غربت ایک منظم ظلم ہے، جو ایک منظم معاشرے میں مراعات یافتہ طبقات کی طرف سے محروم طبقات کے خلاف روا رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک منظم ریاست میں حکومت کا اولین فریضہ آگے بڑھ کر اس ظلم کو روکنا ہوتا ہے۔ ظالم و مظلوم کی اس لڑائی میں مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا ہوتا ہے۔ منصفانہ قانون سازی کرنا پڑتی ہے۔ ملازم اور مزدور کیلئے کم از کم معاوضہ مقرر کرنا پڑتا ہے۔ غریب کا ہاتھ پکڑ کر اسے غربت سے اوپر اٹھانا پڑتا ہے اور مراعات یافتہ طبقات کا وہ ہاتھ پکڑ کر روکنا پڑتا ہے، جو لوٹ کھسوٹ یا ظلم کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے‘ اور ملک میں معاشی و سماجی انصاف قائم کرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے فرار ممکن نہیں۔ انسان کو تاریخ کے ہر دور میں اس تلخ حقیقت کا سامنا رہا ہے۔ تاریخ انسانی کا سارا ادب اس سے بھرا پڑا ہے۔
ہر شہر میں دو شہر ہوتے ہیں۔ ایک غریب کا شہر ہوتا ہے، اور ایک امیر کا شہر ہوتا ہے۔ یہ سچائی جس نابغہ روزگار فلاسفر نے صدیوں پہلے بیان کی تھی‘ کیا اسے یہ اندازہ ہوا ہو گا کہ جو سچائی وہ بیان کر رہا ہے، وہ صرف اس کے دور کی سچائی نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی آفاقی سچائی ہے، جو آنے والے سینکڑوں‘ ہزاروں برسوں تک ایک کراہت انگیز سچائی کی شکل میں موجود رہے گی۔ صدیوں پہلے بولا جانے والا یہ سچ آج بھی دنیا کے تمام شہروں کا سچ ہے۔ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کے شہروں میں تو یہ سچ چیخ چیخ کر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہے۔ افلاطون نے ''ریپبلک‘‘ میں شہروں میں طبقاتی تقسیم کو واضح کرتے ہوئے لکھا تھاکہ کوئی بھی شہر خواہ وہ کتنا چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، درحقیقت دو شہروں میں تقسیم ہوتا ہے۔ ایک غریب کا شہر، اور ایک امیر کا شہر، اور یہ دونوں شہر ایک دوسرے سے حالت جنگ میں رہتے ہیں۔ یہ اس وقت کا قصہ ہے جب یونان میں اس وقت شاید صرف تین طبقات موجود تھے۔ یہ سماج کی بہت ابتدائی اور سیدھی سادی تقسیم تھی۔ اب ہماری دنیا بہت پیچیدہ ہو چکی ہے۔ ہمارے وقتوں میں کئی نئے طبقات نے جنم لے لیا ہے۔ ہم کثیر طبقاتی سماج ہیں۔ اب ہمارے شہروں میں دو شہروں کی جگہ تین تین چار چار اور گاہے اس سے بھی زیادہ شہر ہوتے ہیں۔ بالائی طبقات کا شہر، متوسط طبقے کا شہر، اور نچلے طبقات کا شہر، پسے ہوئے اور کئی کئی بے گھر لوگوں کا شہر بھی۔
ایک اور نابغہ روزگار یونانی فلاسفر ارسطو نے کہا تھا: غربت انقلاب کی ماں ہے۔ لیکن اس نے غربت کو انقلاب کی واحد وجہ نہیں قرار دیا تھا۔ اس کے برعکس اس نے سوچاکہ جس سماج میں جائیدادیں مساوی طور پر تقسیم ہوں گی‘ اس میں اشرافیہ ناخوش ہو گی، کیونکہ اشرافیہ ہمیشہ خود کو مساوی حصے سے زیادہ کا حقدار سمجھتی ہے اور اس سے بغاوت اور انقلاب کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔
قدیم یونان اور قدیم رومن طبقاتی جنگوں سے تھوڑا آگے نکل کر اگر یورپ کا جائزہ لیا جائے تو اس دور میں بھی ہر سو طبقاتی جنگ جاری نظر آتی ہے، مگر طبقات کے باہمی تعلق کی نوعیت میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ یورپ کے طبقاتی تضادات پر نظر ڈالتے ہوئے اٹھارہویں صدی کا فلسفی روسو اپنی کتاب ''سوشل کنٹریکٹ اینڈ ڈسکورس‘‘ میں آجر اور مزدور کے مفادات میں تضاد کو واضح کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ آجر مزدور کو یہ بتاتا ہے کہ ''تمہیں میری ضرورت ہے، کیوں کہ تم غریب ہو اور میں امیر ہوں‘ اس لیے ہم ایک معاہدہ کریں گے‘ میں تمہیں اس شرط پر اپنی خدمت کرنے کی اجازت دوں گا کہ تم میری حاکمیت تسلیم کرو‘‘ یعنی میری مرضی کے معاوضے پر میری مرضی کا کام کرو۔
