کشمیر کی موجودہ صورتحال کو سمجھنے کے لیے اس مسئلے کے طویل پس منظر سے آگہی ضروری ہے اور یہ پس منظر جاننے کے لیے تاریخ پر ایک گہری اور غیر جانب دارانہ نگاہ درکار ہے۔ یہ تنازعہ جسے مختصر الفاظ میں ''مسئلہ کشمیر‘‘ کہا جاتا ہے صرف ''کشمیر‘‘ کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ریاست جموں و کشمیر کا مسئلہ ہے، جس میں کشمیر کے علاوہ ریاست پونچھ، صوبہ جموں، لداخ، گلگت بلتستان، اور اقصائی چن کے علاقے اور ان علاقوں پر بسنے والے عوام شامل ہیں۔ آسانی کے لیے اختصار سے لفظ ''کشمیر‘‘ استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس سے مراد تمام مذکورہ علاقے اور عوام ہوتے ہیں۔ لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ کشمیر کی پانچ ہزار سال پرانی تاریخ ہے، تو اس سے مراد ریاست جموں و کشمیر نہیں ہوتی، بلکہ صرف کشمیر ہوتی ہے۔ کشمیر کی تین ہزار سالہ تحریر شدہ تاریخ میں یہ اڑھائی ہزار سال تک خود مختار سلطنت رہی، جس کا رقبہ اور آبادی بدلتی رہی۔ پانچ سو سال تک اس علاقے پر بیرونی تسلط رہا۔ تسلط قائم کرنے والوں میں سکھ‘ پٹھان اور مغل بھی شامل رہے۔ جسے ہم ریاست جموں و کشمیر کہتے ہیں، یہ ریاست اٹھارہ سو چالیس میں معاہدہ لاہور اور معاہدہ امرت سر کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی۔ اس کا بانی حکمران جموں کا ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ تھا۔ آج جس متنازعہ علاقے اور ریاست پر بحث جاری ہے وہ یہی ریاست ہے۔ اٹھارہ سو چھیالیس سے لے کر سن انیس سو سینتالیس تک یہ ریاست ڈوگرہ راج اور انگریزوں کی محدود حکمرانی میں رہی۔ جب برطانیہ نے ہندوستان سے نکلنے کا فیصلہ کیا تو کئی قسم کے سنجیدہ سوالات کھڑے ہوئے۔ ان میں بر صغیر کی تقریباً پانچ سو باسٹھ ریاستوں کے مستقبل کا سوال بھی تھا۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی ذمہ داری پانچ فریقوں پر عائد ہوتی تھی۔ یہ پانچ فریق تھے: تاج برطانیہ، انڈین نیشنل کانگرس، آل انڈیا مسلم لیگ‘ ریاستوں کے راجے یا مہاراجے اور ریاستوں کے عوام۔ ان لوگوں نے اس سوال کا حل ایک باقاعدہ قانون اور ضابطے کی روشنی میں تلاش کرنا تھا۔ یہ قانون آزادی ہند تھا۔ یہ قانون برطانیہ کی پارلیمنٹ نے بنایا تھا، جس کی تحت برطانوی ہند کو انڈیا اور پاکستان میں تقسیم ہونا تھا۔ اس قانون سے پہلے بیس فروری انیس سو سینتالیس میں وزیر اعظم ایٹلے نے اعلان کیا کہ حکومت برطانیہ تین جون انیس سو سینتالیس سے پہلے برطانوی ہند کو مکمل آزاد ی دے گی اور اختیارات کی منتقلی کی تاریخ مقرر ہونے کے فوراً بعد ہندوستان کی شاہی ریاستوں کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اٹھارہ مارچ کو وزیر اعظم اِیٹلے نے لارڈ مائونٹ بیٹن کو لکھا کہ اختیارات کی منتقلی کے بعد ہندوستانی ریاستیں تاج برطانیہ کے ساتھ موجود تمام معاہدوں اور اقرار ناموں سے آزاد ہو جائیں گی۔ اس کے بعد یہ ریاستیں چاہیں تو پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکتی ہیں۔
چار جون انیس سو سینتالیس میں لارڈ مائونٹ بیٹن نے ایک پریس کانفرنس میں شاہی ریاستوں کے سوال پر مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت برطانیہ اور شاہی ریاستوں کے درمیان موجود معاہداتی تعلق پندرہ اگست انیس سو سینتالیس کو ختم ہو جائے گا۔ برطانیہ کی ''سوورنٹی‘‘ یعنی محدود حکمرانی ختم ہو جائے گی، اور ریاستیں آزاد ہوں گی کہ وہ چاہیں تو دو آزاد ممالک میں سے کسی ایک میں شامل ہوں یا پھر خود مختار رہیں۔ برٹش پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کیے گئے قانونِ آزادیٔ ہند کی دفعہ سات کی ذیلی دفعہ ایک بی میں واضح طور پر درج کیا گیا کہ پندرہ اگست کو ہندوستانی ریاستوں پر تاج برطانیہ کی محدود حکمرانی ختم ہوتی ہے۔ پندرہ اگست تک بیشتر ریاستیں ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ شامل ہو چکی تھیں‘ لیکن کچھ ریاستوں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا یا آزاد رہنے کا فیصلہ کیا۔ ان میں ریاست حیدر آباد، جونا گڑھ اور جموں و کشمیر نمایاں تھیں۔
