لاہور میں غداری کا ایک مقدمہ درج ہوا تو طوفان کھڑا ہو گیا‘ حالانکہ اس مقدمے میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستان کے دور دراز دیہاتوں اور شہروں کے تھانوں میں کئی ایسے مقدمے درج ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ اب جن کے خلاف یہ مقدمہ درج ہوا وہ ہائی پروفائل لوگ تھے۔
دنیا کی سیاسی تاریخ میں اگر بدنامِ زمانہ مقدمات کی فہرست بنائی جائے تو اس میں غداری کے مقدمات سرِ فہرست آتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو غداری کے الزام یا جرم کی سیاسی اہمیت ہوتی ہے۔ دوسرا اس میں عموماً بہت سخت اور عبرت ناک سزائیں دی جاتی ہیں۔
تاریخ میں غداری کی ایسی عبرت ناک سزائیں دی جاتی رہیں، جن کے بارے میں سوچ کر آج کے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان خوفناک سزائوں میں عموماً ایک مقبول سزا یہ ہوتی تھی کہ مجرم کو گھوڑے کے ساتھ باندھ کر پتھریلی اور سخت زمین پر گھسیٹا جاتا تھا‘ اور جب وہ اس دردناک سزا کی وجہ سے قریب المرگ ہو جاتا تو اسے پھانسی پر لٹکا دیا جاتا تھا‘ مگر پھانسی چڑھا دینے پر غدار کی سزا ختم نہیں ہو جاتی تھی، بلکہ مرنے کے بعد بھی اس کی سزا جاری رہتی تھی۔ بسا اوقات مرنے کے بعد مجرم کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے چیلوں کو کھلائے جاتے۔ سربریدہ لاش سرِ عام پھینک دی جاتی، یا کئی دنوں تک کسی چوراہے پر لٹکا دی جاتی۔
جب ہماری اس دنیا میں جدید طرز کی ریاستیں ابھی نہیں بنی تھیں، تب بھی غداری کا جرم اور اس کی سزا کا رواج موجود تھا۔ ریاستوں اور ملکوں کی تشکیل سے پہلے افراد کے مختلف قبیلے ہوتے تھے۔ ان قبیلوں سے وابستہ افراد کی وفاداری لازم تھی۔ اگر قبیلے کا کوئی فرد اس وفاداری کو نبھانے میں ناکام رہتا یا کسی بھی معاملے میں اپنے قبیلے کو دھوکا دیتا تو اسے غدار قرار دیا جاتا تھا۔ اس طرح کے سنگین جرم کی صورت میں قبیلے اپنے روایتی جرگے سجاتے تھے۔ ملزم کو ان کھلے جرگوں میں پیش کیا جاتا، بڑے اہتمام اور جشن و طرب کے ساتھ غداری کے ملزم کو سزا دی جاتی۔ انسان تھوڑا آگے بڑھا تو قبیلوں کی جگہ قوموں، قومیتوں یا مذاہب کے حوالے سے انسانوں کے گروہ ترتیب پانے لگے؛ چنانچہ غداری کے الزامات اور جرم و سزا کا یہ سلسلہ ایک مختلف شکل میں جاری رہا۔ مذہبی پیشوائوں کے پاس طاقت اور اختیار آیا تو اپنے پیشوائوں کی بات سے انحراف کو دھوکہ دینے اور غداری کے مترادف قرار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سماج کے دیگر طاقت ور طبقات‘ جن میں بادشاہ، جاگیردار، سردار اور وڈیرے شامل تھے‘ کے ساتھ بھی وفاداری لازم ٹھہری۔ اس وفاداری کے یک طرفہ قاعدے اور کلیے بنائے گئے، جن کی خلاف ورزی ان لوگوں کے ساتھ دھوکہ اور غداری قرار پائی۔ غداری کے اس جرم کی کڑی سزائیں مقرر ہوئیں۔ جوں جوں سماج پیچیدہ ہوتا گیا، غداری کا جرم بھی پیچیدہ ہوتا گیا۔ گیارہویں اور بارہویں صدی میں دھوکہ دہی کے علاوہ کئی دوسرے افعال کو غداری کے زمرے میں شمار کیا گیا۔ جو نئے جرائم اس فہرست میں شامل کیے گئے ان میں دشمن سے لڑائی کے دوران میدان جنگ سے بھاگنا، بادشاہ یا آقا کی موت کے لیے کوئی سازش کرنا یا اس میں شریک ہونا، بادشاہ یا آقا کی جعلی مہر بنانا، یہاں تک کہ بادشاہ یا آقا کی زوجہ کے ساتھ تعلق رکھنے کو بھی غداری قرار دیا گیا۔ تیرھویں صدی کے بعد غداری کے جرم کو مختلف قسموں میں تقسیم کیا گیا۔ اس جرم کو بڑی غداری اور چھوٹی غداری میں تقسیم کر دیا گیا۔ بڑی غداری یا ہائی ٹریزن کا مطلب تھا اپنے بادشاہ کے ساتھ غداری۔ اور اپنے آقا، جاگیردار یا مالک کے خلاف دھوکہ دہی کے عمل کو چھوٹی غداری یا پیٹی ٹریزن کا نام دیا گیا۔ جب غداری کی چھوٹی اور بڑی قسموں کو لے کر ایک طرح کا کنفیوژن پیدا ہونا شروع ہوا تو مختلف ممالک نے اس کی وضاحت کے لیے قانون بنانے شروع کیے۔ چودھویں صدی کے دوسرے نصف میں انگلستان اور دوسری یورپی پارلیمان میں ان جرائم کی باقاعدہ تعریف متعین ہوئی اور ان کی سزائوں کے بارے میں قانون سازی کی گئی۔
پاکستان کے قیام سے قبل بر صغیر میں انگریزوں کے زیر نگین غداری کے الزامات لگانے کا رواج عام تھا۔ انگریزوں کے نزدیک سرکارِ انگلستان اور اس کی حکمرانی کے خلاف کسی قسم کی سرگرمی، خصوصاً تحریر و تقریر کو غداری قرار دیا جاتا رہا۔ اس روایت کے تحت برصغیر کی کئی نامی گرامی شخصیات پر غداری کے مقدمات قائم ہوئے، اور ان کو اس جرم کی پاداش میں پابند سلاسل کیا جاتا رہا۔ جیل کے علاوہ غداری کے الزامات میں سیاسی کارکنوں کو کالا پانی میں جلا وطنی کی سزائیں بھی دی جاتی رہیں۔
پاکستان کے قیام کے بعد بد قسمتی سے انگریزوں کے قائم کردہ بہت سارے قوانین اور روایات قائم رہیں۔ سیاسی رہنمائوں پر غداری کے الزامات لگاتے جاتے رہے۔ پاکستان میں پہلے غدار حسین شہید سہروردی ٹھہرے۔ سہروردی قیام پاکستان سے پہلے مسلم لیگ کے ایک بڑے سیاست دان تھے۔ تقسیم کے وقت بنگال کے وزیر اعلیٰ رہے تھے۔ مشرقی بنگال کو پاکستان میں شامل کرنے کا سہرا انہی کے سر سجتا ہے۔ تقسیم کے بعد بنگال اور کلکتہ میں ہندو مسلم فسادات رکوانے کے لیے حسین شہید سہروردی تین ماہ تک موہن داس کرم چند گاندھی کے ساتھ رہے۔ پاکستان واپسی پر ان پر غداری کا الزام لگایا گیا، اور ان کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے خارج کر دیا گیا۔ غداری کے الزامات بھگتنے والوں کی طویل فہرست میں غلام مرتضیٰ شاہ سید اور خان عبدالغفار جیسے لوگ بھی شامل ہیں، جن کو غداری کے الزامات کے تحت طویل جیلیں کاٹنا پڑیں۔ خان عبدالغفار خان کا تعلق تو خیر خدائی خدمت گار تحریک سے تھا، اور تقسیم سے قبل وہ کانگرس کے قریب تھے‘ لیکن جی ایم سید 1943 میں آل انڈیا مسلم لیگ سندھ کے صدر تھے۔ اسمبلی کے منتخب ممبر کی حیثیت سے انہوں نے سندھ اسمبلی میں سندھ کو مجوزہ پاکستان میں شامل کرنے کی قرار داد پاس کروائی۔ سندھ کو پاکستان کا حصہ بنانے کا سہرا جی ایم سید کے سر باندھا جاتا ہے۔ آگے چل کر 1946 میں ان کو مسلم لیگ سے نکال دیا گیا۔ غداری کے الزامات میں انہوں نے سندھ کی جیلوں تیس سال گزارے ۔ ان بڑی معروف شخصیات کے علاوہ سیاسی پارٹیوں پر بھی ملک دشمنی کے الزامات لگتے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں نیشنل عوامی پارٹی کو ملک دشمن قرار دے کر غیر قانونی قرار دیا گیا۔ اس پارٹی نے اس وقت بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی اکثریتی نشستیں جیتی ہوئی تھیں۔ اس پارٹی کے رہنمائوں پر غداری کے الزامات لگائے گئے۔ ان نامور رہنمائوں میں نواب خیر بخش مری، خان عبدالولی خان، سردار عطااللہ مینگل، اور غوث بخش بزنجو شامل ہیں۔ اس سلسلے کی ایک المناک کڑی نواب اکبر بگٹی تھے۔ اکبر بگٹی نے 1947 میں بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ایک وزیر سے لے کر صوبے کے وزیر اعلیٰ اور گورنر تک جیسے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے لیکن 2006 میں ان پر غداری کا الزام لگا، جو ان کی موت پر منتج ہوا۔ غداری کے الزامات کا سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ پاکستان کی تاریخ میں بے شمار قابل احترام نام ہیں، جن پر یہ الزامات لگائے گئے۔ ان میں فاطمہ جناح، بے نظیر بھٹو، فیض احمد فیض‘ حبیب جالب بھی شامل ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے شہری حکومت کی وفاداری کے نہیں، بلکہ ریاست کی وفاداری کے پابند ہوتے ہیں۔ حکومت کی مخالفت کو غداری قرار دینا ایک غلط روایت ہے۔ ایسی روایات کا جمہوری حکومتوں میں جاری رہنا بڑی بد قسمتی کی بات ہے۔