آزادی کا اصل مطلب لوگوں کو وہ بات بتانے کا حق ہے، جو وہ سننا نہیں چاہتے۔ جارج آرویل کا یہ مقولہ ایک عرصے تک بے پناہ مقبول رہنے کے بعد اب ایک نئے شور میں دب گیا ہے۔ اور نیا شور یہ ہے کہ لوگوں کو وہ بتانے کی کوشش مت کرو جو وہ سننا نہیں چاہتے۔ بظاہر لگتا ہے کہ زمانہ آگے بڑھ رہا ہے، مگر آزادیٔ اظہارِ رائے کے سوال پر لگتا ہے کہ ہم واپسی کے سفر پر گامزن ہیں۔
پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی اور میڈیا کو اس باب میں درپیش مشکلات کو سمجھنے کے لیے برصغیر میں میڈیا کی تاریخ میں جھانکنا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں پریس و پبلیکیشنز کے جو بیشتر قوانین اور روایات موجود ہیں، ان پر انگریزوں کا بہت بڑا اثر ہے۔ میڈیا پر پابندی کی روایات ہوں یا میڈیا پر پابندی کے قوا نین، دونوں صورتوں میں ہماری آج کی پریکٹسز پر نوآبادیاتی دور اور انگریزوں کے انمٹ نقوش ہیں۔ برصغیر کی تاریخ میں جب ہم میڈیا کی بات کرتے ہیں، تو اس کا آغاز پرنٹ میڈیا سے ہوتا ہے، جسے عرف عام میں رسالہ، جریدہ یا اخبار کہا جاتا ہے۔
برصغیر میں پہلا چھپنے والا اخبار بنگال گزٹ تھا، جو سترہ سو اسی میں شروع ہوا۔ اس اخبار کا مالک اور ایڈیٹر جیمز آگسٹس ہیکی تھا۔ ہیکی آئرش تھا۔ اس نے جوانی میں لندن میں پرنٹنگ کا کام سیکھا تھا۔ مگر وہ یہ کام چھوڑ کر پہلے وکیل اور پھر سرجن بن گیا۔ اور بطور سرجن سترہ سو بہتر میں کلکتہ آ گیا۔ کلکتہ میں اس نے بطور سرجن اور تاجر اپنا کام شروع کیا‘ جس میں وہ بری طرح ناکام ہو گیا۔ اپنے قرض داروں کو ادائیگی میں ناکامی پر اسے جیل ہو گئی۔ جیل میں بیٹھ کر ہیکی نے اپنے پرانے تجربے سے استفادہ کرنے کا فیصلہ کیا اور جیل سے رہا ہو کر پرنٹنگ کا کام شروع کر دیا۔ انتیس جنوری سترہ سو اسی میں اس نے بنگال گزٹ شروع کیا، جو برصغیر میں باقاعدہ چھپنے والا پہلا اخبار بن گیا۔ جلد ہی ہیکی اور اس وقت کے انگریز گورنر وارن ہیسٹنگ کے درمیان آنکھ مچولی شروع ہو گئی۔ اس نے اپنے اخبار کے ذریعے ہیسٹنگ کی بدعنوانیوں اور مطلق العنانیت کی کہانیاں منظر عام پر لانا شروع کر دیں۔ ہیسٹنگ نے جواب میں ڈاک خانے کے ذریعے اس اخبار کی ترسیل پر پابندی لگا دی۔ ہیکی نے اس وقت کے تین طاقت ور لوگوں پر بیک وقت کرپشن اور ظلم و نا انصافی کے الزامات لگائے۔ یہ ہیسٹنگ کے علاوہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ولیم ایپی اور پروٹسٹنٹ مشن کے رہنما جان کرنیڈر تھے۔ ہیکی کے خلاف ہتک عزت کے مقدمات قائم ہوئے اور سترہ سو اکیاسی میں سپریم کورٹ نے اسے جیل بھیج دیا۔ مارچ سترہ سو بیاسی میں سپریم کورٹ کے حکم سے اس کا اخبار ضبط ہو گیا اور اس کی پبلیکشنز بند ہو گئیں۔ یوں ہیکی اور اس کا اخبار‘ دونوں انتظامیہ، عدلیہ اور چرچ کی ملی بھگت اور مشترکہ سازش کا شکار ہو کر ختم ہو گئے اور اس حقیقت کو آشکار کر گئے کہ اشرافیہ اپنے مفادات کے تحفظ کی لڑائی میں بے مثال اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔
جون سترہ سو اکیاسی میں ہیکی اور اس کے اخبار کے خلاف جو چار ٹرائل ہوئے وہ پڑھنے کی چیز ہیں، اور ان میں ہمارے لیے کئی اسباق ہیں۔ ان مقدمات کی تفصیل پڑھتے ہوئے انسان حیرت و افسوس سے سوچتا ہے کہ اٹھارہویں صدی کے کلکتہ کے شہر میں جو کچھ ہو رہا تھا‘ وہی اب بھی ہمارے ارد گرد کسی نہ کسی شکل میں ہو رہا ہے۔ اس عرصے میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ حکمرانوں پر کرپشن کے وہی الزامات ہیں۔ ظلم و نا انصافی کی وہی داستانیں ہیں۔ اشرافیہ ان الزامات کے خلاف متحد ہے۔ پرانے ہتھکنڈے نئے طریقوں اور نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے آزمائے جا رہے ہیں۔ اور دنیا بھر میں میڈیا کو دبائو، لالچ، خوف اور دوسرے ہتھکنڈوں کے ذریعے سمجھوتے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
سترہ سو اسی میں جب ہیکی نے اخبار نکالا تو اس وقت نہ حکمرانوں کو میڈیا سے ڈیل کرنے کا تجربہ تھا اور نہ ہی میڈیا کو اپنی بقا کے لیے لڑنے کا وہ تجربہ تھا جو آج اس کے پاس ہے۔ اس وقت تک ابھی میڈیا پر پابندیاں عائد کرنے کا قانون بھی وضع نہیں ہوا تھا۔ رفتہ رفتہ انگریزوں نے اس کا بندوبست کر لیا اور اس باب میں باقاعدہ قوانین بنا دئیے۔ ان میں ایک قانون یہ تھا کہ بغیر اجازت یعنی لائسنس کے بغیر کوئی اخبار نہیں نکال سکتا۔ اور اگر ضرورت پڑے اور صورت حال کا تقاضا ہو تو یہ لائسنس منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
اٹھارہویں صدی کے دوسرے عشرے میں مقامی ایڈیٹرز کے تحت مقامی زبانوں میں اخبار نکلنے شروع ہوئے۔ پہلا اخبار اٹھارہ سو سولہ میں گنگادھر بھٹاچار جی نے نکالا۔ اس کا نام بھی بنگال گزٹ تھا۔ اس کے بعد اخبارات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا، جس میں اردو زبان کے کئی اخبارات شامل تھے، جن کے ایڈیٹر زیادہ تر ہندو تھے۔ ان اخبارات نے مقامی مسائل اور مقامی حکومتوں پر بات کرنا شروع کی۔ یہی وہ وقت تھا جب کارل مارکس نے اٹھارہ سو تریپن میں ہندوستان میں برطانوی راج پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پہلی دفعہ ہندوستان میں ایک آزاد پریس سامنے آ رہا ہے، جس کے مالکان عام ہندوستانی یا یوروپین ہیں، اور یہ بات ہندوستان کی نئی زندگی کا موجب بنے گی۔
