برطانیہ کے حالیہ انتخابات کے نتائج میں کچھ بھی عجب نہیں ہے۔ ان انتخابات میں لبرل اور ترقی پسند قوتوں کی شکست اور قدامت پسندوں کی فتح کا ایک طویل پس منظر ہے۔ دنیا میں سیاسی رجحانات مسلسل بدلتے رہتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں قوم پرستی سیاست کا مقبول ترین رجحان ہے۔ یوں تو یہ رجحان تاریخی طور بہت مدت سے موجود ہے، مگر حالیہ تاریخ میں امریکہ میں صدر ٹرمپ کا انتخاب اس کا ایک دھماکہ خیز اظہار تھا۔ اس کے ساتھ ہی یورپ میں دائیں بازو کی پاپولسٹ پارٹیوں کا ابھار بھی اسی رجحان کا اظہار تھا۔ یورپ اور امریکہ سے باہر چین، فلپائن اور ترکی کے علاوہ بھارت میں مضبوط قوم پرست جماعتوں اور شخصیات کی اٹھان بھی اس بڑھتے ہوئے رجحان کا ہی شاخسانہ تھا۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں قوم پرستی کے نظریات نمایاں تھے، مگر اپنے انتخاب کے فوراً بعد وہ قوم پرستی کے نئے رجحانات کے پہلے سے زیادہ پُرزور پرچارک بن گئے۔ قوم پرستی کے حق میں عملی اقدامات کے ساتھ ساتھ انہوں نے رسماً یہ اعلان کرنا بھی ضروری سمجھا کہ میں ایک قوم پرست ہوں۔
ٹرمپ کی کامیابی کے فوراً بعد نیو نیشنلزم کے خیالات و نظریات کی بازگشت دیگر ممالک میں بھی سنائی دی جانے لگی۔ مختلف ممالک میں تنگ نظر قوم پرستی کے جذبات سے مغلوب رہنمائوں نے لبرل ازم اور لبرل اشرافیہ کو دنیا کی ہر بیماری کی جڑ قرار دینا شروع کر دیا۔ یہ الزام لگایا کہ لبرل لوگ اپنے ہم وطنوں سے زیادہ دوسرے ممالک کے لوگوں سے ہمدردی جتاتے ہیں۔ اس کے ساتھ عالمی مفادات پر تنقید کا عمل بھی شروع ہوا۔ قومی مفادات کو عالمی مفادات پر مقدم قرار دینے کے تسلیم شدہ نظریے کو نئے الفاظ میں پیش کیا جانے لگا؛ چنانچہ لبرل ازم اور سوشلزم کے خلاف ایک بیانیہ تخلیق ہوا، جس کا تازہ ترین اظہار برطانیہ کے انتخابات میں واضح طور پر ابھر کر سامنے آیا۔
تاریخی طور پر قوم پرستی اور لبرل ازم کا آپس میں کوئی بڑا تصادم نہیں رہا ہے۔ اس کے برعکس یہ دونوں کہیں نہ کہیں ایک دوسرے کے مددگار رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد جب امریکہ کی قیادت میں مغرب میں نئے لبرل آرڈر کو فروغ دینے کی کوشش شروع ہوئی تو اس میں عالمی تعاون اور مقامی قوم پرستی کے رجحانات کے درمیان خاص توازن کی کوشش کی گئی۔ اس توازن کا مقصد اس جارحانہ قسم کی قوم پرستی کا مقابلہ کرنا تھا، جو اس جنگ کی ایک بڑی وجہ تھی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد ابھرنے والا نیا نظام مضبوط فلاحی ریاستوں کے تصور پر قائم ہوا تھا؛ اگرچہ اس نظام میں ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ کو ضرورت سے زیادہ اہم مقام دیا گیا تھا۔ ان مالیاتی اداروں سے یہ امید باندھی گئی تھی کہ یہ عالمی ادارے فلاحی ریاستوں کی مالیاتی اعانت کرنے کے باوجود ان ریاستوں کو اپنے قومی مفادات کے حق میں کام کرنے کی اجازت دیں گے۔ یہ ایک طرح کا نیا انتظام تھا، جس میں لبرل ازم کا بنیادی کردار تھا۔ اس بندوبست میں ایک طرف آزاد منڈی کے تصور کو تسلیم کیا گیا تھا، دوسری طرف آزاد منڈی کے اندر ریاستوں اور قومی اداروں کی مداخلت کا حق بھی مان لیا گیا تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہونے والا یہ نیا بندوبست طویل عرصے تک عالمی معیشت اور سیاست کو کنٹرول کرتا رہا مگر گزشتہ تین چار دہائیوں کے دوران اس بندوبست میں تبدیلی آئی۔ قومی ریاستوں کے اپنی حدود کے اندر سرمایہ داری کو کنٹرول کرنے کے اختیارات کمزور ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو گئے۔ دنیا میں جمہوریتوں کے نئے خدوخال کچھ اس طرح سے ترتیب دیے جانے لگے‘ جو عالمی منڈی کی منطق کے مطابق تھے۔ اس عمل میں قومی ریاستوں کے اوپر ان سے زیادہ بڑے اور طاقتور ادارے قائم ہونے شروع ہوئے۔ ان اداروں کی ایک بڑی مثال یورپی یونین ہے۔ اس سے جو مسائل پیدا ہوئے وہ پاپولسٹ ابھار کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کا باعث بنے۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے تصور کی مقبولیت اور ریفرنڈم میں فتح اس کی کلاسیکل مثال ہے۔
یورپ کی تاریخ کے بیشتر ادوار میں سیاسی وفاداریوں کا سرحدوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جدید یورپ میں یہ تصور پروٹسٹنٹ اصلاحات کی وجہ سے بدلنا شروع ہوا۔ ان اصلاحات کے بعد ریاستوں نے اپنے زیرِ قبضہ علاقوں پر اجارہ داری اور اتھارٹی قائم کرنا شروع کی، جس کی وجہ سے کیتھولک چرچ اور موروثیت کا اثر ختم ہونا شروع ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ ابتدائی سرمایہ داری نے معاشی طاقت کو دیہی جاگیرداری سے شہری متوسط طبقے کو منتقل کرنا شروع کیا۔ اس سلسلۂ عمل میں عام لوگ ریاست کے کاروبار میں اپنا حصہ مانگنے لگے۔ حق خود ارادیت کا مقبول قوم پرستانہ مطالبہ ایک جمہوری اصول بن گیا۔ انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں یورپ اور امریکہ میں قومی ریاستوں نے مضبوط شہری ادارے قائم کرنے شروع کیے، انہوں نے یکساں قانون اور نظام تعلیم ترتیب دیا۔ انہوں نے مختلف ثقافتی گروہوں کو ایک مشترکہ ثقافتی پہچان دینا شروع کی۔ دانشور ارنسٹ گلنر کے خیال میں کلچر میں یکسانیت صنعتی سرمائے کی ضرورت تھی۔ قومی معیشت میں حصہ لینے کیلئے مزدوروں کو قومی زبان بولنے اور قومی کلچر میں ضم ہونے کی ضرورت تھی۔ مضبوط ریاستوں میں اس دبائو نے قومی ریاستوں کو سیاسی، ثقافتی اور معاشِی طور پر ایک یونٹ میں ڈھالنا شروع کیا۔
