شوگر سکینڈل ایک بڑا سکینڈل ہے، مگر اس اتنے بڑے سکینڈل پر نہ کسی کو کوئی خاص حیرت ہوئی، اور نہ ہی میڈیا میں کوئی طوفان برپا ہوا۔ اب تک اشرافیہ کی کرپشن کے اتنے سکینڈل سامنے آ چکے ہیں کہ کسی نئے سکینڈل پر کسی کو حیرت یا افسوس نہیں ہوتا۔ لوگوں کا رد عمل ایسا ہوتا ہے گویا وہ اشرافیہ سے یہی توقع رکھتے تھے۔پاکستانی سماج میں کرپشن ایک پرانا اورگہرا روگ ہے۔ ہرشعبہ زندگی میں کرپشن اتنی عام ہے کہ اب اس کو کوئی برائی نہیں سمجھتا، یا کوئی ناپسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس سماجی روگ کو زندگی کا حصہ اور معمول سمجھ کر قبول کر لیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے کرپشن کے زیادہ تر بڑے بڑے سکینڈل اور مقدمات اشرافیہ سے ہی متعلق رہے ہیں، مگر کرپشن صرف اشرافیہ تک ہی محدود نہیں، زندگی کے ہر شعبے میں پائی جاتی ہے۔
کرپشن بہت ہی نچلی سطح پر ایک غریب ریڑھی بان سے شروع ہو کر طاقت ور اشرافیہ تک جاتی ہے۔ ماضی میں صاحب اختیار اور بااثر طبقات کی کرپشن کے واقعات اور قصے کہانیوں پر نظر ڈالی جائے تو لگتا ہے کہ جس کا بھی بس چلا اس نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ کسی نے ملکی وسائل پرڈاکہ ڈالا، تو کسی نے براہ راست عوام کو لوٹا، اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
یہ درست ہے کہ سماج کا ہر فرد کرپشن میں ملوث نہیں ہوتا۔ لاکھوں کروڑوں ایسے ہیں، جو موقع اور اختیار ہونے کے باوجود اپنے دامن کو آلودگی سے پاک رکھتے ہیں۔ دوسری طرف المیہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی بھی بہت بڑی تعداد ہے جو اپنی اپنی طاقت اور اوقات کے مطابق سماج سے وہ حصہ وصول کر رہے ہیں، جس پر اس کا کوئی حق نہیں۔ سماج کے نچلے اور پسے ہوئے طبقات بھی اس سے مستثنا نہیں۔ ایک ریڑھی والا بھی رشوت یا سفارش کے لین دین سے دور نہیں رہ سکتا۔ اسے بھی شاید شہر کے ''بائی لاز‘‘ کی آڑ میں پولیس یا میونسپیلٹی کے کسی اہل کار کو کچھ نہ کچھ نذرانہ دینا پڑتا ہے۔ دوسری طرف اسے اپنی بقا کیلئے گاہے رشوت یا کسی با اثر آدمی کی سفارش کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک ایسے سماج میں جہاں بقول شخصے عام آدمی کو پیدائش اورموت کا سرٹیفیکیٹ بھی بغیر رشوت یا سفارش کے نہ مل سکتا ہو‘ وہاں انسان شفافیت کے کیا خواب دیکھ سکتا ہے۔ ایک نچلے درجے کا کلرک اپنی حیثیت کے مطابق جو رشوت یعنی ''چائے پانی‘‘طلب کرتا ہے، شاید وہ کوئی بڑی رقم نہ ہو، لیکن جس عام غریب آدمی سے وہ طلب کر رہا ہوتا ہے، وہ اس کے لیے بہت بڑی رقم ہوتی ہے۔
اختیارات کی اس سیڑھی پر اوپر چڑھتے چلے جائیں تو صاحب اختیار کی اوقات و حیثیت کے مطابق رشوت، تحفے تحائف یا نذرانے کا تعین ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ اس سیڑھی کی چوٹی پر بیٹھے ہوئے آدمی تک جاتا ہے۔ اگرکرپشن کی ان تہہ درتہہ اورچھوٹی موٹی شکلوں اور اشرافیہ کی بڑی بڑی کرپشن کو ملا کر دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کرپشن کی اس دلدل میں کس گہرائی تک دھنس چکے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں کرپشن کے اعدادوشمار جمع کرنے اور رپورٹ کرنے والی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے گزشتہ سال پاکستان کو180 ممالک کی فہرست میں 120 نمبر پر دکھایا۔ اس فہرست میں آخری نمبر پر آنے والے ممالک میں صومالیہ، شمالی کوریا، افغانستان، سوڈان اورعراق جیسے ملک شامل ہیں۔ دوسری طرف شفاف ممالک میں ڈنمارک، سویڈن، ناروے، نیوزی لینڈ سرفہرست ہیں۔
کرپشن ہے کیا؟ دنیا میں مختلف لوگ کرپشن کی مختلف تعریف کرتے ہیں۔ اسی اختلاف رائے کی وجہ سے ہر سال مختلف ممالک ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے پیش کردہ رپورٹ پراعتراض اٹھاتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ یہ رپورٹ تیار کرنے کیلئے جو طریقہ کار اور پیمانے استعمال ہوتے ہیں، وہ حقائق کی درست عکاسی نہیں کرتے؛ تاہم اس اختلاف رائے کے باوجود دنیا میں اس پر ایک عمومی اتفاق بھی موجود ہے۔ دنیا کی متفقہ تعریف کے مطابق جب کوئی اپنے ذاتی فائدے کے لیے اپنے اختیار اور طاقت کا ناجائز استعمال یا کسی کا بھروسہ اور اعتماد توڑ کر کوئی ذاتی فائدہ حاصل کرتا ہے‘ اس کو کرپشن کہا جاتا ہے۔ یہ کام کوئی شخص بھی اپنی سیاسی و سماجی حیثیت یا اثرورسوخ کے ناجائز استعمال سے کر سکتا ہے۔ یا پھر ایک سرکاری اہل کار، وزیر یا مشیر اپنے سرکاری اختیارات کو کسی ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرکے کرتا ہے۔
کرپشن کی تاریخ پرانی ہے۔ اس کا آغازنجی ملکیت کے آغازاور اختیارات کی تقسیم کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ کرپشن کے آغاز کے ساتھ ہی انسان نے اس کو ایک سنگین سماجی برائی اورجرم کے طور پرتسلیم کر لیا تھا۔ کرپشن کے نقصانات کا اتنی کثرت سے ذکر ہوچکا کہ دنیا میں بچے بچے کو یہ نقصانات ازبر ہیں۔ پھر بھی اسے جتنی بار دہرایا جائے کم ہے۔ انسانی زندگی کا ہر سنگین مسئلہ کرپشن کے بطن سے جنم لیتا ہے۔ جدید دور میں کرپشن کا پہلا شکار جمہوریت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دانشور کرپشن کو جمہوریت کا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جمہوریت اور کرپشن ایک دوسرے کی ضد ہیں، اور یہ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ کرپشن کے عمل سے ایک ''شیطانی چکر‘‘ شروع ہوتا ہے۔ کرپشن سب سے پہلے جمہوری اداروں کے اندرسرنگ لگاتی ہے۔ پھریہ جمہوری اداروں کو یا تو بالکل ہی سبوتاژ کردیتی ہے یا ان کو مجروح کرکے کمزوراور بے بس کردیتی ہے۔ کمزور جمہوری ادارے کرپشن سے لڑنے کی صلاحیت کھودیتے ہیں۔ جوں جوں کسی ملک میں کرپشن بڑھتی جاتی ہے توں توں قانون کی حکمرانی محدود ہوتی جاتی ہے۔ قانون کی حکمرانی محدود ہونے کا اظہار مختلف طریقوں سے ہوتا ہے۔ سماج میں سول سوسائٹی کیلئے جو جگہ ہوتی ہے، وہ آہستہ آہستہ تنگ ہونی شروع ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ سول سوسائٹی کا کرداربالکل ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اس کی آواز دبا دی جاتی ہے۔ اس افسوناک صورتحال کا دوسرا شکارمیڈیا ہوتا ہے۔ قانون کی حکمرانی کی عدم موجودگی میں میڈیا کو دھونس، دھاندلی، خوف یا پھر لالچ دے کر قابوکر لیا جاتا ہے، اور اس کی آزادی غصب ہو جاتی ہے۔ نتیجے کے طورپرکرپشن کے وہ سکینڈل منظرعام پرآنا بند ہوجاتے ہیں، جن میں بااثرطبقات ملوث ہوتے ہیں۔ اوراگرکوئی سکینڈل آبھی جائے تواس پرزیادہ شورنہیں پڑتا، اوریہ بہت جلد پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ یہ کرپشن اور جمہوریت کے درمیان تعلق کا فلسفہ ہے۔ ایک مضبوط اور صحت مند جمہوریت میں کرپشن کیلئے کوئی جگہ نہیں؛ چنانچہ کرپشن کو سماج میں اپنی بقا کے لیے جمہوریت پر پہلا حملہ کرنا پڑتا ہے۔ کرپشن کے باب میں عالمی درجہ بندی میں گزشتہ چھ برسوں کے دوران ہنگری کے ریٹنگ سکور میں آٹھ سے نوپوائنٹ کا فرق پڑاہے۔ اس فرق کا عکس اس ملک میں انسانی آزادیوں اورجمہوریت پر واضح طورپر دکھائی دیتا ہے۔ ہنگری کے بارے میں فریڈم ہائوس کی رپورٹ یہ ہے کہ سیاسی حقوق کے باب میں 1989کے بعد یہ ملک نچلی ترین سطح پرہے۔ صحت مند جمہوریت اورسرکاری سطح پرکرپشن کے خلاف جنگ میں تعلق ہنگری کی مثال سے واضح ہوتا ہے۔ جہاں جمہوریت کمزور ہوتی ہے، وہاں کرپشن جڑیں پکڑتی ہے ۔ اس صورتحال کو مطلق العنان اورپاپولسٹ لیڈرزاپنے فائدے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
جمہوریت کو مجروح کرنے کے علاوہ کرپشن معاشی ترقی کے پائوں کی زنجیر بن جاتی ہے۔ کسی بھی بدعنوان سماجی ومعاشی ڈھانچے کے اندردولت کی شفاف اورمنصفانہ تقسیم نہیں ہوسکتی۔ ایسے سماج میں ایک طرف یہ ہوتا ہے کہ طاقتور اور بااثر طبقات کی دولت میں بے تحاشااضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف غریب طبقات کی غربت اوربے چارگی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس سلسلۂ عمل میں سماج میں پہلے سے موجود امیر اورغریب طبقات کے درمیان خلیج مزید گہری ہو جاتی ہے، اورعدم مساوات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے مجموعی طورپر غربت بڑھتی ہے۔ سماجی ناہمواریوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سارے عمل سے آگے چل کر ماحولیات سمیت ارد گرد کی ہر چیز پرمنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
کرپشن روکنے کا واحد راستہ جمہوریت کے دروازے سے ہوکرگزرتا ہے۔ جمہوری ادارے مضبوط ہوتے ہیں توکرپشن کے امکانات کم ہوتے جاتے ہیں۔ جمہوریت کی مضبوطی اورکرپشن کے خاتمے کیلئے اظہاررائے کی آزادی اور ''فریڈم آف انفارمیشن‘‘ ناگزیر ہے‘ جس کی وجہ سے فیصلہ ساز اور بااختیار قوتیں شفاف اور منصفانہ پالیسیوں پرعمل کرنے پرمجبورہوتی ہیں۔ دنیا کے دس شفاف ترین ممالک میں قدرمشترک مضبوط اور صحت مند جمہوریت ہے۔