"FBC" (space) message & send to 7575

کینیڈا کی لا سوسائٹی کیا کر سکتی ہے؟

یہ جنوری چوبیس کا دن ہے۔ سال انیس سو ستتر ہے۔ مقام سپین کا مشہور شہر میڈرڈ ہے۔ میڈرڈ شہر کے مشہور ریلوے سٹیشن اٹوچا کے نزدیک اٹوچا گلی کی پچپن نمبر عمارت کے ایک دفتر میں میڈرڈ شہر میں لیبر لا کے ماہر قانون، ورکرز کمیشن کے ممبران، ٹریڈ یونین اور کالعدم کمیونسٹ پارٹی آف سپین کے کچھ رہنما جمع ہیں۔ ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق پرگرماگرم بحث اور غوروفکر جاری ہے۔ 
اچانک دفترکا دروازہ کھلتا ہے اور شرکائے محفل پر بھاری مشین گنوں سے گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے۔ اس قاتلانہ حملے میں پانچ لوگ مارے جاتے ہیں اورچارشدید زخمی ہوتے ہیں۔ دوسرے دن سپین کا نیو فاشسٹ گروپ اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے اور اس کے فاشسٹ لیڈر اس حملے کا دفاع کرتے ہوئے ایک دوسرے کوکامیابی کی مبارک دیتے ہیں۔
اس واقعے کے خلاف ملک میں شدید ردعمل ہوتا ہے۔ غصے سے بھرے ہوئے لوگ سڑکوں پرامڈ آتے ہیں۔ اٹوچا میں رات کی تاریکی میں مارے جانے والوں کے جنازے میں ایک لاکھ سے زائد لوگ شرکت کرتے ہیں۔ جنازے کے بعد جواحتجاجی اجتماع ہوتا ہے غیرجانبدار حلقوں کے مطابق یہ جرنیل فرانکو کی موت کے بعد سپین میں بائیں بازو کا اس وقت تک سب سے بڑا اجتماع ہے۔ حکمران طبقات کو حالات کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ حقائق تسلیم کرنے پرمجبور ہوجاتے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی سے پابندی اٹھائی جاتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں حرکت میں آتی ہیں۔ کچھ لوگ گرفتار ہوتے ہیں۔ تفتیش کے نتیجے میں حیرت انگیزمعلومات سامنے آتی ہیں۔ فاشسٹ نیٹ ورک بے نقاب ہوتا ہے۔ سپین کے علاوہ اٹلی کی کئی قابل اعتبار رپورٹس میں انکشاف ہوتا ہے کہ اس حملے میں اٹلی کے نیوفاشسٹ حملہ آور بھی شامل تھے۔ فاشسٹوں کے اس وحشیانہ حملے میں مارے جانے والوں میں چار وکلا اور ایک لیگل اسسٹنٹ شامل تھا۔ سپین میں ان لوگوں کی یاد میں ہرسال چوبیس جنوری کا دن منایا جانے لگا۔ یہ دن آہستہ آہستہ سپین سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اب اس واقعے کی یاد میں ہرسال پوری دنیا میں چوبیس جنوری کوخطرے کے شکار وکلا کا عالمی دن منایا جانے لگا۔ دنیا بھر میں ہرسال اس دن ان وکلا کو یاد کیا جاتا ہے، جنہوں نے قانون کی حکمرانی، اورانسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا۔ اس میں ان خطروں کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے، جو مختلف ممالک میں آج کے دور میں مجموعی طورقانونی پیشے سے وابستہ افراد کودرپیش ہیں۔ اس دن ان ممالک کے بارے میں بات کی جاتی ہے، جہاں خصوصی طور پر وکلا کے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران ان کے بنیادی حقوق پر قدغن لگائی جاتی ہے۔ یہ دن کئی مغربی ممالک کی وکلا کی انجمنیں اور لا سوسائٹیز مناتی ہیں۔ یہ دن منانے کے لیے ہرسال کسی ایسے ملک کا انتخاب کیا جاتا ہے، جہاں وکلاء کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنی جان ومال کو خطرات درپیش ہوتے ہیں، جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں، اورجہاں قانون کی حکمرانی کو خطرات درپیش ہوتے ہیں۔ امسال یہ عالمی دن پاکستان کے وکلا کے نام کیا گیا ہے۔ اس سال چوبیس جنوری کو نیوزی لینڈ آسٹریلیا، انگلینڈ کی لا سوسائٹیوں کے علاوہ لا سوسائٹی آف انٹاریو، کینیڈا کے زیراہتمام بھی یہ دن بنایا گیا۔ اس سلسلے میں جو تقریب منعقد کی گئی، اس کو ہیومن رائٹس واچ، کینیڈین لائرز واچ، اور ایمنسٹی انٹریشنل نے مشترکہ طور پر سپانسرکیا ہے۔ گفتگو میں پاکستان میں کینیڈا کے سابق سفیر فیری دے کرکھو، پاکستان سے کچھ سنیئر ایڈیٹر دانشور، کینیڈا سے پروفیسرز اور لا سوسائٹی کے لوگ شامل تھے۔ اس موقع پر راقم کی گفتگو کا حاصل یہ تھا کہ پاکستان میں وکلا کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران کئی قسم کے خطرات اور مشکلات درپیش ہیں، اور ان کا کس طرح ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں فوکس اس بات پرکیا کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کو کیا مشکلات درپیش ہیں۔
اس کانفرنس کے ایجنڈے پروہ تمام مسائل شامل تھے، جن کا تعلق کسی نہ کسی طریقے سے قانون کی حکمرانی سے جڑتا ہے۔ ایک بڑا موضوع فری ٹرائل بھی تھا۔ فیئرٹرائل کے لیے اردوزبان میں کسی مناسب یا عام فہم اصطلاح کی عدم موجودگی ہی بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ہاں منصفانہ سماعت کاتصورکس قدرمبہم ہے۔ منصفانہ سماعت ایک طویل اور صبرآزما عمل کا نام ہے، جس میں مقدمے سے جڑے تمام فریق، پولیس، عدالتی سٹاف، وکیل، جج کا ایک بنیادی اوراہم کردار ہوتا ہے۔ ان میں سے اگر کوئی ایک بھی اپنا کردار درست طریقے سے ادا نہ کرے تو منصفانہ سماعت کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں فوجداری مقدمات کے شروع میں ہی پولیس کے کردارکی وجہ سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جاتے۔ پولیس کا کردار کئی طریقوں سے مقدمات پر منفی انداز میں اثراندوز ہوتا ہے۔ پولیس کی عدم دلچسپی، نااہلی، رشوت و سفارش اور غیر پیشہ ورانہ انداز کی وجہ سے مقدمات کی شروعات میں ہی بگاڑ شروع ہوجاتا ہے؛ چنانچہ جب مقدمہ عدالت میں پہنچتا ہے تو اس پر پولیس کا کام اثر ڈالتا ہے۔ ان میں کمزور اور ناکافی شہادتیں، جھوٹی گواہیاں اورکمزور ثبوت شامل ہوتے ہیں، جن کی بنیاد پرمقدے کا رخ متعین ہوتا ہے۔ اس کے بعد وکلا کا کردارشروع ہوتا ہے۔ بعض وکلا میں بھی پولیس کی طرح سُستی، کاہلی اور نااہلی سے لے کر پیشہ ورانہ بددیانتی تک کے معاملات پائے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ اس کے بعد معاملہ جج حضرات تک پہنچتا ہے۔ ہماری کچہریوں میں رشوت اور سفارش کے ذریعے مقدمات پراثراندازہونے کے رجحانات عام ہیں، جن کی موجودگی میں منصفانہ سماعت یا انصاف کے تقاضے پورے ہونے کا خواب ادھوراہے۔ ایجنڈے کا ایک نکتہ پاکستان میں انتہا پسندی اور قانون کی حکمرانی بھی تھا۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں شدت پسندی قانون کی حکمرانی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج رہی ہے۔ شدت پسندی کے زیراثر ماضی میں کئی گروہ ریاست اور قانون سے مکمل بغاوت کا اعلان کرتے رہے ہیں۔ عسکریت پسندی اوردہشت گردی اس کے واضح مظہر رہے۔ سوات میں بغاوت سے لے کے شہروں تک میں خود کش حملے اور دہشت گردی کی دوسری کارروائیاں قانون کی حکمرانی پر براہ راست حملے تھے۔ شدت پسندی کا قانون کی حکمرانی پر اثرانداز ہونے کا دوسرا طریقہ خوف وہراس کی فضا پیدا کرنا ہے تاکہ شدت پسندوں کو سزا دینے سے اجتناب کیا جائے۔ ماضی میں اس طرح کے بے شمار واقعات ہوئے، جہاں شدت پسندوں اور دہشتگردوں کے معاملے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔
ایجنڈے کا ایک نکتہ توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال بھی تھا۔ پاکستان میں تاریخی طور پر ایسے مقدمات میں بھی وکلا اور جج حضرات کو سخت دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ وکلا کو یہ مقدمات لڑنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ سابق صدر جرنیل مشرف کا مقدمہ اور اس کے اتار چڑھائو بھی قانون و انصاف سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے لیے ایک کلاسیکل کیس ہے۔
پاکستان میں قانون کی حکمرانی اس تقریب کا سب سے اہم موضوع بحث تھا۔ اس باب میں راقم نے عرض کیا کہ قانون کی حکمرانی کے لیے وکلا کا کردار کلیدی ہے۔ قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے جہاں بعض وکلا کو اپنے موکل کے حقوق کے تحفظ اور دفاع میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، وہاں دوسری طرف کچھ وکلا کا کردار بھی قانون کی حکمرانی کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ حالیہ برسوں میں وکلا کے اندر بڑھتے ہوئے تشدد کے رحجانات، قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا عمل، ججز، پولیس اور دوسرے لوگوں پرجسمانی حملے کرنے کے رجحانات میں بہت اضافہ ہوا ہے، جو بذات خود قانون کی حکمرانی پر حملے کے مترداف ہے۔ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کے لیے عدالتوں کے کردار اور کیے گئے اہم فیصلوں پر بھی بحث ہوئی۔ راقم نے اس باب میں مولوی تمیزالدین کیس، دوسو کیس، یوسف کیس، بیگم نصرت بھٹو کیس، بے نظیربھٹو اور ظفرعلی شاہ کے تناظرمیں آئین و قانون کودرپیش مشکلات کا خلاصہ پیش کیا۔ لا سوسائٹی نے سوال کیا کہ وہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے لیے کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟ میرا مختصرجواب تھا کہ سوسائٹی اپنے تجربات شیئر کرے اور تفصیلی جواب میں پاکستانی قانون دانوں پر چھوڑتا ہوں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں