار کو نا پسند ہوں۔ ان کے نظریات و خیالات سے متصادم ہوں۔ جو مروجہ نظریات اور اخلاقیات کو چیلنج کرتے ہوں۔ بعض ملکوں میں آئے دن جو ٹاک شوز بند ہوتے ہیں۔ کچھ چینلز کی نشریات معطل ہوتی ہیں۔ ویب سائٹس پر پابندی لگائی جاتی ہے یا سوشل میڈیا اکائونٹ بند ہوتے ہیں، ان میں اکثر انہی خیالات کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے جو اربابَ اختیار یا اجارہ دار قوتوں کے نطریات کے خلاف ہوتے ہیں۔