"FBC" (space) message & send to 7575

چھوٹی دھرنی سے بڑے دھرنے تک

دھرنا گردی کی اصطلاح غالباً اس سے پہلے ہمارے ہاں استعمال نہیں ہوئی مگر آثار بتاتے ہیں کہ یہ اصطلاح اب استعمال ہو گی، اور کثرت سے ہو گی کہ آج کل حکومت سے باہر ہر چھوٹا بڑا گروہ بات بات پر دھرنے دینے کی بات کر رہا ہے۔ سیاست میں دھرنا کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ یہ احتجاج اور عوامی طاقت کے اظہار کا ایک قدیم اور مسلمہ طریقہ ہے۔ دھرنے جیسے عمل یا مظاہرے کے لیے اردو میں کہیں کہیں انبوہ گردی کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ انبوہ گردی ایک مشکل لفظ ہے، جس کے کئی ترجمے کیے جا سکتے ہیں۔ ایک آسان اور عام فہم ترجمہ ہجوم کی حکمرانی بھی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا شاید مشہور ترین دھرنا سال دو ہزار چودہ کا دھرنا تھا، جسے مولانا فضل الرحمن نے دھرنی کا نام دیا تھا۔ اب وہ خود بڑی تعداد میں مخلوق خدا کو لے کر اسلام آباد آ بیٹھے تھے۔ تعداد کو نہ بھی دیکھا جائے تو صنف نازک سے پاک اس خالص مردانہ محفل کو اگر کوئی دھرنی کہنا بھی چاہے تو نہیں کہہ سکتا تھا۔ ہجوم کی حکمرانی یا انبوہ گردی کی عملی شکلوں پر جانے سے پہلے اس اصطلاح کا تھوڑا سا تاریخی پس منظر دیکھنا ضروری ہے، تاکہ اس پیچیدہ اصطلاح کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
قدیم لاطینی زبان میں اس تصور یعنی احتجاج یا طاقت کے اظہار کے لیے لوگوں کے ایک ہجوم کو کسی ایک جگہ جمع کر لینے کے عمل کو واضح کرنے کے لیے جو اصطلاح استعمال ہوئی ہے، وہ اوکلاکریسی ہے۔ قدیم رومن اور یونان کی ریاستوں میں یہ اصطلاح کسی نہ کسی شکل میں مستعمل رہی ہے۔ سولہ سو اسی کے لگ بھگ یہ اصطلاح انگریزی زبان میں مابوکریسی کے نام سے متعارف ہوئی؛ چنانچہ ہمارے زمانے میں اس سیاسی صورت حال کو ماب رول یا مابوکریسی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ماہر لسانیات کا خیال ہے کہ یہ اصطلاح پہلی بار مشہور تاریخ دان پولائی بیوس نے استعمال کی تھی۔ پولائی کا شمار ابتدائی تاریخ نویسوں میں ہوتا ہے، جس نے سلطنت روم کے عروج کی تاریخ لکھی۔ یہ تاریخ چالیس جلدوں پر مشتمل تھی۔ یہ تاریخ ان پچاس برسوں پر محیط تھی، جن کے دوران قدیم روم کی سلطنت دنیا کی سپر طاقت بنی۔ اس کتاب میں اس نے رومن آئین، کونسل، سینیٹ اور عوام کا تفصیلی احوال اور تجزیہ پیش کیا۔ اس طویل تاریخی تجزیے میں اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ رومن سلطنت کی کامیابی کا راز اس ملے جلے آئین میں تھا، جو جمہوریت، آرسٹوکریسی اور بادشاہت کا ملغوبہ تھا۔ اس کے خیال میں سلطنت کی مضبوطی کا راز اس کا مضبوط آئین تھا۔ اس نے رومن سلطنت کے آئین کا اس کی متضاد شکلوں سے تقابلی جائزہ بھی لیا۔ اس کے خیال میں اوکلوکریسی، استبدادی اور طبقہ امرا کی حکومت اس کی متضاد شکلیں تھیں۔ اس کے خیال میں اس طرح کی سلطنتیں بادشاہت سے شروع ہوتی ہیں اور انبوہ گردی پر ختم ہوتی ہیں۔ رومن سلطنت نے اس خطرے کا تدارک اپنی ملی جلی ریپبلک کے ذریعے کیا تھا۔ ملی جلی ریپبلک سے اس کی مراد یہ تھی کہ سلطنت نے ایک ایسا آئین تشکیل دیا جس میں عوام، اشرافیہ اور بادشاہت‘ تینوں کے لیے کوئی نہ کوئی جگہ رکھی گئی تھی۔
رومن دور میں روم شہر میں انبوہ گردی یا ہجوم کی حکمرانی کا خطرہ ہمیشہ ہی رہتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ اپنے وقت کا بہت بڑا شہر تھا، جس میں دو سے تین لاکھ کے قریب لوگ رہتے تھے؛ چنانچہ شہریوں کے مقابلے میں اشرافیہ اور فوج کی تعداد بہت کم تھی۔ کئی دفعہ سرکاری طاقت اور اختیار کے خلاف عوام کا ہجوم جمع ہوتا اور اس اختیار کو چیلنج کرتا۔ ہمارے دور میں تو سیاست دان عوام کا ہجوم لے کر حکمرانوں سے استعفیٰ مانگتے ہیں، مگر رومن سلطنت میں ایسے بھی ہوا جب لوگوں کا ہجوم جمع ہو کر حکمرانوں کا سر مانگتا تھا۔ مشہور تاریخ دان ایڈورڈ گیبن اپنی کتاب رومن سلطنت کے زوال میں اس واقعے کی تفصیل میں لکھتا ہے کہ مارکوس کیلینڈر نے لوگوں کے ایک ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کا حکم دیا، جس سے کئی لوگ مارے گئے، اور کئی شہر کی طرف بھاگے۔ ان بھاگنے والوں کا تعاقب کرتے ہوئے جب گھڑ سوار سپاہی گلیوں میں داخل ہوئے تو گھروں کی چھتوں اور کھڑکیوں سے ان پر پتھروں کی بارش شروع ہو گئی۔ پیدل سپاہ‘ جو گھڑ سواروں کو پہلے ہی نا پسند کرتی تھی‘ نے بھی عوام کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ نتیجے کے طور پر لوگوں کا ہجوم گیٹ توڑ کر اندر آ گیا اور انہوں نے کیلینڈر کو عوام کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا، جو حکام کو بالآخر ماننا پڑا۔ اس سے پہلے انگلستان میں بھی ایسے واقعات رونما ہو چکے تھے، جن میں ہجوم حکمرانوں کے مقابل فتح یاب ہوا تھا۔ سولہ سو نوے میں نوآبادیاتی دور میں امریکی ریاست میسی چیوسٹ میں سالم وچ ٹرائل کا سلسلہ بھی انبوہ گردی کا شاخسانہ تھا، جس میں عوام کے ہجوم کے سامنے قانون کی منطق بے بس ہو گئی تھی۔ سولہ سو باسٹھ کے موسم بہار میں ان بد نام زمانہ ٹرائلز کا آغاز ہوا۔ اس مقدمے میں میسی چیوسٹ کے ایک گائوں سالم میں کچھ لڑکیوں کو بد روحوں کے زیر اثر قرار دیا گیا اور کچھ عورتوں پر چڑیل ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔ ان واقعات سے پورے میسی چیوسٹ میں ایک طرح کی ہسٹیریا کی کیفیت پیدا ہو گئی؛ چنانچہ سالم میں ان مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتیں قائم ہوئیں۔ کئی عورتوں کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ ایک سو پچاس سے زائد مردوں، عورتوں اور بچوں پر الزامات لگائے گئے۔ ایک سال بعد ہسٹیریا کچھ کم ہوا تو عدالتوں نے کچھ مقدمات کا دوبارہ جائزہ لیا اور سزائیں ختم کیں۔ اٹھارہ سو سینتیس میں ابراہیم لنکن نے امریکہ میں ہونے والی بڑے پیمانے پر ''ماس لنچنگ‘‘ کے تناظر میں اس مسئلے کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ ملک میں قانون کی خلاف ورزی معمول بن گیا ہے‘ سنجیدہ فیصلوں کے خلاف وحشی اور مشتعل جذبات غالب آ رہے ہیں، اور عوام کا انبوہ اپنے طور پر انصاف فراہم کرنے پر تلا ہے۔
جدید تاریخ میں دھرنا دے کر اپنے مطالبات منوانے کا طریقہ دائیں بازو کے سیاسی کارکنوں اور مزدوروں کی انجمنوں نے بڑے پیمانے پر کیا۔ انیسویں صدی کی ابتدا میں انٹرنیشنل ورکرز آف دی ورلڈ نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں مزدور یکجہتی کے لیے مشہور دھرنوں کا آغاز کیا۔ تیس کی دہائی تک یہ مزدور طبقے کے ہاتھ میں ایک مضبوط ہتھیار رہا ہے۔ مزدوروں سے ہوتا ہوا یہ رجحان پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں سول رائٹس والوں تک پہنچا، جسے مارٹن لوتھر کنگ اور روزا پارک جیسے لوگوں نے استعمال کیا۔
پاکستان میں دھرنا دے کر طویل مدتی احتجاج کوئی نئی یا مقامی ایجاد نہیں ہے کہ اس کا ذمہ دار کسی ایک لیڈر یا پارٹی کو قرار دیا جا سکے‘ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دو ہزار چودہ کے دھرنے سے پاکستان میں دو سیاسی رجحانات کو بہت تقویت ملی۔ پہلا رجحان خود دھرنا ہے، جو حکمران طبقات کو ڈرانے کے لیے ایک طاقت ور ہتھیار بن گیا ہے۔ دوسرا رجحان پاپولزم ہے۔ پاپولزم سے مراد وہ سیاسی موقف ہے، جو عوام کو طاقت ور حکمرانوں اور اشرافیہ کے خلاف کھڑا کرنے کی بات کرتا ہے۔ پاپولزم ایک ایسا نظریہ ہے جو عوام کو اخلاقی طور پر ایک اچھی طاقت کے طور پر اور اشرافیہ کو بری، بدنام اور بدعنوان قوت کے طور پیش کرتا ہے۔ پاپولسٹ سیاسی پارٹیوں یا سماجی تحریکوں کی رہنمائی اور سربراہی عموماً کرشماتی شخصیات کرتی ہیں، جو اپنے آپ کو عوام کی سچی آواز یا ان کا نجات دہندہ قرار دیتی ہیں۔ سال انیس سو چودہ کے دھرنے والوں کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے غریب عوام کو تاریخ کے بد عنوان ترین حکمرانوں سے نجات دلوانے آئے ہیں۔ اور آج کے دھرنے والے کہتے ہیں کہ وہ عوام کو ان حکمرانوں سے بچانا چاہتے ہیں، جو خرافات میں مبتلا ہیں۔ مگر دونوں صورتوں میں رہنما عوام کی نمائندگی کے دعوے دار ہیں، اور عوامی طاقت کے زور پر حکمرانوں سے استعفیٰ لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں