ہمارے ہاں عام آدمی قدرت پر بھروسہ کرتا ہے۔ یہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے ایمان اور عقیدے کاحصہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے قدرت کی مرضی سے ہوتا ہے لہٰذا اس کو ہونے سے روکنا کارِ قدرت میں مداخلت ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سیلابوں، طوفانی بارشوں اور زلزلوں کو قدرت کی ناراضی اور غیظ وغضب کا اظہار قرار دیتے ہیں، جو ان کے خیال میں گناہوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ عام آدمی یا پھر قدامت پرست لوگوں کی حد تک تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے‘ لیکن اگر سرکار اور سرکاری محکمہ جات بھی اپنا کام کاج چھوڑ کر قدرت پر تکیہ کرکے بیٹھ جائیں تو پھر اس قوم یا ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔ پھر یہ حقیقت ہے کہ ہمارے سرکاری اہلکاروں، محکموں اور اداروں کا بھی ان معاملات پر طرز عمل کوئی بہت زیادہ مختلف یا سائنسی رویوں پر مبنی نہیں ہوتا۔ کراچی کی حالیہ طوفانی بارشوں کو ایک وزیر نے قدرت کا تحفہ قرار دیا‘ جو نیک حکمرانوں پر برستا ہے‘ یعنی حکمران اچھے ہوں تو زیادہ بارش ہوتی ہے۔ ایک وزیر کا رویہ اگر یہ ہے تو عام آدمی سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے یا اس وزیر کے زیر انتظام محکمے کے عام اہل کار کتنی سائنسی سوچ رکھ سکتے ہیں۔ اس طرز عمل کی کئی چھوٹی بڑی جھلکیاں حالیہ بارشوں کے دوران سامنے آئیں جب کراچی شہر پانی میں ڈوب گیا۔ ارباب اختیار کو بھی کہتے سنا گیا کہ ہم کیا کریں بارش اس بار کافی زیادہ ہوئی ہے‘ یہ قدرت کا کام ہے، جس کے سامنے وہ بے بس ہیں۔ جن لوگوں کی ریاست یہ ذمہ داری لگائے کہ وہ عوام کو قدرتی آفات سے بچانے کا فریضہ سرانجام دیں، یا ماحولیاتی تباہی کے اثرات سے عوام کے جان و مال کی حفاظت کریں‘ اور ان کو ان فرائض کی انجام دہی کی باقاعدہ تنخواہ ملتی ہو‘ وہ اگر طوفانی بارش کو اللہ کی نعمت یا زحمت قرار دے کر اپنا دامن چھڑا لیں تو یہ بڑی ستم ظریفی کی بات ہے۔ تیز بارش، طوفانی بارش یا معمول سے زیادہ بارش ماحولیاتی تباہی کی کئی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ دنیا ایک سائنسی عمل سے بندھی ہوئی ہے۔ ہم ہر روز اس کا تجربہ کرتے ہیں۔ ماحولیاتی تباہی سے درجہ حرارت بڑھتا ہے تو گلیشئر پگھلتے ہیں۔ گلیشئر پگھلیں گے تو دریائوں میں طغیانی آئے گی۔ دریائوں میں پانی چڑھنے سے سیلاب آئیں گے۔ یہ ایک سیدھا سادہ سائنسی عمل ہے۔ طوفانی بارشیں، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات اس دھرتی کا رد عمل ہے، جس کو ہم صدیوں سے غلط استعمال کر رہے ہیں۔ اگرآپ اس دھرتی پر آبادی میں اس قدر اضافہ کر دیں گے کہ انسانوں کے سر چھپانے کے لیے جگہ نہ رہے۔ درخت کاٹ دیں۔ قدرتی چشمے اور دریا روک کر ڈیم اور آبادیاں تعمیر کر دیں۔ ہر جگہ سیمنٹ اور سریے سے بے ڈھنگی عمارتیں تعمیر کر دیں۔ ماحولیاتی تباہی کی پروا کیے بغیر ایسی ملیں، فیکٹریاں اور کارخانے لگا دیں، جو کسی ضابطے کی پروا کیے بغیر فضا میں آلودگی پھینکتے رہیں تو یہ دھرتی کے قدرتی عمل میں مداخلت ہے۔ انسان صدیوں سے شہر تعمیر کرتا آیا ہے اور اس نے صدیوں کے اس تجربے سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اس میں ایک سبق یہ ہے کہ شہر ایک منصوبے کے تحت بنائے جانے چاہئیں۔ بستیاں بساتے وقت قدرتی ماحول، دریائوں، نالوں اور چشموں کو اپنی جگہ رہنے دینا چاہیے۔
بارشوں، سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات کا صرف ہمیں ہی سامنا نہیں‘ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو، جسے سیلاب، طوفانی بارشوں، ہری کینز وغیرہ کا سامنا نہ ہو۔ دنیا کے بیشتر قدیم اور تاریخی شہر سمندروں، دریائوں اور جھیلوں کے کنارے آباد ہیں اور ان میں سے بیشتر شہروں کو بارشوں، سمندری طوفانوں اور سیلابوں سے بچانے کا باقاعدہ نظام موجود ہے۔ اس سلسلے میں ہر ملک کا کوئی نہ کوئی تلخ تجربہ ہے، جس سے انہوں نے سبق سیکھا۔ ان کے تجربات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ جاپان زلزلوں کا ملک ہے۔ اس نے زلزلوں کے ہاتھوں بہت تباہی دیکھی‘ اس سے سبق سیکھا اور زلزلہ پروف طرزِ تعمیر اختیار کیا۔ جاپان زلزلوں کو روک نہیں سکتا، مگر اس نے زلزلوں کے ساتھ بغیر کوئی جانی اور مالی نقصان اٹھائے جینا سیکھ لیا۔بات طوفانی بارش اور اس کی تباہی سے بچنے کی ہو رہی تھی تو جس تیز یا طوفانی بارش کو ہم قدرت کا غضب یا زحمت سمجھتے ہیں، دوسرے ملکوں کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر ہم اسے اپنے لیے رحمت بنا سکتے ہیں۔
