دانشور اور قانون دان حلقوں میں جنرل مشرف کو ملنے والی سزا پر بحث جاری ہے۔ کچھ لوگوں کو سزا سے نظریاتی اختلاف ہے۔ یہ لوگ نظریاتی اور اصولی طور پر سزائے موت کے خلاف ہیں۔ سزائے موت کی مخالفت ایک معروف نقطہ نظر ہے، جو انسان کے ہاتھوں انسان کی جان لینے کے خلاف ہے۔ جرم اگر بہت سنگین ہے تو پھر بھی یہ لوگ سزائے موت کی جگہ عمر قید اور دوسری سخت سزائیں تجویز کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو سزا پر اعتراض نہیں، مگر وہ زباں و بیان پر معترض ہیں۔ یہ اختلاف رائے سمجھ میں آسکتا ہے۔ ہر سماج میں اس قسم کا اختلاف رائے پایا جانا لازم ہے۔ غنیمت یہ ہے کہ طویل التوا اور تاخیر کے بعد بالآخر یہ فیصلہ آیا ہے۔ اس طرح کے مقدمات میں عدالتی فیصلہ آنا ہی بجائے خود ایک اچھی خبر ہے، جس کو اختلاف رائے کے شور شرابے میں گم نہیں ہونا چاہیے۔ خود اعلیٰ عدالتوں کے کئی معزز جج حضرات اقرار کر چکے ہیں کہ اس باب میں پاکستان کی عدالتوں کی روایت مختلف رہی ہے۔
پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے گزشتہ ستر برسوں کے دوران کئی فیصلے کیے ہیں۔ ظاہر ہے ہر مقدمے کے دو یا دو سے زائد فریق ہوتے ہیں۔ دونوں فریق براہ راست یا بالواسطہ اس مقدمے کے فیصلے سے متاثر ہوتے ہیں؛ تاہم اگر مقدمہ کسی اہم نوعیت کا ہو۔ اس کا پس منظر سیاسی ہو۔ اس میں عوامی یا قومی دلچسپی کا سامان موجود ہو۔ اس کے ساتھ کوئی بڑا سماجی یا معاشی مسئلہ جڑا ہو، تو اس صورت میں عام لوگ اپنی اپنی پسند و ناپسند کے مطابق اپنے آپ کو اس مقدمے کا فریق سمجھتے ہیں۔
عدلیہ کی ستر سالہ طویل تاریخ میں کئی فیصلے ایسے ہوئے، جو عدلیہ کے وقار میں اضافے کا باعث بنے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ فیصلے ایسے بھی تھے، جن پر خود آنے والی عدالتوں نے شرمندگی محسوس کی اور ایسے فیصلوں پر برملا ناپسندیدگی کا اظہارکیا۔
پاکستان میں سویلین اور جمہوری انتظام کے خلاف پہلا اقدام انیس سو تریپن میں ہوا تھا۔ اس وقت ملک غلام محمد گورنر جنرل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ملک کی پہلی آئین ساز اسمبلی کا وجود اور وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین ہیں‘ اور سب مسائل کے حل کے راستے میں یہ دو رکاوٹیں ہیں؛ چنانچہ انہوں نے اس حقیقت کے باوجود کہ خواجہ ناظم الدین کو اسمبلی کی مکمل حمایت حاصل ہے ‘ ان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ ایک شاہی طرز کے حکم نامے کے ذریعے پاکستان کی اس پہلی آئین ساز اسمبلی کی بساط لپیٹ دی گئی۔ یہ کام انہوں نے جنرل ایوب کی مکمل حمایت اور تعاون سے کیا تھا۔ ایوب خان نے اس راز کو خفیہ رکھنے کے بجائے گورنر ہائوس میں ایک پریس کانفرنس میں اس امر کا برملا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ ناظم الدین اور گورنر غلام محمد کے درمیان اختلاف تھا۔ اس اختلاف میں میں نے گورنر کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔
اسمبلی کے صدر مولوی تمیزالدین نے اس فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔ ہائی کورٹ نے مولوی تمیزالدین کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے ملک غلام محمد کے حکم کو غیرقانونی قرار دے دیا۔ وفاقی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں اپیل کر دی۔ عدالت نے ہائی کورٹ کا حکم معطل کر دیا۔ جسٹس منیر کی سربراہی میں گورنر غلام محمد کے حق میں فیصلہ دے دیا گیا۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ پاکستان ابھی تک ایک مکمل خود مختار ملک نہیں ہے، بلکہ یہ تاج برطانیہ کے تحت ایک ڈومینین ہے۔ تاج برطانیہ کے تحت ایک ڈومینین میں آئین ساز اسمبلی نہیں بلکہ گورنر ہی مقتدر ہے۔ جسٹس کارنیلیس اکلوتے جج صاحب تھے جنہوں نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ ایک تفصیلی اور مدلل اختلافی فیصلے میں جسٹس کارنیلیس نے واضح کیا کہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے، آئین ساز اسمبلی مقتدر حیثیت کی حامل ہے، اور گورنر کا اقدام غلط اور غیر قانونی ہے۔ جسٹس منیر کا یہ فیصلہ آنے والے وقتوں میں پاکستان میں آمریت اور مارشل لاز کو سندِ جوازیت فراہم کرنے کی بنیاد بن گیا۔