انیسویں صدی کی ابتدائی سرمایہ دار ریاستوں کے درمیان مالی معاملات کے لیے مغرب میں آزاد منڈی کے خود کار نظام پر بھروسہ کیا جاتا تھا۔ اس وقت کی حکومتیں منڈی میں مداخلت کے لیے نہ تو تیار تھیں، اور نہ ہی اس کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اس کے بجائے وہ منڈی میں غیر متوازن حالات میں تبدیلی یا بہتری کے لیے خود کار نظام پر تکیہ کرتی تھی، جس کی وجہ سے شہریوں کی اکثریت کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا‘ مگر جمہوریت عام ہونے کے بعد جب زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ووٹ کا حق حاصل ہوا تو سیاسی طور پر اس صورت حال کو برقرار رکھنا مشکل ہو گیا۔ سال انیس سو انتیس کی مارکیٹ کرش اور عظیم ڈپریشن کے بعد عام شہری یہ مطالبہ کرنے لگے کہ ان کو معاشی مسائل سے بچانے کے لیے ان کے رہنما مداخلت کریں۔ اس صورتحال کے نتیجے میں جرمنی اور جاپان جیسے ممالک میں لبرل اور سوشل ڈیموکریٹ پسپا ہوئے اور قوم پرست حکومتیں قائم ہوئیں۔ ان حکومتوں نے ملک کے اندر معیشت پر ریاستی کنٹرول اور ملک سے باہر سامراجی پالیسیاں اپنائی۔ ان قوم پرستوں کا وعدہ یہ تھا کہ وہ اپنے عوام کو منڈی کی گردش اور غیر ملکی و ملکی دشمن کی سازشوں سے بچائیں گے۔
امریکہ میں صدر روزویلٹ کی قیادت میں ایک طرح کا سوشل ڈیموکریٹک کیپیٹل ازم طرز کا نظام قائم ہوا۔ اس طریقے کو دیگر ممالک میں بھی اپنا کر حکومتوں نے منڈی کی منطق اور جمہوری حکمرانی کے درمیان تضاد کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ منڈی کی منطق یہ تھی کہ معیشت کو حکومت کی مداخلت کے بغیر چلنے دیا جائے، مگر جمہوریت کا تقاضا یہ تھا کہ منڈی میں حکومتی مداخلت کے ذریعے عوام کو معاشی بدحالی اور مصائب سے بچایا جائے۔
آگے چل کرآزاد منڈی کی بنیاد پرستی کے رجحانات پیدا ہوئے، ان رجحانات کو ملٹن رائڈمین جیسے نظریہ ساز، تھیچر اور ریگن جیسے لیڈر مل گئے۔ ان لوگوں نے فلاحی ریاستوں کے تصورات کے خلاف اور آزاد منڈی کے حق میں ایک نئی جنگ کا آغاز کیا۔ یہ ''مارکیٹ بنیاد پرستی‘‘ ابتدا میں بائیں بازو کے سوشل ڈیموکریٹک تصورات کے خلاف استعمال ہوئی، بعد ازاں سنٹر لیفٹ پارٹیز نے بھی یہ تصور اپنا لیا۔ نوے کی دہائی میں سرد جنگ کے خاتمے نے بظاہر قومی ریاستوں کی ضرورت ختم کر دی۔ یورپی یونین کی تشکیل اسی خیال کا اظہار تھا۔ یہ ایک نیا بندوبست تھا، جس میں جمہوریت کیلئے جگہ تھوڑی تنگ ہو گئی تھی۔ قومی ریاستوں سے اختیارات کی برسلز منتقلی کی وجہ سے طاقت غیرمنتخب ٹیکنوکریٹس کے پاس چلی گئی۔ جو یورپی باشندے برسلز کی پالیسیوں سے ناخوش تھے، وہ اپنے ووٹ کا استعمال اپنے قومی انتخابات میں ہی کر سکتے تھے؛ چنانچہ عام آدمی معاشی مشکلات کا شکار ہوا۔ اس سے پاپولسٹ قوم پرستی کے جذبات ابھرے۔ تارکین وطن اور اقلیتوں کے خلاف نفرت کو ابھارا گیا۔ اشرافیہ کے خلاف ایک بیانیہ تخلیق ہوا، جس کے تحت مسائل کو لبرل ازم اور سوشل ازم کے سر تھونپ دیا گیا۔ برطانوی انتخابات کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