امریکہ نے ایران کے ماضی سے کیا سیکھا؟ اور ایران اپنے ماضی اور امریکیوں سے کیا سبق سیکھ سکتا ہے؟ ان سوالات کے جواب ایران کی تاریخ میں ہیں۔ ایران کی قدیم اور عظیم تاریخ کے کئی سنہرے ادوار ہیں۔ عظمت رفتہ کے ان ادوار میں کئی شہنشاہ، بادشاہ، شاعر، ادیب اور دانشورگزرے ہیں۔ اس طویل فہرست میں ایرانیوں کا وہ جدِ امجد بہت نمایاں ہے، جس نے دنیا کی پہلی بڑی سلطنت تشکیل دی، اور جسے دنیا سائرس اعظم کے نام سے جانتی ہے۔
تاریخ پڑھنا اور یاد رکھنا ایک ضروری اور بہت ہی مفید کام ہے‘ مگر گاہے یہ کام بڑا دردناک بھی ہوتا ہے۔ شاعر نے جب یہ کہا تھا کہ 'یاد ماضی عذاب ہے یا رب، چھین لے مجھ سے حافظہ میرا‘ تو شاید اسے بھی گزرے ہوئے کل کا کوئی حصہ کچھ اس انداز میں یاد آ رہا تھا، جو اس کے لیے عذاب کی مانند تھا۔ سمجھ دار ایرانی جب اپنے عظیم ماضی کو یاد کرتے ہیں، تو یہ ان کے لیے ایک قسم کا عذاب ہی ہوتا ہے کہ ہم کیا تھے، اور کیا ہو گئے۔ ایرانیوں کا ماضی صرف شاندار نہیں تھا، بہت ہی شاندار تھا مگر انہوں نے بدقسمتی سے اس سے سیکھا کچھ نہیں۔ اس کے برعکس دنیا کے کئی ملکوں‘ قوموں خصوصاً مغربی ممالک نے یونان سے لے کر امریکہ تک ایرانیوں کے ماضی سے نہ صرف بہت کچھ سیکھا، بلکہ اسے نشان راہ بنایا۔
سکندر‘ جسے ہم سکندرِ اعظم کہتے ہیں، بچپن سے ہی سائرس کی شخصیت اور اس کے کارناموں سے متاثر تھا۔ کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ سکندر کے بچپن کے وقت سائرس کے بارے میں زبانی یا تحریری طور پر جو کچھ بھی دستیاب تھا، اس نے پڑھ رکھا تھا یا سن رکھا تھا؛ چنانچہ سکندر کی شخصیت، سوچ اور خیالات پر سائرس اعظم کا گہرا اثر تھا۔ کچھ تاریخ دان تو سکندر کی فتوحات کا سہرا ہی سائرس کے سر باندھتے ہیں۔
سکندر نے اپنی فتوحات کے دوران دیگر ریاستوں کے علاوہ خود سائرس اعظم کی بنائی ہوئی فارس کی سلطنت کو بھی فتح کیا۔ سلطنت کو تاخت و تاراج کرنے کے بعد جب سکندر سائرس اعظم کے مقبرے پر پہنچا تو اس کا سر تعظیم سے جھکا ہوا تھا۔ اس عظیم آدمی کے مقبرے پر حاضر ہونے کی اس کی دیرینہ خواہش تھی مگر یہ خواہش خوشگوار حالات میں پوری نہیں ہوئی۔ مقبرے کو توڑ پھوڑ ڈالا اور لوٹ لیا گیا تھا۔ دل گرفتہ جرنیل نے یہ منظر بڑے افسوس سے دیکھا۔ ذمہ داران کو کڑی سزا دینے اور مقبرے کو مرمت کرکے اصل حالت میں لانے کا حکم دیا۔
برطانیہ کے عجائب گھر میں ایک سلنڈر رکھا ہے۔ لگ بھگ پانچ سو انتالیس قبل مسیح میں سائرس نے قدیم بابل فتح کیا تو اس نے یہ سلنڈر بنانے کا حکم دیا، جو فٹ بال کے سائز کا تھا۔ اس سلنڈر پر جو کچھ لکھا گیا‘ اسے دو ہزار پانچ سو سال بعد انسانی حقوق کا پہلا چارٹر قرار دیا گیا۔ اس سلنڈر پر دو احکامات درج تھے۔ پہلا یہ کہ سلطنت فارس میں سب کو مذہب کی آزادی ہے، جو چاہے جس چیز کی پوجا کرے۔ اور دوسرا یہ کہ جن لوگوں کو یروشلم سے جبراً جلا وطن کیا گیا ہے، اور نکالا گیا، وہ واپسی کے لیے آزاد ہیں۔ یہ سلنڈر برطانیہ کے عجائب گھر میں رکھا ہے، مگر یہ گاہے امریکہ سمیت دوسرے مغربی ممالک کے دورے پر بھیجا جاتا ہے، جہاں اس کو نمائش کے لیے رکھا جاتا ہے۔ اس طرح انسانی حقوق کے باب میں ایرانیوں نے جو گراں قدر حصہ ڈالا دنیا اس سے آگاہ ہوتی ہے۔
امریکیوں نے ایرانیوں کے ماضی اور عظمت رفتہ سے بہت کچھ سیکھا۔ انہوں نے سائرس اعظم کے بارے میں تحقیق و جستجو سے کام لیا۔ اس کا کہا سنا اپنے پلے باندھ لیا۔ اس کے کچھ اصولوں اور خیالات کو مشعل راہ بنا کر اپنی طاقت اور عظمت میں اضافہ کیا۔ اس کے برعکس ایرانیوں نے اپنے عظیم ماضی سے کچھ سیکھنے کے بجائے اسے دفن کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ انقلاب اور عقیدے کے نام پر اپنے ماضی کی ہر نشانی مٹانے کی کوشش کی۔ انسان حیرت و افسوس سے سوچتا ہے ایران کل کیا تھا، اور آج کیا بن گیا ہے۔ ذلت و زوال کا سفر ابھی مکمل نہیں ہوا۔ یہی روش رہی تو کون جانے کل فارس کے لوگوں کو کیسے کیسے دن دیکھنے نصیب ہوں۔
واشنگٹن ڈی سی کی سیر کے دوران انسان کو بہت کچھ دیکھنے اور سیکھنے کو ملتا ہے‘ اگر آنکھیں اور دماغ کھلا اور کشادہ رکھا جا سکے تو۔ یہاں گاہے ایک کتاب نمائش کے لیے رکھی جاتی ہے۔ اس کتاب کا نام سائروپیڈیا ہے۔ سقراط کے شاگرد اور ایک عظیم یونانی دانشور زینوفون نے یہ کتاب تین سو ستر قبل مسیح کے اردگرد لکھی تھی۔ یہ کتاب سترہ سو سڑسٹھ میں یورپ میں دو زبانوں یعنی لاطینی اور یونانی میں شائع ہوئی۔ کتاب کی جو کاپی نمائش کے لیے رکھی جاتی ہے، یہ ان دو کاپیوں میں سے ایک ہے جو تھامس جیفرسن کی ملکیت تھیں۔ عموماً یہ کتاب امریکی کانگرس کی لائبریری میں رہتی ہے۔ اس کتاب میں سقراط کے اس ہم عصر دانشور اور لائق شاگرد نے سائرس کی شخصیت اور طرز حکمرانی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ایک مثالی حکمران کیسا ہوتا ہے اور ایک مثالی سماج کیا ہوتا ہے۔ یہ کتاب حقیقت اور افسانے پر مبنی ایک طرح کا سیاسی رومانس ہے، جس میں ایک حکمران کی تعلیم و تربیت اور انداز حکمرانی کا بیان ہے، جس نے ایک متنوع اور مذہبی طور پر رنگ برنگے سماج میں رواداری سے حکومت کی۔
یورپ اور امریکہ میں نشاۃ ثانیہ کے دوران مختلف مغربی دانشوروں میں سائرس کے خیالات بہت مقبول رہے۔ جن لوگوں نے سترہ سو ستاسی میں امریکہ کا آئین لکھا‘ ان کے خیالات اور نظریات پر بھی سائرس کے گہرے اثرات تھے۔ اٹھارہویں صدی میں امریکہ کے بانیوں کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ پرانے زمانے میں ایک ایسی کامیاب ریاست کا وجود تھا، جس میں مختلف مذاہب اور ثقافتیں موجود تھیں، وہاں پر مذہبی رواداری کا یہ عالم تھا کہ کسی ایک مذہب کو غالب حیثیت حاصل نہیں تھی۔ امریکہ کی آزادی کے اعلان کے سو سال بعد سائرس کا سلنڈر دریافت ہوا‘ لیکن تھامس جیفرسن جیسے لوگوں‘ جنہوں نے آزادی کا اعلامیہ لکھا، کے پاس سائرس کی زندگی اور زینوفون کا سائروپیڈیا ریفرنس کے لیے موجود تھا۔ تھامس جیفرسن نے یہ کتاب بار بار پڑھی۔ ہر ورق اور سطر پر حاشیہ تحریر کیا۔ شاید اسی لیے دوسری کاپی کی ضرورت پڑ گئی کہ پہلی کاپی پر مزید نوٹ لکھنے کی جگہ نہ بچی تھی۔ اس نے اپنے خاندان کے دیگر افراد کو بھی یہ کتاب پڑھنے کی تاکید کی۔ اس نے اپنے پوتے کو ایک خط میں زور دے کر لکھا کہ جب تم یونانی زبان سیکھنا شروع کرو تو پہلی کتاب جو تم پڑھو وہ سائروپیڈیا ہونی چاہیے۔ تھامس جیفرسن جیسے لوگوں کی وجہ سے کسی ایک مذہب کی غالب حیثیت کے بغیر تمام مذاہب کی آزادی اور رواداری پر مبنی خیال اٹھارہویں صدی میں امریکہ نے قبول کرنا شروع کیا۔ اس وقت تک کوئی ریاست امریکہ اور یورپ میں پوری طرح مذہبی رواداری نہ اپنا سکی تھی۔ پورے مغرب کے پاس یا تو برطانیہ کی طرح ایک ریاستی مذہب تھا، یا وہ فرانس کی طرح تمام مذاہب کے خلاف تھے۔تھامس جیفرسن کے علاوہ سکندرِ اعظم اور جولیس سیزر جیسے لوگ بھی اس کتاب کے قدر دان تھے۔ اس کے مصنف کو بہترین کلاسیکل لکھاری اور تاریخ دان مانا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے‘ زینوفون نے یہ کتاب افلاطون کی ریپبلک کے جواب میں لکھی تھی۔ جان ملٹن نے زینوفون کے کام کو افلاطون کے ہم پلا قرار دیا ہے۔ جو لوگ ایرانی زبان و ادب سے شناسا ہیں وہ بتا سکتے ہیں کہ ایران میں سائروپیڈیا کے ساتھ کیا برتائو ہوا۔ عام آدمی تو ایک طرف‘ کیا ایران کے دانشوروں نے سائروپیڈیا پڑھا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو سماج پر اس قدر قدامت پرستی اور رجعت پسندی کیسے مسلط ہوتی؟ جن قوموں نے ترقی کی انہوں نے اپنی اور دوسری قوموں کی تاریخ اور اچھے تاریخی تجربات سے استفادہ کیا۔ ماضی کی اچھی روایات، خیالات و نظریات کو موجودہ دور کے مطابق ردوبدل کرکے اپنایا۔ اس کے برعکس جو قومیں اپنے ماضی پر پشیمان ہوئیں، انہوں نے ماضی سے اپنے تمام رشتے بیک جنبش قلم ختم کر دیے۔ ماضی کی اچھی بری روایات کو ایک ہی خانے میں رکھ کر دیکھا۔ ان قوموں کے نظریات و خیالات میں ایک خاص قسم کا خلا‘ ایک کھوکھلا پن واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ خلیج فارس والے اگر اپنے عظیم ماضی سے اور کچھ نہیں تو شہری آزادیوں کا احترام اور مذہبی رواداری ہی سیکھ لیں تو یہ جدید دنیا میں ان کے لیے ایک عظیم اثاثہ ثابت ہو سکتا ہے۔