یہ سال دو ہزار گیارہ کا موسم سرما تھا۔ عرب دنیا میں جا بجا سیاسی بے چینی بڑھ رہی تھی اور ہنگامے پھیل رہے تھے۔ ان ہنگاموں کا آغاز اس وقت ہوا تھا، جب تیونس کے ایک تعلیم یافتہ ریڑھی بان محمد بوعزیزی نے احتجاجاً خود کو آگ لگا لی تھی۔ 26 سالہ محمد بوعزیزی کا تعلق متوسط طبقے سے تھا۔ وہ دیہی علاقے سیدی بوزید میں رہائش پذیر تھا۔ وہ سبزیاں اور پھل بیچ کر خاندان کی ضروریات پوری کرتا تھا۔17 دسمبر 2010 کو پولیس نے محمد بوعزیزی کی ریڑھی اور فروخت کا سامان ضبط کر لیا۔ حکام کے اس رویے کے خلاف احتجاجاً اس نے خود کو آگ لگا لی۔ اس واقعے کے بعد فسادات پھوٹ پڑے، جس نے جلد ہی تیونس، مصر اور لیبیا کے رہنماؤں کو گرا دیا۔ مغربی میڈیا نے جلد بازی میں عرب دنیا میں رونما ہونے والے ان ہنگامہ خیز واقعات کو عرب بہار کا غلط نام دے دیا حالانکہ اس کے پس منظر کی کہانی خزاں کی سی کیفیت والی تھی۔
اس سے کچھ عرصہ پہلے معمر قذافی نے قومی ٹی وی پر کہا تھا:کشتیوں کو فلسطینیوں تک لے جانا چاہئے، اور مسئلہ حل ہونے تک فلسطینی ساحلوں پر انتظار کرنا چاہئے کیونکہ ہمیں دنیا کیلئے ایک مسئلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے‘ یہ جنگ کا اعلان نہیں امن کی پکار ہے۔ اسی طرح شام کے صدر بشارالاسد نے اپنے ملک میں ہنگامے شروع ہونے سے کچھ عرصہ قبل وال سٹریٹ جرنل کو بتایا تھا کہ شام مستحکم ہے اور وہ گرتے ہوئے حسنی مبارک کے برعکس اسرائیل کا مقابلہ کر رہا ہے۔ اسی طرح یمن کے علی عبداللہ صالح نے وفاداروں کے ایک ہجوم سے کہا تھا: میں ایک راز فاش کرنے جا رہا ہوں‘ تل ابیب میں ایک آپریشن روم ہے، جس کا کام عرب دنیا کو غیر مستحکم کرنا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسے بیانات کے ذریعے بعض عرب لیڈر گفتگو کا موضوع تبدیل کرنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ موضوعِ بحث عرب عوام کی حکمرانوں سے مایوسی اور غصے کے بجائے اسرائیل اور اس کی جارحیت بن جائے۔ بد قسمتی سے ان ہنگاموں‘ جن پر وقت سے بہت پہلے ہی جمہوریت کی فتح اور عرب بہار کا جشن منا لیا گیا تھا، نے صرف سیاسی رجعت پسندی، مذہبی رد عمل اور بین الاقوامی سانحات کو جنم دیا۔ حقیقی دنیا میں اس عرب بہار کے نتیجے میں صرف اکیلے تیونس میں ہی جمہوریت آ سکی۔ اس کے بر عکس اس بہار نے خطے کے متعدد ملکوں میں خانہ جنگی کو جنم دیا، جس میں ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ افراد مارے گئے۔
بد قسمتی سے اس سماجی اور سیاسی احتجاج کو شدت پسندوں نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ انہوں نے جلد ہی مصر کی ایک اقلیت پر حملہ کیا، اور پھر شام اور یمن کو بدنام کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔
اس عرب بہار نے خطے سے باہر بھی اثرات مرتب کیے۔ اس نے یورپی یونین کو ہلا ڈالا۔ مہاجرین کے ایک بہت بڑے ریلے نے برطانوی لوگوں کو خوف زدہ کر دیا، اور اس کے رد عمل میں انہوں نے بریگزٹ کے حق میں ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔
دوسرا کام یہ ہوا کہ شام تین حصوں میں بٹ کر غیر ملکی طاقتوں کے لئے میدان جنگ بن گیا۔ اس کا شمالی حصہ ترک فوج کے پاس چلا گیا، مغربی حصہ روسی فضائیہ کے زیر تسلط آ گیا اور اس کے دور افتادہ پسماندہ مقامات ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کے ہاتھ لگ گئے۔
کہا یہ جاتا ہے کہ عرب بہار کی بنیادی وجہ غربت اور معاشی نا ہمواریاں تھیں مگر بد قسمتی سے اس بہار کے بعد کے معاشی و سماجی مسائل پہلے سے بد تر ہو گئے۔ شام‘ لیبیا اور یمن ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے‘ اور لبنان معاشی خود کشی پر مجبور ہو گیا۔
اس معاشی تباہی اور معاشرتی مایوسی کو روکا جا سکتا تھا، اگر عرب لیڈر وہ مشورے مان لیتے جو ان کے دانش مند افراد ان کو انیس سو نوے کی دہائی سے دے رہے تھے۔ یہ دانش ور عرب رہنمائوں کی توجہ صنعتی پیداوار اور فوجی اخراجات کے مابین عدم توازن کی طرف دلا رہے تھے۔ یہ اسرائیل سے تعلقات درست کر کے خطے کی حکومتوں سے دفاعی بجٹ میں کمی کا مطالبہ کر رہے تھے اور پورے مشرق وسطیٰ کی معیشتوں کو یورپی یونین اور شمالی امریکہ کے آزاد تجارتی ایسوسی ایشنز کے ماڈل کے طرز پر مربوط کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ وہ ایک ایسے مشترکہ مشرق وسطیٰ کی تشکیل کا مطالبہ کر رہے تھے، جس میں سامان تجارت ہو اور مزدوروں اور سرمائے کی آزادانہ نقل و حرکت ہو۔ جہاں اس خطے کو علاقائی شاہراہوں اور تیز رفتار ٹرینوں کے ذریعہ جوڑ دیا گیا ہو۔ اس میں مشترکہ ہوائی اڈے، بجلی گھر اور الیکٹرک گرڈ ہوں، جن کی مدد سے پورے مشرق وسطیٰ کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں، اور لاکھوں افراد غربت کی دلدل سے نکل کر خوش حالی کی طرف آئیں۔
بد قسمتی سے خطے کے رہنماؤں نے اس وژن کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ محسوس کیا اور اسے مسترد کر دیا۔ اس طرح اپنی پہلے سے رکی ہوئی معیشتوں کو مزید منجمد کر دیا‘ اور نتیجے کے طور پر ان رہنمائوں کو عوام کے بے پناہ سماجی غصے کا سامنا کرنا پڑا‘ مگر اب ان رہنماؤں کے جانشینوں کو اپنے بزرگوں کی غلطی کا احساس ہو رہا ہے۔اس احساس کا اظہار کرتے ہوئے سب سے زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کیا ہے۔ انہوں تسلیم کیا کہ ان کے ملک کا آمدنی کے واحد وسیلے کے طور پر تیل پر انحصار بہت بڑی لاپروائی ہے۔ اس احساس کا اظہار انہوں نے سعودی عرب کو صنعتی بنانے کیلئے ایک بلیو پرنٹ ''وژن 2030‘‘ پیش کر کے کیا۔
یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ اس منصوبے پر عمل درآمد کس طرح، کب اور کس حد تک ہو گا، لیکن اس کا راستہ وہی ہے جو جاپان ، ترکی اور ہندوستان جیسے روایتی معاشروں کو زرعی ماضی سے نکال کر صنعتی مستقبل کی طرف لے گیا۔
شہزادہ محمد جانتے ہیں کہ اگر ملک کی معیشت کو متنوع اور جدید نہیں بنایا گیا تو سعودی عوام کے حوالے سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس بدلتے ہوئے ماحول میں کچھ لیڈروں نے مشرق وسطیٰ اور اسرائیل کی یہودی ریاست کے مابین برف پگھلنے کی تحریک پیدا کی۔ جو حکومتیں اب تک اس رجحان میں شامل ہو چکی ہیں، وہ ایک طرح کی نہیں ہیں۔ اسرائیل کے بارے میں ہر ایک کا اپنا ایجنڈا اور اپنی الگ الگ ترجیحات ہیں۔ مثال کے طور پر سوڈان نے اسرائیل کے بارے میں اپنی پالیسی اس لیے بدلی کہ اسے قانونی حیثیت و جوازیت کی ضرورت تھی، جبکہ متحدہ عرب امارات کو کاروبار اور سرمایہ کاری میں دلچسپی تھی۔
ان اپنے اپنے ایجنڈوں کے باوجود، یروشلم کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والے تمام لیڈروں کے درمیان ایک مشترکہ بات ہے:وہ پوری طرح سے عرب عوام کی چیخ و پکار اور تشدد کو یاد کرتے ہیں‘ اور ان کو یاد ہے کہ کس طرح سے قذافی، اسد اور صالح نے عرب باغیوں کو یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ ان کا اصل اور بڑا مسئلہ عرب حکومت نہیں بلکہ اسرائیل کا وجود ہے‘ مگر وہ عرب عوام کے غصے کا رخ بدلنے میں ناکام رہے تھے۔
معمر قذافی کی ''لنچنگ‘‘کو یاد کرتے ہوئے وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں عرب عوام کو ایک نیا معاہدے کی پیشکش کرنا پڑے گا، جو ہر عرب شہری کو برابری کا موقع، تعلیم، خوش حالی، وقار اور امید دیتا ہو۔ ان کو احساس ہے کہ انہیں اپنی معیشت کو متنوع اور جدید بنانے کی ضرورت ہے۔ اسلحہ پر انحصار کم کرنے اور ہمسایوں سے تعلقات درست کرنے کی ضرورت ہے۔ گویا عرب دنیا سوچ بدل رہی ہے اور اسرائیل کے ساتھ نئے تعلقات عرب دنیا کی اس بدلتی ہوئی سوچ کا اظہار ہیں۔