"FBC" (space) message & send to 7575

ہمارے اندر کا عفریت کیا ہے؟

وبا کے اس عہد میں ہمارا مقابلہ کس سے ہے؟ کیا یہ انسانیت اور وائرس کے درمیان مقابلہ ہے یا ہمارا مقابلہ خود اپنے آپ سے ہے؟ اپنے اندر چھپے ہوئے خوفناک عفریت سے ہے۔ وبا کے اس بحران کے بعد اس کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کے پاس صرف دو راستے ہیں۔ ایک‘ عطائے اختیار کا راستہ۔ یہ وہ راستہ ہے، جس پہ چل کے ہم شہریوں کو ان کا اختیار دے سکتے ہیں۔ ان کو ان کے مقدر کا مالک بنا سکتے ہیں۔ یہ جمہوریت کا راستہ ہے۔ دوسرا راستہ تحکم پسندی کا راستہ ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم مطلق العنانیت اور آمریت پسندی کی طرف جا سکتے ہیں۔ یہ شخصی حکمرانی اور مطلق العنانیت کا راستہ ہے۔ اب یہ طے کرنا ہمارا کام ہے کہ ہم نے ان دو راستوں میں سے کس کا انتخاب کرنا ہے۔ یہ دیکھنا‘ پرکھنا اور آنکنا ہے کہ ان دونوں راستوں میں سے کون سا راستہ ہمارے لئے بہتر رہے گا۔ یہ اندازہ لگانا ہے کہ کس راستے پر چل کر ہم کامیابیوں سے ہمکنار ہو سکتے ہیں‘ آسانی کے ساتھ ترقی کی منزلیں طے کر سکتے ہیں اور ایک آسودہ‘ آرام دہ اور خوش حال زندگی گزار سکتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ممتاز دانشور یووال نوحہ حریری نے یونانی وزیراعظم کے ساتھ ایک مذاکرے میں اس پیچیدہ سوال کا آسان جواب دینے کی کوشش کی۔ حریری کے خیال میں بحران کے بعد ریاستوں کے اندر داخلی سطح پر ہمیں جمہوریت اور شخصی حکمرانی کے درمیان انتخاب کا سوال در پیش ہے۔ خارجی سطح پر بھی ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ ایک محبت، بھائی چارے اور پُر امن بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت باہمی تعاون کا راستہ ہے۔ دوسرا نفرت اور تنگ نظری کا راستہ ہے۔ اس راستے پر چل کر ہم دنیا میں نفرت اور تنگ نظر قوم پرستی کا ماحول پیدا کر سکتے ہیں۔ دونوں میں سے کسی بھی راستے کا انتخاب کرنے سے پہلے ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ دنیا میں نا معقولیت اور بے وقوفی کی طاقت کا غلط اندازہ نہیں لگانا چاہیے، کیونکہ بے وقوفی کی وجہ سے دنیا میں بے شمار خوفناک قسم کے بحران پیدا ہوئے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم اس دنیا کو بحران کے تناظر میں کس طرح تشکیل کرنا چاہتے ہیں۔ آج سے پچاس سال بعد آنے والے لوگ جب تاریخ پڑھیں گے تو وہ دیکھ سکیں گے کہ کس طرح وبا کی آڑ میں آمریت پسند قوتوں نے بحران کا فائدہ اٹھا کر اپنی آمرانہ پالیسیاں دنیا پر مسلط کی تھیں‘ یا کس طرح جمہوریت کی از سر نو تشکیل کی گئی تھی‘ لیکن آج ہم جب جمہوریت کی طرف دیکھتے ہیں تو یہ بہت زیادہ کمزور نظر آتی ہے۔ یہ ایک ایسا پھول ہے، جس کو اگانے کے لیے ایک خاص قسم کے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ جمہوریت کوئی خود رو قسم کی گھاس یا بوٹی نہیں ہے جو ہر جگہ پر لگائی جا سکتی ہو۔ دو ہزار پانچ سو سال پہلے جب یونان میں جمہوریت کا پودا لگایا گیا تو یہ صرف دو سو سال تک ہرا بھرا رہا‘ پھر یہ سوکھ گیا۔ اس کے بعد دو ہزار سال تک اس سرزمین پر غیر ملکی طاقتوں کی حکمرانی رہی۔ یہاں آمریت مسلط کی جاتی رہی۔ یہاں دوبارہ جمہوریت کی تعمیر ایک مشکل کام تھا۔ آج جب وبا کے تناطر میں ہم مغرب کی طرف دیکھتے ہیں تو یورپ نے وبا کے خلاف بہت ہی مثبت رد عمل دیا ہے، لیکن جب ہم ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا اس تناظر میں کردار دیکھتے ہیں تو مختلف صورت نظر آتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ وبا کے دوران وہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہیں، جو ہر بڑے بحران میں ان کا خاصہ رہا ہے۔ ماضی کے بحرانوں میں امریکہ کا کردار مختلف رہا‘ لیکن اب کی بار امریکہ نے دنیا کو بتانا شروع کر دیا کہ تم اپنے معاملات خود دیکھو۔ 