آگے چل کر ان ریاستوں کے ساتھ کیا ہوا؟ ان کی اپنی اپنی سنسنی خیز اور دلگداز داستانیں ہیں۔ پندرہ اگست کا دن آیا اور گزر گیا۔ تاج برطانیہ کی ہندوستانی ریاستوں پر محدود حکمرانی ختم ہو گئی۔ ریاست جموں و کشمیر کے اس وقت کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے دونوں آزاد ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی الحاق نہیں کیا اور ریاست کی حیثیت جوں کی توں رکھی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے پاکستان اور بھارت دونوں کو معاہدہ قائمہ یا ''سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ‘‘ کی پیشکش کی۔ پاکستان نے اس معاہدے پر فوراً دستخط کر دئیے اور معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ بھارت نے اس پیشکش کا کوئی جواب نہیں دیا؛ چنانچہ مہاراجہ نے ریاست کا انتظام ایک آزاد ریاست کے طور پر چلانا شروع کر دیا۔ دریں اثنا بر صغیر میں تقسیم کی وجہ سے جو فسادات پھوٹ پڑے تھے، اور خون خرابہ ہوا تھا‘ اس کے اثرات ریاست جموں و کشمیر تک پہنچنا شروع ہو گئے۔ کشمیر کے اندر آہستہ آہستہ حالات خراب ہونا شروع ہوئے جو بالآخر بغاوت اور پھر با قاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر گئے۔ مہاراجہ نے بھارت سے فوج بھیجنے کی درخواست کی۔ جواب میں لارڈ مائونٹ بیٹن نے الحاقِ ہندوستان کی شرط رکھی، اور ساتھ میں یہ وعدہ بھی کیا کہ یہ الحاق عارضی ہو گا‘ جونہی ریاست میں حالات معمول پر آئیں گے اس معاملے میں ریاستی عوام کی مرضی معلوم کر کے فیصلہ کیا جائے گا؛ چنانچہ مہاراجہ نے الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے۔
الحاقِ ہندوستان کے جس ''انسٹرومنٹ آف ایکسیشن‘‘ پر مہاراجہ نے دستخط کیے وہ مشروط تھا۔ پہلی اہم اور بنیادی شرط یہ تھی کہ خارجہ، دفاع اور مواصلات کے علاوہ باقی تمام امور پر قانون سازی کا حق صرف ریاست کو حاصل ہو گا۔ مہاراجہ کی مرضی کے بغیر ریاست کے بارے میں کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا، اور ہندوستانی آئین کا پورا اطلاق ریاست پر نہیں ہو گا۔ اس طرح اس دستاویز کے تحت ریاست کو ''سپیشل سٹیٹس‘‘ یعنی خاص مقام دے کر انڈین یونین میں شامل کیا گیا۔ اس خاص حیثیت کو ہندوستانی آئین میں دفعہ تین سو ستر کے تحت تحفظ دیا گیا۔ آگے چل کر انیس سو چوّن میں صدارتی حکم کے تحت دفعہ پینتیس اے بھی شامل کی گئی۔ اس دفعہ کے تحت ریاست کے شہریوں کے حق ملکیت اور خصوصی مراعات کے قانون کو تحفظ دیا گیا تھا۔
اس طرح تاریخی معاہدوں، دستاویزات اور خصوصی آئینی بندوبست کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو انڈین یونین کے اندر خاص شرائط کے مطابق ایک خاص حیثیت دے کر شامل کیا گیا تھا۔ اس سارے تاریخی اور آئینی بندوبست کو امسال اچانک پانچ اور چھ اگست کے صدارتی احکامات کے تحت ختم کر دیا گیا۔ پھر ان احکامات کی بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے رسمی منظوری لے لی گئی؛ چنانچہ اس عمل کے خلاف بھارتی مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں جو شدید احتجاج اور غم و غصے کا اظہار ہو رہا ہے، اس کے پس منظر میں یہ طویل تاریخ ہے۔ بے شمار وعدے ہیں۔ تاریخی دستاویزات اور معاہدے ہیں۔ آئینی اور قانونی تاریخ ہے۔ ان سب چیزوں کی موجودگی میں کشمیری عوام یہ معقول توقع رکھتے تھے کہ اس سارے بندوبست میں کسی قسم کی معمولی سے معمولی تبدیلی کے لیے بھی ان کو اعتماد میں لیا جائے گا‘ مگر یہاں ان کو خبر دیے بغیر صرف ایک اعلان کے ذریعے ان کی تاریخ و جغرافیہ‘ دونوں تبدیل کر دیے گئے۔ یہ ایک بڑا اعلان تھا، جس کی وجہ سے کشمیری عوام کو زبردست حیرت اور صدمہ ہوا۔ اب اس صدمے کی کیفیت سے نکل کر انہوں نے اپنے حقوق پر اس سنگین ڈاکے کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ بھارتی حکومت کے اس عمل سے ایک گھنائونی حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ دنیا کو ابھی مکمل طور پر تہذیب یافتہ ہونے میں بڑا وقت لگے گا۔ اگر بھارت جیسا ملک‘ جس میں ستر سال سے جمی جمائی جمہوریت ہے اور جس کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے‘ اکثریت کے بل بوتے پر اس طرح کا غیر جمہوری قدم اٹھا سکتا ہے تو دنیا میں کچھ بھی انہونی ہو سکتی ہے۔ یہ ایک خوفناک بات ہے اور دنیا کے جمہوریت پسندوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