اسمبلی کی غیر آئینی و غیر قانونی برطرفی کی عدالتی توثیق سے شہ پا کرگورنر نے مزید پیش قدمی کی، اور ایک ریفرنس عدالت میں دائر کر دیا۔ یہ ریفرنس گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت دائرکیا گیا، جس میں عدالت سے یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا موجودہ صورت حال میں آئین و قانون میں کوئی ایسی گنجائش موجود ہے، جس کے تحت گورنر کے احکامات اور اقدامات کو درست قرار دیا جائے اور ان کو ملک کے جائز قانون کا حصہ تصور کیا جائے، تاوقتیکہ کہ نئی اسمبلی وجود میں آ کر ان قوانین کی حیثیت کا تعین کرے۔ گویا اسمبلی کی عدم موجودگی میں گورنر کو قانون سازی کا اختیار دیکر احکامات کے ذریعے قانون سازی کرنے کا اختیار دے دیا جائے۔
اس دوران دوسو کیس سامنے آیا۔ یہ بنیادی طور پر ایک اپیل تھی، جو ہائیکورٹ سے ہوتی ہوئی سپریم کورٹ تک پہنچی تھی۔ دوسو کو بلوچستان کونسل نے قتل کے مقدمے میں ایف سی آر کے تحت سزائے موت دی تھی۔ اس کے لواحقین نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی۔ ہائی کورٹ نے ایف سی آر کو انیس سو چھپن کے آئین سے متصادم قرار دیا اور بلوچستان کونسل کے فیصلے کو معطل کر دیا۔ وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ کیس کی سماعت تیرہ اکتوبر کو مقرر ہوئی مگر اس سے پہلے ہی سات اکتوبر کو اسکندر مرزا نے ملک میں مارشل لا کا اعلان کر دیا۔ ایوب خان چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ملک میں نئے لیگل آرڈر کا اعلان کر دیا۔
عدالت اس وقت ایک تاریخی موڑ پر کھڑی تھی۔ وہ اگر چاہتی تو دوسو کیس کے دوران ایوب خان کے نئے لیگل آرڈر کو انیس سو چھپن کے آئین سے متصادم قرار دے کر مارشل لا کو غیر آئینی قرار دے سکتی تھی، اور ملک میں مارشل لاز کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کر سکتی تھی‘ مگر اس کیس میں عدالت نے نِئے لیگل آرڈر کو درست قرار دے کر نہ صرف اس مارشل لا کو قانونی جواز فراہم کر دیا، بلکہ آئندہ طالع آزمائوں کیلئے بھی راستہ ہموار کر دیا۔ سپریم کورٹ نے واضح الفاظ میں انیس سو اٹھاون کے مارشل لا کو ایک پرامن انقلاب قرار دے کر پوری دنیا کے جمہوریت پسندوں، اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والوں کو حیران کر دیا۔ عدالت نے مارشل لا کی حمایت میں یہ دلیل دی کہ پاکستان کے عوام اس مارشل لا پر خوش ہیں، کیونکہ انہوں نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ سپریم کورٹ نے فیصلے کی بنیاد ''لیگل پازیٹیویٹی‘‘ قرار دیا، جس کو عام زبان میں نظریہ ضرورت کہا گیا‘ جو آنے والے وقتوں میں قدیم ڈکشنری کی ایک بھولی بسری اصطلاح کے بجائے پاکستان کی سیاست کا ایک اہم ترین لفظ بن کر زبان زد عام ہوا۔
اس نظریہ ضرورت کے تحت غیر قانونی اقدامات کو درست قرار دینے کا عمل شروع ہوا، جو مختلف ادوار سے ہوتا ہوا ہم تک پہنچا۔ یہ نظریہ بنیادی طور پر قرون وسطیٰ کے ایک قانون دان ہنری ڈی برکٹن نے پیش کا تھا، جدید دور میں ولیم بلیک سٹون جیسے قانون دان اس نظریے کے پرچارک رہے۔ اس نظریے کو بریکٹن میکسم کہا جاتا ہے۔ جسٹس منیر نے اس کیس میں بریکٹن مکیسم کا باقاعدہ حوالہ دیا تھا کہ جو چیز غیرقانونی ہے اسے نظریہ ضرورت کے مطابق قانونی قرار دیا جا سکتا ہے۔ آنے والے برسوں میں جمہوریت اورآمریت کی کشمکش میں یہ نظریہ کثرت سے استعمال ہوتا رہا۔ عوام کے اختیارات کے سوال پر کئی بار اس نظریے کی روشنی میں فیصلے ہوئے۔ گزشتہ تین چار دہائیوں کے دوران عدالتوں میں کئی ایسے مشہور مقدمات کے فیصلے ہوئے، جن میں اگر نظریہ ضرورت کا براہ راست اطلاق نہ بھی ہوا ہو، لیکن اس نظریے کی وجہ سے جو خاص نفسیاتی ساخت بن چکی تھی، اس کا پرتو ہر کیس میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اس کی ایک کلاسیکل مثال بیگم نصرت بھٹو کیس ہے۔ اس کیس میں نصرت بھٹو نے مارشل لا اور ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری کو چیلنج کیا تھا۔ اس کیس میں ایک بار پھر عدالت نے نظریہ ضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے مارشل لا کو درست قرار دیا۔ آئندہ وقتوں میں بینظیر بھٹو کیس اور سید ظفر علی شاہ کیس میں بھی اس نفسیات کی پرچھائیں نظرآتی ہیں۔ مشرف کیس میں ان روایات کے خلاف فیصلہ کرکے نظریہ ضرورت کے قدیم متروک تصور کے سائے سے نکلنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فیصلے میں موجود ایک پیراگراف پر بجا اعتراض کے باوجود یہ ایک اہم تاریخی فیصلہ ہے، جو جدید دور کے جمہوری اور انسانی حقوق کے تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہے۔