جس طریقے سے یہ وبا دنیا کو تبدیل کر رہی ہے، وہ نا قابل یقین ہے۔ اپنی یونیورسٹیوں میں برس ہا برس سے یہ گفتگو کر رہے ہیں کہ ہم اپنے نظام کو کس طریقے سے آن لائن کر سکتے ہیں‘ لیکن اس خواہش کے باوجود ہم اس سلسلے میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں کر سکے۔ لیکن وبا کی آمد کے فوراً بعد صرف پندرہ دن کے اندر ہم نے یہ بڑا فاصلہ طے کر لیا اور یونیورسٹی کا سارا نظام آن لائن چلا گیا۔
وبا کے بحران کے بعد جن ملکوں کے پاس بہت زیادہ دولت ہے، وہ نئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں‘ لیکن جن غریب ممالک کے پاس اتنے زیادہ وسائل نہیں ہیں‘ ان کے پاس کیا متبادل موجود ہے؟ ان کا مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ وبا کے بعد وہاں پر بے روزگاری پھیل جائے گی، بلکہ ان کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہو گا کہ وہ اس بے روزگار طبقے کا کیا کریں گے، جو وبا کے بعد ابھرے گا۔ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ ان کی اس طریقے سے تربیت کر سکیں کہ وہ نئی معیشت کے اندر با مقصد روزگار تلاش کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔
یورپی یونین کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ یونین کے اندر موجود غریب ملکوں کی مدد کر سکیں، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جو دوسرے ممالک ہیں، خواہ وہ مشرق وسطیٰ میں ہوں‘ لاطینی امریکا میں یا افریقہ میں، ان کی کون مدد کرے گا۔ یہ ملک بحران سے نہیں نکلیں گے تو پھر دنیا کا نظام کیسے چل سکے گا؟ اس صورت میں نقل مکانی اور امیگریشن کی وجہ سے دنیا بہت بڑی افراتفری کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس طرح جو ملک امیگریشن کے حوالے سے فرنٹ لائن پر ہیں، جن میں یونان، سپین، پرتگال وغیرہ شامل ہیں، ان کو یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ اس وقت مصر یا شام میں کیا ہو رہا ہے، اور جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے نتیجے میں لوگوں کی کتنی بڑی تعداد یورپ کا رخ کر رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ خوشحال ممالک کی جانب سے وبا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے سلسلے میں غریب ملکوں کی امداد خود ان کے اپنے حق میں بہتر ہے کہ اس طرح یہ ممالک اپنے طور پر سنبھلنے کے قابل ہو جائیں گے' اپنی معیشت کو بہتر بنا سکیں گے اور امیر ممالک پر مستقل بوجھ نہیں بنیں گے۔ 
معاشی میدان میں سب سے بڑی تشویشناک بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا کے پاس بحیثیت مجموعی کوئی معاشی پروگرام نہیں ہے۔ ہم اپنے مسائل کو مقامی اور علاقائی سطح پر حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کوئی عالمی سطح پر نہیں سوچ رہا ہے۔ سب انفرادی سطح پہ سوچ رہے ہیں جبکہ وبا کے نتیجے میں سر اٹھانے والے معاشی و اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔
ہمارے دور میں امپائر کی ضرورت نہیں ہے۔ فوجیں بھیجنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ڈیجیٹل امپائر کا زمانہ ہے۔ ڈیجیٹل امپائر کیلئے دوسرے ملکوں کے ڈیٹا تک رسائی کافی ہے۔ ڈیجیٹل امپیریل ازم ہمارے زمانے کی نئی حقیقت ہے۔ یہی بات جمہوریت پر صادر ہوتی ہے۔ جمہوریت کو بھی نئے دور کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم ابھی تک پرانے فلسفے اور نظریات پر گزارہ کررہے ہیں۔ ہم ارسطو، افلاطون اور کانٹ کے نظریات اور فلسفیانہ خیالات کی روشنی میں بات کررہے ہیں‘ لیکن ان فلسفیوں اور دانشوروں کو مشین اور ''کمپیوٹر ہیکنگ‘‘ کے ساتھ واسطہ نہیں پڑا تھا۔ مشین کے دور میں جمہوریت کو ازسرِنو دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی فائدہ ہے جمہوریت کا کہ جمہوریت غلطیوں کو تسلیم کرکے ان کو درست کرسکتی ہے۔ اس میں زیادہ لچک اور گنجائش ہوتی ہے۔ جمہوریت میں غلطی کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ اس کو درست کرنے کے طریقے ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ آمریتوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں