موٹروے پر پیش آنے والا واقعہ خوفناک درندگی کا مظاہرہ تھا۔ اس وحشت ناک واقعہ پر غم وغصے کا اظہار اب تک جاری ہے۔ ہونا بھی چاہیے کہ اس درندگی اور وحشت پر جتنا بھی سخت ردعمل ہو کم ہے۔ عوام، دانشوروں حکومتی حلقوں سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ناراضگی اور ان کا غم وغصہ بجا ہے؛ تاہم اس ردعمل کے کچھ پہلو ایسے ہیں، جن کے بارے میں سن کر حیرت ہوتی ہے کہ زندگی کے مسائل پر ہمارے سماج کے اندر کیا کیا فکری مغالطے پائے جاتے ہیں۔ ان مغالطوں کا اندازہ ان مسائل پر مختلف طبقات کا الگ الگ ردعمل دیکھ کر ہوتا ہے۔
اس وحشیانہ واقعہ پر ایک ردعمل لاہور کے پولیس آفیسر کا تھا۔ یہ ردعمل بہت سارے لوگوں کیلئے صدمہ انگیز تھا۔ اس تلخ حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجود کہ پاکستان کی پولیس کو دنیا کی بدترین پولیس کی رینکنگ میں پانچویں نمبر پر دکھایا گیا ہے مجھے بھی اس پولیس آفیسرکا رد عمل ناقابل یقین لگا۔ اس ردعمل سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک انتہائی اعلیٰ سطح کے پولیس آفیسرکی یہ سوچ اور فکری سطح ہے تو پولیس کے عام 'رینک و فائل‘ میں موجود ہمارے کم پڑھے لکھے پولیس والوں سے اس باب میں کیا توقع ہو سکتی ہے؟
پولیس آفیسر کا ردعمل انوکھا نہیں‘ یہ ایک خاص ذہنیت کا اظہارہے۔ ایسی ذہنیت ہمارے ہاں وسیع پیمانے پر پائی جاتی ہے۔ اس ذہنیت کے زیر اثر اگر کوئی شخص کسی جرم کا نشانہ بنتا ہے، تو مجرم کے بجائے جرم کا شکار ہونے والے کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے‘ لیکن جیساکہ ظاہر ہے یہ رویہ صرف عورتوں کے بارے میں ہی اپنایا جاتا ہے، خصوصاً جب کسی عورت کے خلاف جنسی جرم کا ارتکاب ہوا ہو۔ اگر ایک مرد کی جیب کٹ جائے تو کوئی اسے یہ نہیں کہتا کہ تم بازار میں گئے ہی کیوں تھے یا تم اپنی جیب کی حفاظت میں ناکام کیوں ہوئے؟ کسی کی کار چوری ہو جائے تو اس پر یہ اعتراض نہیں ہوتاکہ اس نے کار اس جگہ پارک ہی کیوں کی تھی؟ کسی پر کوئی جسمانی حملہ کر دے تو اس کے کردار میں کیڑے نکالنے کے بجائے لوگ اس سے ہمدردی کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ کوئی بچہ اگر جنسی درندگی کا شکار ہو جائے، جو ہمارے ہاں اکثر ہوتا ہے، تو کوئی دانشور یہ نہیں کہتا کہ بچوں کو بھی پردوں میں بٹھا دینا چاہیے بلکہ درندے اور اس کی درندگی کی غیر مشروط مذمت کی جاتی ہے مگر ایسا جب عورت کے ساتھ ہوتا ہے تو طرح طرح کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ درندگی کے کسی واقعہ میں ہمارا دانشور یہ ثابت کرنے کا موقع دیکھتا ہے کہ اگر کہیں جنسی درندگی کا مظاہرہ ہوتا ہے تو اس میں عورت کا قصور ہوتا ہے؛ چنانچہ یہ عورتوں کو ''دخترِ نیک اختر‘‘ بنانے اور سبق سکھانے کا سنہری موقع سمجھا جاتا ہے‘ یعنی یہ کہ اگر ہماری عورت دختر نیک اختر بن جائے تو جنسی جرائم ختم ہو جائیں گے۔ ایسے واقعات سے ملک میں جو جذباتی اور حساس فضا پیدا ہو جاتی ہے، اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے موقعوں پر پاپولسٹ لیڈرز‘ عورتوں کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے دانشور سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔ وہ موقع کی نزاکت اور عوام کی جذباتی کیفیت کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی دردناک فضا میں دو تین قسم کے سٹیریو ٹائپ دہرائے جاتے ہیں۔ ان میں ایک فحاشی و عریانی کا منترا ہے۔ یہ بات کرتے ہوئے اس حقیقت کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ جسے ہم فحاشی اور عریانی کہتے ہیں، یہ دنیا کے کئی ممالک میں طرز زندگی کا حصہ ہے، اور بہت بڑے پیمانے پر پائی جاتی ہے۔ مغرب مشرق کے بیشتر کھلے معاشروں میں مختصر لباس کا عام رواج ہے۔ ان ملکوں میں کچھ مقامات ایسے بھی ہیں، جہاں عورتیں مکمل طور پر بے لباس بھی ہوتی ہیں۔ ان میں سینکڑوں ساحلی علاقے، ہزاروں کلب، بارز اور تفریح کے ایسے دیگر مقامات شامل ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نائٹ کلبوں میں عریاں رقص کرتی ہوئی عورتوں کو دیکھ کر مرد حضرات کے جذبات کیوں مشتعل نہیں ہوتے؟ ہمارے ہاں پردوں میں چھپی اور پابندیوں میں جکڑی عورت کو مرد کی بد کرداری یا وحشت کا ذمہ دار ٹھہرانے کا یہ عمل افسوسناک ہے، جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس رویے سے ہم ایک مجرمامہ ذہنیت کے جنسی درندے کی جنسی درندگی کو جواز مہیا کرتے ہیں۔ ریپ ایک سماج دشمن فعل ہے جو کسی مخصوص صورتحال یا خاص قسم کی سماجی سیٹنگ میں ہی نہیں رونما ہوتا یہ ہر قسم کی سیٹنگ میں رونما ہوتا ہے۔ اگر یہ فعل فحاشی و عریانی کی وجہ سے ہوتا تو ہمارے ہاں مردوں کو قبروں سے نکال کر ان کی بے حرمتی نہ کی جاتی۔ بچوں کو درندگی کا نشانہ نہ بنایا جاتا۔ پردے اور برقعے میں ملبوس عورتوں پر جنسی حملے نہ کیے جاتے۔ ہمیں اس باب میں ان حقائق کو تسلیم کرنا پڑے گا، جو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے‘ اور وہ حقیقت یہ ہے کہ جنسی حملہ ایک سماج دشمن عمل ہے‘ یہ ایک درندہ نما انسان کی طرف سے طاقت کے استعمال اور غلبے کی خواہش کا اظہار ہے۔ اس کا شکار ہونے والوں پر انگلی اٹھانے کے بجائے اس عمل کی روک تھام کی سبیل نکالنی چاہیے‘ اور عورت پر انگلی اٹھانے کے بجائے وہ ماحول بدلنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے، جو ایسے جرائم کو رواج دینے کا باعث بنتا ہے۔
اس باب میں ہمارے ہاں یہ مغالطہ بھی پایا جاتا ہے کہ سخت سزائوں سے ایسے سنگین جرائم کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ باقی دنیا ایسا نہیں سوچتی۔ آج دنیا بھر میں جرم و سزا کے ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ سخت سزائیں مسئلے کا حل نہیں‘ دوسرے ممالک میں سخت سزا کے بجائے مجرم کی اصلاح پرزور دیا جاتا ہے۔ اس کو آپ سزا کا اصلاحی نظریہ کہہ سکتے ہیں۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ سخت سزائوں سے تشدد بڑھتا ہے‘اور تشددوجبر سے مجرم کے دوبارہ جرم کرنے کی شرح میں کمی نہیں واقع ہوتی۔ بہت سارے ممالک نے اس نظریے پر کامیاب تجربات کیے ہیں۔ ان میں فن لینڈ اور ناروے کے علاوہ دیگر ممالک شامل ہیں، جہاں جرائم کی شرح ایسے ممالک کی نسبت بہت کم ہے، جہاں عبرتناک سزا کے نظریات پر عمل کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی سزا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کے آئین اور قانون میں ممنوع سزا تصور کی جاتی ہے۔ یہی بات سرجری یا ادویات کے استعمال کے ذریعے انسان کو جنسی صلاحیت سے محروم کرنے کی بھی ہے۔ ایسا 2012 میں روس کی ایک پڑوسی ریاست مالڈویا نے کیا تھا۔ ایک سال کے اندر اندر اس سزا کو ختم کرنا پڑا، کیونکہ یورپی یونین اور عالمی اداروں نے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ تشدد یا درندگی کے مقابلے میں ریاست اسی طرح پُرتشدد طریقے نہیں اختیار کر سکتی۔ اس طرح ریاست اور عام آدمی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ مشکل سے مشکل ترین حالات میں ریاست کو تشدد سے گریز اور قانون کی حکمرانی کے تصورات کا خیال رکھنا پڑتا ہے؛ تاہم یہ ان ممالک کی سوچ ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سخت سزائوں کا نفاذ خصوصاً ایسے ممالک میں خطرناک ہوتا ہے، جہاں نظام عدل میں پہلے ہی بہت ساری خامیاں اور ناہمواریاں پائی جاتی ہیں۔ جہاں دشمنی کی بنیاد پر کسی پر جھوٹا الزام لگانا اور زر خرید جھوٹے گواہوں کے ذریعے کسی کو سزا دلوانا آسان اور ممکن ہو۔ ایسے ماحول میں کوئی ایسی سزا جس کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی کوئی تلافی نہ ہو لاگو کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ کسی کو سزائے موت دینا یا انسان کے جسمانی اعضا کو کیمیکل یا سرجیکل عمل کے ذریعے ہمیشہ کیلئے ناکارہ کر دیناایسے نظام انصاف میں قابل قبول ہو سکتا ہے، جہاں اس بات کی سو فیصد ضمانت دی جا سکتی ہوکہ کبھی کسی بے گناہ کو سزا نہیں ہو گی، مگر یہ ممکن نہیں۔ یہاں گواہ بکتے ہیں‘ بعض وکلا نااہلی اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں‘یہاں تک کہ اپنی مرضی کے فیصلے لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ امریکہ جیسے بہترین نظام انصاف میں بھی بے گناہ کو سزا دینے، اور حقائق سامنے آنے پر ختم کرنے کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ بہرحال اس ایشو پر بحث جاری رہے گی۔