1923 کے موسم خزاں میں جاپان کے ایک شہر سومیدہ میں بہت سخت زلزلہ آیا تھا۔ اس زلزلے کی وجہ سے اس شہر کا واٹر سپلائی سسٹم تباہ ہو گیا۔ اس کے جواب میں ''رین واٹر ہارویسٹنگ پروجیکٹ‘‘ یعنی بارش کے پانی کو ذخیرہ کرکے استعمال کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت شہر میں تیز بارش کے پانی سے جو تباہی و بربادی ہوتی تھی اس سے بچنے کے لیے یہ پانی ذخیرہ کرنے کا آغازکیا گیا اور اس ذخیرہ شدہ پانی کو شہرکی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ عمارتوں کی چھتوں سے بارش کے پانی کو پائپوں کے ذریعے ٹینکوں میں جمع کیا جانے لگا۔ شہر میں ہر عمارت کے ساتھ ٹینک بنائے گے، جس کی وجہ سے شہر میں ایک ہزار ٹن سے زائد پانی ذخیرہ ہونے لگا۔ اس پانی کو ٹائلٹ فلش کرنے، شہر کے کولنگ سسٹم اور ایریگیشن کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ اس نظام کے تحت بارش کو زحمت سے ایک نعمت میں بدل کر شہر میں پانی کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا۔ اس کی ایک اورمثال کوریا کا شہرسیئول ہے ۔ سیئول چھ سو سال پرانا شہر ہے جس میں بارہ ملین سے زیادہ لوگ رہتے ہیں۔ یہاں پر تیز بارشوں کی وجہ سے ہمیشہ سیلاب اور پانی کا مسئلہ رہتا تھا۔ حکام نے اس مسئلے کے حل کے لیے شہر میں تمام بڑی عمارتوں میں واٹر ہارویسٹنگ سسٹم لازم قرار دے دیا جس کے تحت ہرعمارت میں پانی کے ذخیرے کے لیے ٹینک بنائے جاتے ہیں۔
پانی اور بارش کے باب میں یہ ہے دنیا کی کہانی۔ پاکستان کی داستان یہ ہے کہ ستر سال سے ہم بارش کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ کبھی تیز بارش کی وجہ سے ہم پانی میں ڈوب رہے ہوتے ہیں، اور کبھی بارش نہ ہونے کی وجہ سے ہم خشک سالی کا شکار ہو کر پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہوتے ہیں۔ ہم کبھی بارش سے بچائو کی دعائیں مانگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اور کبھی بارش کے لیے اجتماعی طور پر گڑگڑا رہے ہوتے ہیں۔ گویا اس باب میں ہمارے خیالات اور حرکات و سکنات ہزاروں سال پرانی ہیں۔ جب تک ہم بارش کے ساتھ ایک فصل جیسا سلوک نہیں کریں گے اور بارش کو فصل سمجھ کر اس کی ہارویسٹنگ نہیں کریں گے، اس وقت تک ہم یونہی بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بنے رہیں گے۔ بارش کو ایک قیمتی فصل سمجھ کر سنبھالنا ضروری ہے۔ اب ہمارے کچھ وزیر یا مشیر باتدبیر یہ فرمائیں گے: واٹر ہارویسٹنگ کے لیے ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں، توعرض یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے وسائل کی کوئی ضرورت نہیں‘ سرکار صرف یہ قانون سازی کر دے کہ شہر کی ہر چھوٹی بڑی عمارت میں پانی کے ذخیرے کے لیے ٹینک بنانا عمارت کے مالک پر لازم ہے اور آئندہ ملک میں کوئی گھر‘ کوئی عمارت واٹر سٹوریج ٹینک کے بغیر بنانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ یہ ٹینک شہر کے سیوریج سسٹم سے منسلک ہوں اور بارش کی پیش گوئی کے بعد فوری ان ٹینکوں کو خالی کر دیا جائے۔ یہ قانون سازی کرنے اور اس پر سختی سے عمل کرنے سے طوفانی بارش اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی کو اگر بالکل ختم نہیں تو بہت حد تک کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر ایسے طویل مدتی اقدامات کی ضرورت ہے، جو ماحولیاتی تباہی کی روک تھام کے لیے ضروری ہیں۔ ماحولیاتی تباہی کے خوفناک عمل کو صرف درخت لگانے سے نہیں روکا جا سکتا۔ درخت لگانا بہت ہی اہم اور قابل تعریف اقدام ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ماحول کو بچانے کے لیے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق قانون سازی اور اس قانون پر سختی سے عملدرآمد کی بھی ضرورت ہے۔