جان جیک روسو نے یہ تسلیم کیاکہ ایک طبقاتی جنگ میں کسی حکومت کیلئے سب سے مشکل کام مزدور طبقے کے ساتھ اور مراعات یافتہ طبقے کے خلاف کھڑا ہونا ہوتا ہے، جو سماج کی خدمت کے نام پر اس کو لوٹنے میں لگے ہوتے ہیں۔ روسو کا خیال تھا کہ حکومتوں کو غربت کے خاتمے اور دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکازکے خلاف معیشت میں مداخلت کرنی چاہیے۔ آدم سمتھ کا بھی یہ خیال تھا کہ جائیدادوں کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ایک بے آہنگ صورت پیدا کرتا ہے، اور غریب کے طیش اور غضب کو ابھارتا ہے۔ اس نے مزدور کے معاوضے کی مثال دی، جہاں معاوضہ بڑھانا آجر کے اپنے مفادات سے متصادم ہے۔ مزدور تنخواہ بڑھانے کیلئے متحد ہوتے ہیں، اورآجرکم رکھنے کے لیے آپس میں اتحاد کر لیتے ہیں۔ مزدورکی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ معاوضہ لے سکے، جبکہ آجر کی خواہش ہوتی ہے وہ کم از کم معاوضہ دے۔ اس طرح ان کے مفادات باہم متصادم ہوتے ہیں۔
ہیگل اپنی کتاب ''تاریخ کا فلسفہ‘‘ میں لکھتا ہے: یونانی لیڈر سولون نے یونانی عوام کی اسمبلی بنا کر ایک ایسا حلقہ بنایا ہے، جس میں یونان کے تین طبقات کے مفادات کے درمیان توازن پیدا کیا جا سکتا ہے۔ یونان کے میدانی علاقوں کی اشرافیہ اور اعلیٰ نسب کے لوگوں کی پارٹی، پہاڑوں پر رہنے والے عام غریب لوگوں کی پارٹی، اور ساحلوں پر آباد متوسط طبقے کی پارٹی اس اسمبلی میں بیٹھ کر اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں‘ مگرغریب طبقات کی اپنی حالت بہتر کرنے کی خواہش اور ایک نوبل اور منصفانہ حکومت کے قیام کی خواہش کی وجہ سے غریب کو بالادست طبقات کی نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو اپنی خود غرضی اور عیاشی کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، جس کے وہ عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔ تاریخ کے اس اہم فلسفی نے یہ تشویش ظاہر کی تھی کہ اس کے زمانے کے انگلستان میں غریب کا معیارِ زندگی مزید گر سکتا ہے، جس سے فائدہ اٹھا کر دولت مند مزید دولت جمع کر سکتے ہیں۔ ریاست کی عدم موجودگی میں انسان کسی حق کا مطالبہ نہیں کر سکتا، لیکن جونہی معاشرہ منظم ہوتا ہے، ریاست بنتی ہے، تو غربت ایک ظلم کی شکل اختیار کر لیتی ہے، جو ایک طبقہ دوسرے پر کر رہا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ا س ظلم کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟
آگے چل کر کارل مارکس اور انگلس جیسے دانشور اور فلسفی ابھرتے ہیں، جنہوں نے طبقاتی شعور اور طبقاتی اتحاد کے مبہم تصورات کو واضح زبان دی جیساکہ اوپر عرض کیا طاقتور اور بالادست طبقات حکومت کی اعانت کے محتاج نہیں ہوتے۔ یہ حکمران طبقات کی طرف صرف اس وقت پلٹ کر دیکھتے ہیں، جب ان کو ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہو جو ان کی دولت و امارت میں اضافے کا باعث بن سکیں‘ لیکن وہ اس کے بغیر بھی گزارہ کر سکتے ہیں۔ اپنی بقا اور بنیادی ضروریات کے لیے وہ ریاست کی طرف نہیں دیکھتے۔ پسے ہوئے طبقات کو صدیوں کے استحصال اور مفلسی سے باہر نکلنے کے لیے ریاست و حکومت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ غربت کے خلاف لڑنے کے قابل ہو سکیں، جو ظلم کی شکل میں ان پر مسلط کی گئی ہے۔ ریاست کا کام تماشا دیکھنا نہیں ہے۔ ریاست اگر ماں نہیں بن سکتی، تو اسے کم از کم ایک غیرجانبدار ریفری تو بننا چاہیے۔
اتنی لمبی تاریخ بیان کرنے کا مقصد یہ یاددہانی کرانا ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں ہر مکتب فکر کے دانشور نے اپنے دور میں موجود سماجی و معاشی نا ہمواریوں کی ناصرف نشاندہی کی بلکہ ان پر قابو پانے کے طریقے بھی بتائے۔ تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا بے رحم اور غیر حساس دانشور گزرا ہو، جس نے غربت کو غریب کی بدقسمتی اور امارت کو امیرکی خوش قسمتی قرار دیا ہو اور حکومت وقت کو خاموش تماشائی بننے یا بالا دست طبقات کے ساتھ کھڑا رہنے کا مشورہ دیا ہو مگر پاکستان میں ایسا ہی ہوتا رہا۔ یہاں غربت کو انسان کا مقدر قرار دیا گیا، جسے صرف خدا ہی بدل سکتا ہے۔ ستر سال میں کسی حکومت نے کوئی ایسی قانون سازی نہیں کی جو غربت کے ظلم کو روکے۔ اس کے برعکس عوام کو جھوٹے خواب دکھائے گئے اور تعبیر کے وقت مراعات یافتہ طبقات کے ساتھ مل کر یا تو ان کو کچلاجاتا رہا، یا پھر ایک نیا ڈرامہ شروع کیا جاتا رہا تاکہ عوام کچھ دیر اور بہل جائیں، اور اقتدار کو تھوڑی اور طوالت مل سکے۔