چین اور امریکہ کے مابین سرد جنگ ایک نئے مراحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اس امر کا اظہار آئے دن دونوں کے پالیسی ساز اداروں کے خیالات و بیانات سے ہوتا ہے۔ اب اس سلسلے میں آئے روز ایسی پالیسی دستاویزات بھی سامنے آ رہی ہیں، جن سے صورت حال کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے۔ اسی سلسلے میں امریکہ کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ماہ رواں میں بھی ایک ان کلاسیفائیڈ دستاویز منظر عام پر لایا ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک تفصیلی پالیسی پیپر ہے۔ اس دستاویز میں خبردار کیا گیا ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کا حتمی مقصد دنیا سے امریکہ کا بطور سپر پاور خاتمہ اور اس کے مقابلے میں چین کو بطور ایمپائر دنیا کے سامنے لانا ہے۔
اس پالیسی پیپر میں اس طرح کی مثالیں دی گئی ہیں، جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی اور حکمران اشرافیہ اس مقصد کے حصول کے لیے ایسے ذرائع استعمال کر رہی ہیں، جن کو مغرب میں غیر اخلاقی اور بد اطواری سمجھا جاتا ہے۔ پالیسی پیپر کا بیان کردہ مقصد اس پیپر کے ذریعے امریکی قیادت کو وہ اہم معلومات فراہم کرنا ہے، جن کو سامنے رکھتے ہوئے وہ مستقبل میں چین کے ساتھ ساتھ اپنی پالیسی کے خد و خال طے کر سکیں۔
جہاں تک چین کے اندرونی معاملات کا تعلق ہے، اس بارے میں پیپر کہتا ہے کہ چین اپنے داخلی معاملات پرگرفت بہت مضبوط کر چکا ہے۔ داخلی سطح پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے چین نے جدید ترین طریقے اختیار کیے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ڈیجیٹل سرویلینس کا طریقہ استعمال کیا ہے۔ یہ ڈیجیٹل سرویلنیس ایک مربوط نظام کا حصہ ہے، جس کے ذریعے عام شہریوں اور مطلوبہ افراد کی نقل و حرکت، سرگرمیوں اور خیالات پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ اس سرویلینس کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں عام آبادی پر سخت قسم کی پابندیاں اور ڈسپلن نافذ کیا گیا ہے، جس کے تحت عام آبادی کے نظریات، خیالات اور طرزِ زندگی پر اثر انداز ہوا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے بہت ہی جدید قسم کی ٹیکنالوجی کا استعمال ہو رہا ہے، جس کے ذریعے نہ صرف یہ کہ چین کے اندر اپنی آبادی بلکہ عالمی سطح پر رائے عامہ کے بارے میں معلومات بھی حاصل کی جا سکتی ہے، اس رائے عامہ کو متاثر بھی کیا جا سکتا ہے۔
اس دستاویز میں چین کی گرد و نواح کے علاقوں میں سرگرمیوں اور ہمسایوں کے ساتھ سلوک پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے مطابق چین نے سائوتھ چائنہ سمندر سمیت بین الاقوامی قوانین طور پر دلچسپی کے حامل اور متنازعہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر اپنی فوج میں اضافہ کیا ہے۔ اسی طرح عالمی رائے عامہ کو نظر انداز کیا اور عالمی وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہوئے ہانگ کانگ میں اپنے من پسند اقدامات کیے ہیں۔
یہ دستاویز چین کی خارجہ پالیسی کو اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی عکاس قرار دیتی ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبے کا نام لیے بغیر یہ وضاحت کی گئی ہے کہ چین کے دوسرے ممالک کے ساتھ ترقیاتی اور تعمیراتی منصوبے کس طرح اس کی توسیع پسندی کے عزائم کا اظہار ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل کے مطابق چین کی کمیونسٹ پارٹی نے دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر کی ایک بہت بڑی انڈر ٹیکنگ لی ہے۔ اس کے لیے گیٹ ٹریک ڈپلومیسی کا راستہ اختیار کیا ہے، اور ایسی معاشی پالیسیاں اختیار کی ہیں، جن کے تحت خود مختار ریاستوں کو اپنے حصار کے اندر لایا جا سکتا ہے‘ اور اس مقصد کے لیے زیادہ سے زیادہ توجہ دوسرے ممالک کی حکمران اشرافیہ اور بزنس اشرافیہ پر دی جا رہی ہے تاکہ وہ اس مقصد کے لیے چین کی مدد کر سکیں۔
