"FBC" (space) message & send to 7575

’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی

تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ یہ الزام بہت پرانا ہے۔ ہمارے ہاں یہ الزام انگریزوں پر زیادہ کثرت سے لگایا جاتا رہا‘ مگر یہ الزام تاریخ میں صرف انگریزوں تک ہی محدود نہیں رہا۔ اس سے پہلے ولندیزیوں، پرتگالیوں، فرانسیسیوں اور دوسری نوآبادیاتی طاقتوں پر بھی یہ الزام تواتر سے لگتا رہا۔ نوآبادیاتی نظام سے پہلے جب شہری یا قومی ریاستیں تھیں، تب بھی ان ریاستوں کے حکمران طبقات پر عوام کو تقسیم کر کے ان پر حکومت کرنے کا الزام لگتا رہا تھا۔ قدیم یونان اور بابل کی شہری ریاستوں سے لے کر بڑی علاقائی اور عالمی سلطنتوں کی تشکیل تک شاید ہی کوئی حکمران طبقہ ایسا گزرا ہو، جس پر یہ الزام نہ لگایا گیا ہو۔ بعض حکمران طبقات اس الزام کو اپنی کامیاب حکمت عملی قرار دیتے رہے۔
بر صغیر میں انگریزوں کے قبضے کے پیچھے اس حکمت عملی کو اہم ترین عنصر کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اگر برصغیر میں انگریزی قبضے کی تاریخ دیکھی جائے تو پہلے محض چند سو اور بعد میں چند ہزار انگریزوں نے آسانی سے برصغیر کے کروڑوں لوگوں کی آبادی اور لاکھوں مربع میل رقبے پر قبضہ کیا۔ اس کا سہرا انگریزوں کی 'تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ والی پالیسی کے سر باندھ کر برصغیر کے مقامی حمکرانوں، رہنمائوں اور ان کے ہم نوا تاریخ دانوں نے اپنا دامن چھڑا لیا۔ مگر یہ اسی کامیاب پالیسی کا نتیجہ تھا کہ خود برصغیر کے راجے، مہا راجے، نواب اور دوسری با اثر شخصیات انگریزوں کے ساتھ مل کر اپنے لوگوں کے خلاف لڑائی میں شامل ہوتے رہے۔ 1857 کی جنگ آزادی اس کی ایک کلاسیکل مثال تھی‘ جب کئی ریاستوں کے راجوں مہاراجوں نے انگریزوں کو اپنی ریاستوں میں پناہ دی اور ان کو مالی و فوجی امداد مہیا کی۔ یہ ہماری دردناک کہانیاں ہیں، جو ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس لیے ہم 'تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی سے انکار تو نہیں کر سکتے، مگر ان سب کہانیوں کو ایک دوسرے نقطہ نظر سے دیکھنا بھی ضروری ہے۔ یہ نقطہ نظر تبھی واضح ہو سکتا ہے، جب تعصب اور بغض کی عینک اتار کر چیزوں کو دیکھا جائے۔
دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ نوآبادیاتی قوتیں تو دنیا بھر میں ہر جگہ عوام کو 'تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں‘ مگر ہرجگہ ان کی پالیسی کامیاب نہ ہو سکی۔ سوال یہ ہے کہ پھر ہمارے ہاں اس کی اتنی واضح کامیابی کی کیا وجہ تھی؟ اس کی ایک تاویل تو یہ ہے کہ جو سماج ظلم‘ جبر اور ناانصافی پر قائم ہوں ان میں تقسیم کا عمل شروع کرنا بہت آسان ہوتا ہے کہ ایسے سماجوں میں مختلف طبقات کے درمیان گہرے تضادات ہوتے ہیں۔ ایسے میں جہاں کچھ طبقات ظلم، جبر اور ناانصافی کے خاتمے کے لیے قابض قوتوں کے خلاف لڑنے کو تیار رہتے ہوں، وہاں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہوتی جو قابض قوتوں کی کاسہ لیسی کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے موقع پرستانہ رجحانات کی وجہ سے کسی بھی بیرونی حملہ آور کے ساتھ مل کر قوم پرست اور وطن پرست قوتوں کے خلاف سازش کے لیے تیار رہتے ہیں۔
دوسرا عنصر طاقت کا شوق، دولت کی ہوس گیری یا اختیارات و شہرت کی تلاش ہوتی ہے۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے، جب انسان یہ سمجھتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز سے مقدم اس کی ذات ہے۔ تاریخ میں ہم نے دیکھا کہ جو قومیں ان قباحتوں سے پاک ہوتی ہیں یا جن میں یہ قباحتیں نسبتاً کم ہوتی ہیں، وہ 'تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کے تجربے سے کم گزرتی ہیں۔ نوآبادیاتی دور کے علاوہ جدید دور میں بھی اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ ان جدید دور کی مثالوں میں ایک مثال کیوبا کی ہے۔ فلوریڈا کے ساحل سے چند گھنٹوں کے فاصلے پر واقع یہ جزیرہ نما ملک اس کی بہت اچھی مثال ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اہل کاروں اور خفیہ ایجنسیوں نے کئی اقوام میں پھوٹ ڈالنے اور انہیں تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں کیوبا کو سرفہرست قرار دیا جا سکتا ہے‘ مگر جغرافیائی قربت، ثقافتی اور نسلی مماثلت اور دیگر کئی عوامل کے باوجود وہ اس قوم میں دراڑ ڈالنے میں ناکام رہے۔ اس کی ایک وجہ کاسترو کی طلسماتی شخصیت اور دیومالائی کردار بھی ہے، لیکن اس میں کیوبا کے عوام کا شعور اور قومی مفادات کے خلاف دشمن کا آلہ کار نہ بننے کا عزم بھی ایک فیصلہ کن عنصر ہے۔ بہرکیف یہ 'تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی پرانی سامراجی پالیسی ختم نہیں ہوئی؛ البتہ بدلتے زمانوں کے ساتھ اس کی شکل بدلتی رہتی ہے۔
آج کل جدید ترین سامراجی حملہ براعظم ایشیا پر ہے۔ دانشوروں کا خیال ہے کہ اکیسویں صدی ایشیا کی صدی ہے اور تمام آثار بتاتے تھے کہ یہ صدی ایشیا کی صدی ہونے جا رہی ہے‘ مگر یہاں اب جس کھیل کا آغاز ہو چکا ہے، وہ شاید اس خواب کو شرمندہ تعبیر نہ ہونے دے۔ براعظم ایشیا کو 'تقسیم کرو اور اس پر حکومت کرو‘ کی پالیسی کا نقطہ ماسکہ یہ نظر آرہا ہے کہ ایشیا میں اس بات پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے کہ ایشیا میں ''بدی‘‘ کی قوتیں سراٹھا رہی ہیں، اور بقول ان کے چین بدی کا مرکز ہے، جس کے خلاف ''نیکی‘‘ کی قوتوں کا ایک وسیع تر اتحاد ناگزیر ہے۔ دوسرے الفاظ میں اتحاد کے نام پر براعظم کو 'تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کا عمل ایک فیصلہ کن مراحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اس خیال کے زیر اثر چار بڑی انڈوپیسیفک جمہوریتوں اور بڑی معیشتوں کا ایک اجلاس گزشتہ دنوں ٹوکیو میں ہوا۔ اجلاس میں خصوصی غوروفکر کا نقطہ ماسکہ بظاہر تو یہ تھا کہ چین پر تجارتی انحصار کو کیسے کم کیا جائے‘ لیکن دراصل ان طاقتوں نے چین کے دنیا پر بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو کم کرنے پر غور و فکرکیا ہے۔ اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ چین کے ''بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘‘ کے مقابلے میں ایک متوازی انفراسٹرکیچر کیسے بنایا جائے۔ اس کو ''سپلائی چین‘‘ کا نام دیا گیا۔ 'سپلائی چین‘ کا لفظ اس پورے منصوبے کے صرف معاشی پہلو اور انفراسٹرکچر کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، مگر یہ منصوبہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ وسیع تر معنوں میں اس اجلاس کا مقصد ایک نئے ابھرتے ہوئے عالمی نظام اور اس کے ایشیا پر اثرات کے بارے میں غور کرنا اور اس تناظر میں مختلف ممالک کے درمیان بدلتے ہوئے رشتوں اور نئی معاشی مشکلات کا جائزہ لینا تھا۔ اس اجلاس میں آسٹریلیا، بھارت، جاپان اور امریکہ نے شرکت کی۔ اس اجلاس کی اہمیت اور اس کے اصل مقاصد کے بارے میں کوئی بات راز نہیں ہے۔ اجلاس میں شریک چاروں ممالک دنیا بھر میں بالعموم اور اس خطے میں بالخصوص چین کے بڑھتے ہوئے اثرات سے پریشان ہیں، اور اس کا اظہار وہ بارہا کر چکے ہیں۔ ان چاروں ممالک میں تعلقات کافی پرانے اور مستحکم ہیں‘ مگر ان میں نئی مشترکہ چیز چین کے خلاف عداوت ہے۔ اگر اس کے پیچھے 'تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کے عنصر کو نکال دیا جائے تو اس نئی ابھرتی ہوئی عداوت کی کوئی بڑی ٹھوس وجہ نظر نہیں آتی۔ اس کے برعکس ان چاروں ممالک کے مفادات چین سے منسلک ہیں۔ چین آج دنیا میں بھارت کا دوسرا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ جاپان کی کل عالمی تجارت کا بیس فیصد چین کے ساتھ ہے، اور جہاں تک آسٹریلیا کا تعلق ہے تو اس کی کل برآمدات کا تقریباً نصف چین کے ساتھ ہے۔ امریکہ چین تجارت کا حجم اور حالیہ برسوں کے دوران ان کے درمیان ابھرنے والے تضادات بھی کسی قسم کی تشریح کے محتاج نہیں ہیں۔ ان جڑے مفادات کے باوجود ان ملکوں کا چین کے خلاف عالمی صف بندی کا حصہ بننا اس خطے کے مستقبل کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ یہ 'تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ پالیسی کا تسلسل ہے، جو ایشیا کے مفادات اور عظمت کے خواب کا شیرازہ بکھیر سکتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں