ہم سوشل میڈیا کے دور کے لوگ ہیں۔ ہماری معلومات کا اہم ترین ذریعہ سوشل میڈیا بنتا جا رہا ہے۔ صرف معلومات ہی نہیں، ہمارے نظریات و افکار کی تشکیل میں بھی سوشل میڈیا اہم کردارا دا کرنا شروع ہو گیا ہے۔ معلومات حاصل کرنے اور نظریات کی تشکیل کا یہ بہت آسان، تیز رفتار اور سستا طریقہ ہے‘ مگر اس میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ معلومات جو ہم سوشل میڈیا سے حاصل کرتے ہیں‘ بڑی حد تک ادھوری اور یکطرفہ ہیں۔ سطحی، ناقص اور ناقابل اعتبار ہیں۔ ایسی معلومات کی بنیاد پر تشکیل پانے والے خیالات و نظریات کی کیا صورت گری ہو گی؟ یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ نتیجتاً ہم کج فہمی اور نظریاتی کنفیوژن کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہمارے ارد گرد نظریاتی انارکی پھیل رہی ہے۔ ہم جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹا نقصان اٹھا رہے ہیں؛ چنانچہ ضروری ہے کہ سوشل میڈیا سے کچھ وقت نکال کر سنجیدہ اور مستند لٹریچر کو معلومات کی بنیاد بنایا جائے۔ اچھے کام کا آغاز ہمیشہ انسان کو اپنے آپ سے کرنا چاہیے؛ چنانچہ جدید ٹیکنالوجی اور کتاب کا آپس میں رشتہ جوڑنے کے لیے ہم چند احباب نے فیصلہ کیا ہے کہ انفرادی طور پر کتاب پڑھنے کے بجائے ''زوم‘‘ کے ذریعے محفل سجا کر اجتماعی طور پرکتابیں پڑھی جائیں اور ان پر سنجیدہ گفتگو بھی کی جائے‘ یعنی جو روایتی ''بک کلب‘‘ ہوا کرتا تھا اس کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے آن لائن کر دیا جائے۔ اس عمل کی بیک وقت کئی برکات ہیں۔ اس سے کتاب پڑھنے، پرانے سماجی تعلقات بحال کرنے یا نئے سماجی تعلق قائم کرنے اور جدید ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال کی راہ نکلتی ہے۔ اس سے ایک سٹڈی سرکل بھی قائم ہوتا ہے، اور سنجیدہ مکالمے کا آغاز بھی ہوتا ہے۔ اس سلسلۂ عمل کو ہم نے بہت بنیادی سطح پر شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کھلا فورم ہے۔ 'صلائے عام ہے یارانِ نکتہ دان کے لئے‘ کے مصداق جو کوئی چاہے ''زوم‘‘ کے ذریعے اس عمل میں شریک ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے بہت ابتدا سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ تاریخ کے کسی دور میں لکھی گئی کوئی بھی قابل ذکر کتاب اس گفتگو سے باہر نہ رہ جائے۔ اس سلسلے میں پہلی کتاب جو ہم نے مطالعے اور گفتگو کے لیے منتخب کی وہ ''دی ریپبلک‘‘ یعنی جمہوریہ ہے۔ افلاطون کی کتاب ''جمہوریہ‘‘ ایک مکالمہ ہے۔ یہ انصاف پسند شہری اور یونان کی قدیم شہری ریاست سے متعلق ہے۔ یہ مکالمہ 380 قبل مسیح میں لکھا گیا تھا۔ یہ مکالمہ مصنف کی سب سے زیادہ مشہور تحریر ہے۔ اتنا وقت گزرنے کے بعد یہ کتاب موجودہ حالات میں غیر متعلق ہونے کے بجائے سیاسی نظریے اور فلسفے کی ایک انتہائی اہم دستاویز بن گئی ہے۔ اس کتاب میں موجود بہت سارے مباحث ہمارے دور میں بے معنی لگتے ہیں‘ اور بہت سارے مباحث کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم لوگ ابھی تک اسی قدیم یونانی دور میں زندہ ہیں۔ اور حیرت انگیز مادی ترقی کے باوجود کئی باتوں میں ذہنی طور پہ وہیں کھڑے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت، انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور سماجی انصاف کے باب میں ہونے والی گفتگو اس قدیم مکالمے سے ملتی جلتی ہے۔
مکالمہ میں سقراط نے ایتھنز کے لوگوں اور وقت کے مشہور فلسفیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اس وقت کے حکمرانوں اور بعد ازاں آنے والے حکمران طبقات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ اس نے فلسفی بادشاہ کے زیراقتدار شہری ریاست کی تشکیل پر تبادلہ خیال کیا ہے‘ اور اس معاشرے میں فلسفے اور شاعری کے کردار پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
سقراط فلسفیوں کے ایک گروپ کے ساتھ انصاف کے معنی پر گفتگو کرتا ہے۔ اس گروپ میں موجود ایک فلسفی کا کہنا ہے کہ انصاف سچائی کے سوا کچھ نہیں‘ اور دوسرے فلسفی کہتے ہیں کہ سب کچھ‘ جو کسی کی وجہ سے آپ کے پاس ہے ‘لوٹانے کو انصاف کہا جاتا ہے۔ تیسرے فلسفی کے نزدیک انصاف سب سے زیادہ طاقتور طبقات کے فائدے کا نام ہے۔
سقراط وضاحت کرتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کس طرح غلط ہے اور یہ جاننے کے لئے سنجیدہ بحث شروع کرتا ہے کہ حقیقی انصاف کیا ہے؟ اور انصاف پسند ریاست وہ ہے جس میں لوگوں کی بنیادی ضروریات کے لیے سب کچھ مشترکہ ہو، تعلیم کا نظام ہو، اور شہر پر حکمرانی اور حفاظت کیلئے بہترین لوگوں کا انتخاب کیا جائے۔ شہر پر عقل و دانش کی حکمرانی ہو اور انسانی کی عقل ہی انسانی روح پر حکمرانی کرے۔
جمہوریہ کے اس مکالمے میں پانچ مختلف قسم کے نظام حکومت پر غور کیا جاتا ہے۔ یہ ارسٹوکریسی، ٹموکریسی، اولیگارکی، جمہوریت اور استبدادی آمرانہ نظام حکومت ہیں۔ ایک‘ ارسٹوکریسی یا اشرافیہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار لوگ قائدین کا کردار کرتے ہیں۔ وہ اپنی خواہشات کا پیچھا کرتے وقت عقل سے کام لیتے ہیں۔ اشرافیہ تین طبقوں پر مشتمل ہے: حکمران اشرافیہ کا طبقہ، جو دانشمند لوگوں پر مشتمل ہے۔ فوجیوں یا محافظوں کا طبقہ جو عموماً سپہ گری کا پیشہ اختیار کرتے ہیں‘ اور عوام پر مشتمل اکثریتی طبقہ بنی نوع انسان کی بنیادی خواہشات کی نمائندگی کرتا ہے۔
حکومت کی دوسری قسم ٹموکریسی ہے۔ ارسطو کے تصور سیاست میں ٹموکریسی میں صرف وہ لوگ حکومت کا حق رکھتے ہیں، جن کے پاس جائیداد اور املاک ہوں۔ اس نظام میں املاک عقل سے کہیں زیادہ قابل قدر ہوتی ہیں۔ ایسی حکومت میں طاقت کا سرچشمہ دولت ہوتی ہے۔ اس میں انسان کی سماجی اور شہری خدمات کے بجائے اس کی دولت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ٹموکریسی آگے چل کر پلوٹوکریسی بن جاتی ہے جس میں صرف دھن کا راج ہوتا ہے۔
تیسرا نظام حکومت اولیگارکی ہے۔ اولیگارکی میں مغلوب ترین طاقت دولت کی خواہش ہے۔یہ دولت برائے دولت کی دوڑ ہوتی ہے۔ اولیگارکی میں ایک محدود مراعات طبقے کی حکومت ہوتی ہے، جو بدعنوان اور خود غرض ہوتا ہے۔ ارسطو نے اولیگارکی اس نظام حکومت کو قرار دیا، جس میں بہترین لوگوں کے بجائے بدترین لوگوں کا غیرمنصفانہ راج قائم ہوتا ہے۔ اس طرح اولیگارکی ارسٹوکریسی کا الٹ ہے۔ کلاسیکل اولیگارکی کا قیام افراد کے ایسے محدود گروہ کرتے رہے، جو مذہب، معاشی مرتبے، وراثت یا مخصوص زبان کی بنیاد پر عام لوگوں کی نسبت زیادہ مراعات یافتہ ہوتے ہیں‘ اور یہ لوگ اپنے طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اس لیے کچھ لوگ اصرار کرتے ہیں کہ حکومت خواہ کسی قسم کی بھی ہو آخری تجزیے میں وہ چند لوگوں کے اختیار و مراعات کا نام ہے۔ رسمی طور پر خواہ حکومت کسی آمر کے پاس ہو، کسی بادشاہ کے پاس ہو، عوام کے پاس ہو یا پرولتاری کے پاس ہو اس پر اصل قبضہ اولیگارکی کا ہی ہوتا ہے۔ اسی صورت کو سامنے رکھتے ہوئے کارل مارکس اور فریڈرک انگلس نے اس بات پر اصرار کیا تھا کہ سرمایہ داری کی پوری تاریخ میں مٹھی بھر سرمایہ دار ہی حکومت کو کنٹرول کرتے رہے ہیں؛ چنانچہ ریاست استحصالی طبقے کی ''ایگزیکٹو کمیٹی‘‘ ہے۔
آگے چل کر یہ فلسفی جمہوریت پر بھی بات کرتے ہیں۔ جمہوریت ایک ایسی حکومت ہے جس میں اختلافات کی زیادہ صلاحیت موجود ہے۔ اس میں نمایاں تصور آزادی ہے۔ اس نظام کو پابندی قبول نہیں، جمہوریت میں، افراد کو اپنی انفرادی خواہشات کے حصول کی آزادی سب سے زیادہ اہم ہے۔ جمہوریت میں بنیادی طور پر عوام حکمرانوں پر حکمران ہوتے ہیں۔
ان دانشوروں کے خیال میں جمہوریت کے زوال کے بعد، ظلم کی ایک ریاست تشکیل پاتی ہے اور نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ظالم حکمران بدترین قسم کا انسان ہوتا ہے، کیونکہ وہ سراسر بے انصاف اور بدترین قسم کی حکومت کا رہنما ہوتا ہے۔