یہ بات آگے چل کر درست بھی ثابت ہوئی۔ اٹھارہ سو ستاون کے واقعات میں ان اخبارات کا بھی بڑا کردار تھا؛ چنانچہ انگریزوں نے اخبارات پر اپنا کنٹرول رکھنے کے لئے نت نئے قوانین لانے شروع کیے۔ بد نام زمانہ گاگنگ ایکٹ اس کی ایک اہم مثال ہے۔ یہ کتابوں، پمفلٹ، اخبارات و جرائد اور دوسرے مواد کو زبردستی روکنے اور منہ بند کرنے کے کالے قوانین کا مجموعہ تھا۔
ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان میں پریس اور پبلیکیشنز کے متعلق کئی قوانین انگریزوں سے مستعار لیے گئے تھے۔ بعد ازاں جو مقامی پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس جاری ہوتے رہے‘ وہ بھی برطانوی راج کے دوران موجود قوانین کا عکس تھے، جن کے ذریعے حکومتیں میڈیا پر اپنی گرفت رکھ سکتی تھیں، اور اس کو خاموش کرا سکتی تھیں۔
یہ کالے اور جابرانہ قوانین تو کھلے ہتھکنڈے تھے، جنہیں حکمران طبقات میڈیا کو اپنے مقاصد کے لیے چلانے کے لیے استعمال کر سکتے تھے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے طریقے بھی موجود تھے، جن میں دھونس‘ دھاندلی، خوف‘ لالچ سب کچھ شامل رہا ہے۔ اس کے علاوہ اخبارات کے ڈیکلیریشن میں رکاوٹیں۔ اخباری کاغذ کی تقسیم اور کوٹا، اخبارات کی ترسیل، حکومتی اشتہارات کے ذریعے میڈیا پر کنٹرول رکھنے اور اپنی مرضی کے مطابق چلانے کا سلسلہ دراز ہے۔ اس سلسلہ عمل میں میڈیا کے کچھ گروپ بھی اسی رنگ میں رنگ گئے۔ میڈیا کے معاشی مفادات خاص پالیسی کے ساتھ جڑ گئے۔ اس طرح میڈیا نے کسی خاص مسئلے پر عوام کی رائے سازی کو اپنے معاشی مفادات کے فریم ورک کے اندر محدود کرنا شروع کر دیا۔
تین صدیوں کے طویل سفر کے بعد بھی آج ایسے لگتا ہے کہ میڈیا آزادی کے سوال پر ایک بند گلی میں کھڑا ہے۔ اگرچہ اظہار رائے کی آزادی کو بار بار آئینی تحفظ دیا گیا۔ اس باب میں خوبصورت قوانین بنائے گئے۔ نیک مقاصد اور نیک نیتی کا اظہار کیا گیا، مگر جب کبھی عملی طور پر کوئی آزمائش کی گھڑی آئی، جہاں میڈیا کو حق سچ کہنے کی ضرورت محسوس ہوئی وہاں ہمیشہ ان دیکھی ان سنی رکاوٹِیں پیدا ہوتی رہی ہیں۔ یہ صورتحال صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے‘ دنیا کے کئی ممالک ملتی جلتی صورتحال کا شکار ہیں۔ بعض ممالک میں تو المیہ یہ ہوا ہے کہ ذرائع ابلاغ کو ایک خاص سطح تک آزادی اور خود مختاری دینے کے بعد واپس لے لی گئی۔ نیوز چینلز اور اخبارات پر پابندیاں لگائی گئیں۔ اور کچھ ممالک میں تو صحافیوں کو پابند سلاسل کیا گیا‘ جمہوری حقوق اور شہری آزادیاں محدود کر دی گئیں۔ آج بھی دنیا میں سینکڑوں صحافی اور لکھاری جیلوں میں ہیں۔ جارج واشنگٹن نے سچ کہا تھا کہ اگر اظہار کی آزادی چھین لی جائے تو ہمیں گونگوں کی طرح خاموشی سے ایسے ہانکا جا سکتا ہے، جیسے بھیڑوں کو ذبح خانے لے جایا جاتا ہے۔