پسماندہ ممالک میں ترقی کا خواب ایک پرانا خواب ہے۔ عوام صدیوں سے یہ خواب دیکھ رہے ہیں۔ حکمران عوام کو صدیوں سے یہ خواب دکھا رہے ہیں۔ اس باب میں کئی لوگوں کے خواب تاحیات شرمندہ تعبیر نہیں ہوتے۔ یہ ان کی آئندہ نسلوں کو منتقل ہو جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ غربت اور پسماندگی بطور امانت نئی نسلوں کے سپرد ہو جاتی ہے۔
ترقی کے ان ٹوٹتے بنتے خوابوں کے درمیان کہیں کہیں حقیقت میں ترقی ہو بھی رہی ہے۔ کئی پسماندہ ممالک بڑی تیز رفتاری سے ترقی کے راستے پر گامزن ہو رہے ہیں‘ مگر ترقی کے اس جنون میں کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ جس ترقی کی ہم مانگ اور مطالبات کر رہے ہیں، وہ کیا ہے اور اس سے عام آدمی کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا۔ گویا دنیا میں ہونے والی ترقی کے تاریخی تجربے سے کوئی سبق نہیں سیکھا جاتا کہ صرف ترقی کر لینا ہی کافی نہیں ہوتا۔ کسی ملک کے ترقی کر لینے سے عام آدمی یا محروم طبقات کے سارے مسائل خودبخود حل نہیں ہو جاتے۔ ترقی کرنے کے ساتھ ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ترقی کی شکل اورسمت کیا ہے۔ کیا ترقی اس طرح ہورہی ہے کہ اس کے ثمرات عام تک بھی پہنچ رہے ہیں یا پھرترقی کاجو راستہ اورطریقہ اختیارکیا گیا ہے، اس سے امیرلوگ امیرتر اور غریب لوگ غریب ترہوتے جا رہے ہیں؟ کیا اس طرح کی ترقی سے پسماندہ اور پسے ہوئے لوگ بھی غربت سے باہر نکل رہے ہیں یا پھر اس ترقی سے مٹھی بھرلوگ ہی اپنی دولت اور مراعات میں اضافہ کررہے ہیں۔ ان سوالوں کا جواب دینے کے لیے ترقی کے مختلف ماڈلزپر ایک نظرڈالنا ضروری ہے، جن کا دنیا میں پہلے ہی تجربہ کیا جاچکا ہے یا پھرجو ماڈلز اس وقت دنیا میں مختلف ممالک نے اپنا رکھے ہیں۔ ان ماڈلز میں ایک کامیاب ماڈل جمہوری سوشلسٹ فلاحی ریاستوں کاماڈل ہے۔ اس کو آپ سوشل ڈیموکریٹک ماڈل بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس ماڈل میں سویڈن، ڈنمارک، ناروے، فن لینڈ اور ان جیسے کئی دوسرے ممالک شامل ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے جب عوام کے میعار زندگی، صحت، تعلیم، عزت نفس اور جان ومال کے تحفظ کی بات ہوتی ہے، تو یہ ممالک فہرست میں سب سے اوپر ہوتے ہیں۔ یہ ترقی کاایک ایسا ماڈل ہے جس میں معاشی خوشحالی کے ساتھ ساتھ عوام کو جمہوری اوربنیاد انسانی حقوق بھی حاصل ہوتے ہیں۔
ترقی کا ایک دوسرا تیزرفتار ماڈل بھی ہے، جس نے ایک وقت میں اس دنیا کی بنیادی تصویر ہی بدل کررکھ دی تھی۔ اس ماڈل کے تحت انتہائی مختصر وقت میں کروڑوں لوگوں کوغربت سے باہر نکالا گیا تھا۔ اس ماڈل میں بدقسمتی سے لوگوں کے جمہوری حقوق اور شہری آزادیوں کا احترام نہیں کیا گیا، بنیادی انسانی حقوق نہیں مانے گئے، جس کی وجہ سے یہ نظام مختلف قسم کے مسائل و تضادات کا شکار ہوکر ختم ہو گئے۔ اب اس مورچے میں اکیلا کیوبا ہی کھڑا نظرآتا ہے۔ تیسرا ماڈل وہ غالب نظام ہے، جوآج ہم اپنے اردگرد اکثر ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ ماڈل امریکہ سے لے کر انڈیا‘ پاکستان تک دنیا کے بیشتر ممالک میں رائج ہے۔ اس ماڈل والی دنیا میں امیراور غریب کے درمیان ایک گہری خلیج ہے۔ اس ماڈل کے تحت چلنے والی دنیا غیر مساوی اور ناہموار ہے۔ یہ ناہمواریاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہیں۔ یہ اس وقت دنیاکا غالب نظام ہے۔ اس نظام کی وجہ سے آج ایک سو سے بھی کم لوگ ایسے ہیں، جن کے پاس دنیا کی آدھی آبادی کی مجموعی دولت سے بھی زیادہ دولت ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک پر ایک سرسری نظرسے ہی صورتحال کی سنگینی کا احساس ہو جاتا ہے۔ کورونا سے پہلے امریکہ کی معیشت دنیا کی صحت مند ترین معیشتوں میں شمار ہوتی تھی۔ یہاں بیروزگاری کی شرح پانچ فیصد سے بھی کم تھی۔ فی کس آمدن 54 ہزار ڈالر تک پہنچ چکی تھی لیکن سماج میں عدم مساوات کا یہ عالم تھاکہ تقریباً اٹھارہ فیصد لوگ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ جہاں تک آمدن کے باب میں فرق کا تعلق ہے تو مستند اعدادوشمار کے مطابق دوہزار اٹھارہ میں امریکہ کے صرف بیس فیصد خاندانوں نے امریکہ کی کل آمدن کے نصف سے زائد دولت بنائی۔ آمدن میں عدم مساوات کے باب میں امریکہ جی سیون ممالک میں سب سے اوپرہے۔ یہ صورت صرف طبقاتی حوالے سے ہی نہیں بلکہ نسلی اور صنفی اعتبارسے بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ اس ملک میں سفید فام اور سیاہ فام کی آمدن میں آج بھی اتنا ہی فرق ہے، جتنا انیس سو ستر میں تھا۔ جنسی امتیاز کی بنیادوں پر عورت اور مرد کی آمدن میں بھی قابل ذکر فرق ہے۔
چین کا قصہ بھی زیادہ مختلف نہیں۔ چین کے سو امیر ترین لوگوں کے پاس چین کی کل آبادی کے 2/5 سے زیادہ دولت ہے۔ اس بات میں شک نہیں کہ چین نے ترقی کی، اور حیرت انگیز ترقی کی۔ اس نے کروڑوں بھوکے ننگے لوگوں کو غربت سے باہر نکالا اور ان کا معیار زندگی بدل کررکھ دیا مگر بدقسمتی سے تیزرفتار ترقی کے دور میں چین کے پچاس فیصد لوگوں کی آمدنی صرف پانچ فیصد بڑھی، جبکہ دوسری طرف زیرو اعشاریہ ایک فیصد امیر ترین لوگوں کی دولت میں چالیس فیصد اضافہ ہوا۔
بھارت میں دولت اورآمدن میں عدم مساوات حیرت خیز ہے۔ ملک کی 54 فیصد دولت کروڑ پتی لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ دولت کی اس غیر منصفانہ تقسیم میں بھارت دنیا میں روس کے بعد دوسرے نمبرپر ہے۔ ملک کی اٹھاون فیصد دولت صرف ایک فیصد امیر ترین لوگوں کے پاس ہے اور دس فیصد امیر ترین لوگ ملک کی اسی فیصد دولت کے مالک ہیں۔
پاکستان میں یہ صورتحال المناک ہے۔ معاشی عدم مساوات پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ امیراور غریب کے درمیان گہری خلیج کی وجہ سے اگر کوئی ترقی ہو بھی تو غریب لوگوں کو اس ترقی سے استفادہ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ پاکستان میں معاشی عدم مساوات کی ایک نمایاں ترین شکل زرعی زمینوں کی تقسیم ہے۔ صرف ایک فیصد لوگوں کے پاس بیس فیصد زرعی زمین ہے۔ خوشحال طبقے کے بیس فیصد لوگ ملک کی ستر فیصد زمین کے مالک ہیں۔ یہ صورتحال برطانوی دور سے چلی آرہی ہے، جب زمین راجوں، مہاراجوں، جاگیرداروں، تمن داروں، پیروں‘گدی نشینوں کو وفاداری کے عوض یا انعام واکرام کے طور پر دی جاتی تھی اور آج بھی برقرار ہے۔ یہاں زرعی اصلاحات یا جاگیرداری کے خاتمے کا ڈھنڈورا تو بہت پیٹا گیا، مگر عملی طور پر جاگیرداری نظام کا بنیادی ڈھانچہ اپنی جگہ پر قائم رہا۔
اس وقت پاکستان کی چالیس فیصد آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کی اہم ترین وجہ ریاستی وسائل پر مٹھی بھر اشرافیہ اور مراعات یافتہ لوگوں کا کنٹرول ہے۔ طاقت ور گروہوں میں جاگیردار، شہری جائیدادوں کے مالکان، ریئل سٹیٹ ڈویلپرز، تاجر اور کارپوریٹ شیئر ہولڈرز ہیں۔ ان ایک فیصد لوگوں کی آمدن باقی پوری آبادی کی مجموعی آمدن سے زیادہ ہے۔ آمدن میں فرق کی وجہ سے ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پر فرق پڑتا ہے۔ معاشی اور سماجی عدم مساوات میں اضافہ ہوتا ہے۔ معاشی عدم مساوات صرف طبقاتی بنیاد پر ہی نہیں، یہ تقسیم علاقائی بنیادوں پر بھی ہے۔
وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے اگر کبھی ترقی کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے تو استفادہ محدود طبقہ ہی کرتا ہے۔ جمہوری حکومتوں میں ترقی کی شرح کم بھی ہو تو استفادہ کرنے والوں میں زیادہ لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اسے آپ جمہوریت کی برکت کہہ سکتے ہیں‘ مگر جمہوریت کے باوجود سماجی و معاشی عدم مساوات ختم کرنے کیلئے دولت کی منصفانہ تقسیم کا واضح میکنزم اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کیلئے سمتوں اور پالیسیوں کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ ترقی کا ایک ایسا راستہ جس میں مراعات یافتہ طبقات بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہوں، اور عوام کنارے کھڑے ہوں‘ قابل تقلید نہیں ہے۔