دستاویز میں 2013 کے اعلان کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں چینی لیڈرشپ نے ایک ایسے سوشلزم کو تعمیر کرنے کا دعویٰ کیا تھا‘ جو سرمایہ داری نظام سے بہتر ہے اور ایسے مستقبل کی بنیاد رکھنے کا دعویٰ کیا تھا، جس میں دنیا میں ان کی برتری ہو گی۔
دستاویز میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ پارٹی کے اندر سخت قسم کا ڈسپلن ہے، اور پارٹی بہت ہی ٹھوس سائنسی بنیادوں پر منظم ہے جس کا واضح مقصد دنیا میں امریکہ کی بڑی سپر پاور کی حیثیت کو بدل کر پارٹی کے خیالات کے مطابق ایک نئی ایمپائر کی تعمیر ہے۔ امریکی دستاویز کے مطابق اس خاص قسم کی توسیع پسندی کے لیے پارٹی بہت زیادہ غیر منصفانہ اور ناجائز ذرائع استعمال کر رہی ہے‘ اور مقاصد کے حصول کے لیے ہر قسم کے اخلاقی یا غیر اخلاقی ذرائع کا استعمال کیا جاتا ہے، جن کے ذریعے امریکہ اور دوسری جدید انڈسٹریل اقوام کے مقابلے میں فائدہ حاصل کیا جا سکے۔
اس دستاویز میں چین پر دوسری اقوام کے وسائل سے نا جائز استفادہ کرنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں جن چیزوں کی نشان دہی کی گئی ہے ان میں ایک انٹلیکچوئل پراپرٹی کے حقوق ہیں۔ دستاویز کے مطابق چین عالمی سطح پر تسلیم شدہ انٹلیکچوئل پراپرٹی حقوق کی پروا کیے بغیر ان تک رسائی حاصل کر کے ان سے استفادہ کرتا ہے۔
دستاویز کے مطابق دوسرا بڑا الزام تجارتی رازوں تک رسائی اور ان کا غیر قانونی استعمال ہے۔ اس کے علاوہ وہ مختلف یونیورسٹیز کا ریسرچ ورک، امریکا اور روس سمیت دوسری مغربی اقوام کے ڈیفنس سیکٹرز کے رازوں تک رسائی حاصل کرتا اور ان کا استعمال بھی کرتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک بڑا الزام جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے معاشی اور صنعتی جاسوسی کی سرگرمیاں ہیں جن کی وجہ سے امریکہ کو 600 بلین ڈالر سالانہ نقصان ہوتا ہے۔ دستاویز کے مطابق چین عالمی منڈی میں سپلائی اور ترسیل پر کنٹرول حاصل کر رہا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ عالمی صنعت پر غلبے کا خواہش مند بھی ہے۔ ہائی ٹیک صنعت کے میدان کے حوالے سے مذکورہ پیپر یہ تسلیم کرتا ہے کہ امریکہ چین کے مقابلے میں قریب قریب اپنی شکست تسلیم کر چکا ہے۔
دستاویز میں یہ بھی بتایا گیاہے کہ ٹیلی کمیونی کیشن اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کے میدان میں چین ففتھ جنریشن کے دور میں ہے اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا مقصد چینی کمپنیوں کے لیے بیرونی منڈیاں کھولنا اور ان کی سیاسی اور معاشی اشرافیہ کو چین کے جیو پولیٹیکل مدار کے اندر لانا ہے۔
آخر میں پیپر کے مطابق چین دنیا کی لبرل جمہوریت اور کھلے پن کو استعمال کر کے فائدہ اٹھاتا ہے۔ دستاویز کے مطابق چین کسی قسم کی انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی پروا نہ کرتے ہوئے عالمی سطح پر وسیع معاشی مفاد حاصل کر رہا ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ ان کلاسیفائڈ دستاویز چین کے خلاف ایک باقاعدہ ''چارج شیٹ‘‘ہے۔ اگرچہ اس دستاویز میں لگائے گئے الزامات میں سے کوئی ایک الزام بھی نیا نہیں ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران یہ الزامات مختلف شکلوں اور الگ الفاظ میں دہرائے جاتے رہے ہیں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اور حکمران اشرافیہ بھی مختلف فورمز پر ان الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کی کئی دستاویزات میں ان الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا گیا ہے۔ بہرحال اس امریکی دستاویز سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ چین کے بارے میں کیا سوچ رکھتا ہے اور نئی امریکی قیادت سے چین کے حوالے سے کیسی پالیسیوں کا خواہش مند ہے۔