اظہارِ رائے کا سوال پرانا ہے۔ اتنا ہی پرانا جتنی خود جمہوریت ہے‘ مگر پاکستان میں حزب اختلاف کے حالیہ جلسوں کے دوران اظہارِ رائے کی آزادی کا سوال ایک نئے طریقے سے سامنے آیا۔ اس دوران یہ بات واضح ہوئی کہ اگرچہ حکومت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے عام دھارے کے ذرائع ابلاغ کو مخصوص مواد نشر کرنے سے روک سکتی ہے‘ مگر اس پابندی سے اس مواد کی تشہیر کم نہیں ہوتی‘ بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے یہ تشہیر کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ یہ صورت حال دیکھ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب عام دھارے کے میڈیا پر حکومت کے کنٹرول کی کوئی منطق باقی ہے؟ اظہار رائے پر پابندی کا مقصد کسی خاص بات کو عام لوگوں تک پہنچنے سے روکنا ہے؛ تاہم اگر اس پابندی سے یہ بات عوام تک پہنچنے سے رکنے کے بجائے اور زیادہ زور و شور سے پھیلے تو گویا پابندی اپنا مقصد پورا کرنے میں ناکام ہے، جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اور اس پالیسی میں بنیادی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ روایتی طور پر جمہوریتیں اظہارِ رائے پر پابندی سے گریز ہی کرتی رہی ہیں۔
جمہوریتیں اظہارِ رائے کی آزادی سے نہیں ڈرتیں۔ سچی جمہوریتیں اظہارِ رائے کو عوام کی طاقت سمجھتی ہیں، اور عوام کی طاقت جمہوریت کی طاقت ہوتی ہے۔ خیالات کا کھلا اور آزادانہ اظہار جمہوریت کو مضبوط کرتا ہے۔ اس کو خوراک مہیا کرتا ہے۔ اس کے برعکس مطلق العنان آمریتیں آزادیٔ اظہارِ رائے کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ تصور کرتی ہے؛ چنانچہ ان کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کیا جائے، یا اس کی پالیسیوں کو اپنی مرضی کے مطابق تشکیل دیا جائے۔ اس طرح کی حکو متیں اپنے مخالفین کو کمزور کرنے کے لیے ان کی خفیہ نگرانی کرتی ہیں، ان پر سنسر شپ عائد کرتی ہیں، اور اطلاعات و معلومات کو اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر اپنی طاقت میں اضافے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔
بد قسمتی سے اس وقت دنیا بھر میں مطلق العنان حکومتیں طاقت حاصل کرتی جا رہی ہیں۔ یہ ہمارے زمانے کی نئی حقیقت ہے‘ مگر بد قسمتی سے ان حکومتوں نے اس حقیقت کا پورے طریقے سے ادراک نہیں کیا ہے کہ نئے زمانے کے تقاضے کیا ہیں، اور اظہارِ رائے کے باب میں نئی حقیقتیں کیا ہیں۔ انہوں نے ابھی تک یہ حقیقت بھی تسلیم نہیں کی کہ ہمارے دور میں بہت حد تک، اور مستقبل قریب میں مکمل طور پر، جمہوریت اور آمریت کی لڑائی روایتی طریقوں سے نہیں لڑی جائے گی۔ یہ لڑائی سمارٹ فونز، کمپیوٹرز اور اس طرح کے دوسرے آلات کی مدد سے سے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر پر لڑی جائے گی۔ اس لڑائی میں اظہارِ رائے پر روایتی طریقے سے پابندیاں لگانے والے ممالک کے لیے اپنے مقاصد میں کامیابی ایک دشوار کام اور سخت چیلنج ہو گا۔
اس وقت دنیا میں جمہوریتیں داخلی اور خارجی سطح پر سخت قسم کے دبائو کا شکار ہیں۔ داخلی سطح پر آمریت پسند قوتوں کا گٹھ جوڑ بڑھ رہا ہے۔ خارجی سطح پر دنیا میں طاقت کے بدلتے ہوئے توازن میں مطلق العنان قوتیں زیادہ جگہ گھیرتی جا رہی ہیں۔ اس صورت حال میں جمہوریت نئے مخمصے کا شکار ہے۔
جمہوریت پسند اور آمریت پسند قوتوں کے اس نئے مقابلے میں سٹیکس بہت زیادہ ہیں۔ دونوں طرف سے بہت کچھ دائو پر لگا ہے۔ اگر اس دوڑ میں آمریت پسند کامیاب ہوتے ہیں، تو ریاستوں کا انفارمیشن پر کنٹرول قائم ہو جائے گا، جس کے بعد وہ یہ طے کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں گی کہ ان کے شہری کس بات کو حقیقت سمجھتے ہیں اور کس چیز کو غیر حقیقی۔ اس سے دنیا میں طاقت کا توازن آمریت پسند حکومتوں کے حق میں ہو جائے گا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ ہماری دنیا بہت زیادہ مطلق العنانیت کی طرف بڑھے گی اور جمہوریت کمزور ہو گی۔
ایک کامیاب جمہوریت کو اپنے تسلسل اور بقا کے لئے آزادیٔ اظہارِ رائے کو بچاتے ہوئے ''انفارمیشن سپیس‘‘کا تحفظ کرنا پڑتا ہے۔ یہ وہ عالمی سپیس ہے، جس میں دنیا کی جمہوریت پسند اور آمریت پسند قوتیں زیادہ سے زیادہ جگہ لینے کے لیے تگ و دو میں ہوتی ہیں۔ یہ توازن اس وقت بگڑ رہا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ روس اور چین انفارمیشن کے نظام کو وقتی طور پر کامیاب ہوتی ہوئی حکمت عملی کا حصہ بنا چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی سرگرمیوں کو سائبر سپیس میں منظم کرنا شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے سائبر انفراسٹرکچر میں، اور انٹرنیٹ سروسز میں کمپیوٹر سسٹم کو جدید خطوط پر منظم کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انفارمیشن سپیس میں دونوں ملکوں نے ڈیٹا اور پبلک پرسیپشن کو منظم کرنے کے کامیاب تجربات کیے ہیں۔ اس وقت دونوں ملک سائبر سپیس میں اپنی خود مختاری پر زور دے رہے ہیں‘ جس کا اصل مقصد دراصل اپنی سرحدوں کے اندر انفارمیشن کی گردش کو کنٹرول کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خارجی سطح پر بھی انفارمیشن کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دونوں ملک مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں بھی بڑا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کے مستقبل کی جیو پولیٹیکل ماحول میں اہم کردار ادا کرے گی۔
آمریت پسندوں کی طرف سے انفارمیشن کو ''مینیپولیٹ‘‘ کرنے کا ایک واضح مقصد یہ ہے کہ دنیا میں یہ تاثر قائم کیا جائے کہ دنیا بھر میں جمہوریت نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ تاثر قائم کرنے کی وجہ سے جمہوری حکومت پر بھروسہ اور اس کے ساتھ عوام کے رشتے کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس وقت دنیا میں انتہا پسندانہ نظریات اور نت نئی کانسپیریسی تھیوریز پیش کی جاتی ہیں، جن میں جمہوری اداروں کے بارے میں شک و شبے کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لئے صرف سوشل میڈیا ہی نہیں، بلکہ کچھ ممالک میں ریاستی سرپرستی میں عام دھارے کا میڈیا بھی استعمال ہو رہا ہے۔
اس صورت حال کی ایک کلاسیکل مثال کچھ عرصہ قبل انگلستان میں ایک روسی انٹیلی جنس افسر اور اس کی بیٹی کو زہر دینے کا واقعہ ہے۔ یہ واقعہ سوشل میڈیا پر اس طرح پیش کیا جا رہا تھا جیسے اس کے ذمہ دار روسی حکام ہیں، جس کے جواب میں روسی حکام نے ٹویٹر اور دوسرے سوشل میڈیا کے ذریعے اس خیال کو بڑے پیمانے پر پھیلایا ہے کہ اس واقعے کے پیچھے کئی دوسری قوتیں ہو سکتی ہیں، جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس واقعے کے اصل ذمہ داران کی شناخت اور ان کو تلاش کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔ اس طرح حکومتیں میڈیا کو اپنے بیانیے کی تائید کے لیے استعمال کرتی ہیں، اور عوام میں اپنا بیانیہ عام کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
اسی طرح اس وقت دنیا میں ریاستوں کے سرکاری سطح پر بیانیہ تخلیق کرنے کا عمل زور پکڑ چکا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے بیانیے کو محدود کرنے کی حکمت عملی پر بھی کام ہو رہا ہے، جس سے حکومتوں کے مفادات پر ضرب پڑتی ہو۔ پاکستان میں عام دھارے کے میڈیا کا طرز عمل اس کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