گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ سفید فام نوآبادکار امریکہ کے ساتھ ساتھ میکسیکو کے علاقوں پر بھی قابض ہونا شروع ہو گئے تھے۔ ان علاقوں میں لوگوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا۔ عسکریت پسندی کو رواج دیا گیا۔ اٹھارہ سو چالیس کی امریکہ میکسیکو جنگ امریکی عسکریت پسندی کے نئے اور خوفناک نمونے سامنے لائی۔ امریکی حکومت بار بار جنگ شروع کرنے کا کوئی نیا بہانہ ڈھونڈتی رہی، اور پھر اس بہانے کو نئے علاقے اور نئے وسائل پر قابض ہونے کے لیے استعمال کرتی رہی۔
امریکی کی خانہ جنگی میں تاریخ نویسوں نے کئی سفید فام ہیرو تخلیق کیے۔ ان کے مطابق ان لوگوں نے وفاقی حکومت کو مداخلت کرنے اور غلامی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے پرآمادہ کیا‘ لیکن در حقیقت وفاقی حکومت کو عوام نے یہ کام کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اس مجبوری کے پس منظر میں امریکہ کے عام آدمی کی کئی نسلوں کی مسلسل جدوجہد اور بغاوتیں تھیں۔ اس مقصد کے لیے غلاموں نے کئی پُر امن اور پُر تشدد بغاوتیں کیں۔ خانہ جنگی کے بعد کے ابتدائی سالوں میں وفاقی حکومت نے جنوب میں افریقی نژاد امریکیوں کے لیے کچھ مالی اور فوجی مدد فراہم کی؛ تاہم اٹھارہ سو چھہتر کے بعد، وفاقی حکومت افریقی نژاد امریکیوں کی حمایت کرنے سے پیچھے ہٹ گئی اور اس کے بجائے کاروباری اشرافیہ کے مفادات کے ساتھ جڑ گئی۔ انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں تو وفاقی حکومت واضح طور پر کاروباری طبقات کی کھلی حمایت پر اتر آئی تھی۔
انیسویں صدی بھی بڑے پیمانے پر مزدوروں اور یونین کی سرگرمیوں کا زمانہ تھا۔ اس دور میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ قانون اور حکومت‘ دونوں عام امریکی کارکن کی حفاظت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ مزدوروں نے ہڑتال کی، سڑکوں پر احتجاج کیا، اور بہتر اُجرت اور کم وقت کا مطالبہ کیا۔ اس کے جواب میں، وفاقی حکومت نے بار بار ہڑتالیں ختم کرنے اور کاروبار کو معمول کے مطابق چلانے کے لیے فوج کی تعیناتی کرکے کاروباری اسٹیبلشمنٹ کے لیے اپنی حمایت کا کھلا مظاہرہ کیا۔ حکومت نے کبھی عام کارکن کی مدد کی بھی تو وہ مدد برائے نام اور دکھاوا تھی۔ اس مدد کے دوران اس نظام میں اصلاحات سے گریز کیا گیا۔ یہ امریکی عوام کی کسی بھی طرح کی مدد کیے بغیر انہیں جھوٹی تسلی دینے کے لیے وضع کیا گیا تھا۔ حکومت کے اس رویے کے خلاف ردعمل بہت سخت تھا۔ اس ردعمل کے نتیجے میں مزدور منظم ہونا شروع ہوئے۔ ان میں نظریاتی شعور پیدا ہوا۔ مزدوروں نے انارکیزم، سوشلزم اور کمیونزم کے نظریات کو اپنانا شروع کیا۔
اگلا اہم تاریخی واقعہ پہلی جنگ عظیم تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران امریکی حکومت نے اپنے غریب ترین شہریوں کو ایک ایسی لڑائی میں مرنے کے لیے بھیجا، جس کا ان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس نے اپنے شہریوں کو جنگ کے خلاف بولنے سے روکنے والے قوانین تشکیل دیئے۔ درحقیقت اس دور کے بہت سارے سوشلسٹ کارکن صرف یہ بتانے کی ہمت کرنے پر قید تھے کہ پہلی جنگ عظیم ایک کرپٹ اور سامراجی تصادم تھا۔ بڑے پیمانے پر افسردگی کے دوران وفاقی حکومت نے اپنی رجعت پسندانہ اور تسکین کی پالیسیوں کو جاری رکھا۔ اس نے کچھ ایسی پالیسیاں بھی اختیار کیں، جن سے مزدوروں کو تھوڑا بہت فائدہ ہوا، لیکن سرمایہ داری یا امریکی کاروباری طبقے کو چیلنج کرنے کے لیے کچھ نہ کیا جا سکا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ یہ جنگ اخلاقی وجوہات کی بنا پر لڑ رہا ہے اور اس کا واحد مقصد یورپ میں فاشزم کو ختم کرنا ہے‘ لیکن اصل میں اس نے دوسری جنگ عظیم میں اس لیے حصہ لیا تھا کہ وہ اس میں خود کو دنیا کی سرکردہ طاقت بنانے کا موقع دیکھ رہا تھا۔ جنگ ختم ہونے تک امریکہ پوری دنیا میں اپنے قدم جما چکا تھا۔ وہ اس بات کو یقینی بنا چکا تھاکہ اس کے کاروبار کو بیرون ملک آزادانہ تجارت کے حقوق حاصل ہوں گے۔ جنگ کا خاتمہ اس وقت ہوا جب امریکی حکومت نے جاپان میں ایٹم بم کا استعمال کیا، جس میں بڑی تعداد میں معصوم اور بے گناہ شہری ہلاک ہوئے۔ یہ فیصلہ شعوری طور پر دنیا کی ایک سپر پاور کی حیثیت سے امریکہ کی نئی حیثیت پر زور دینے کے لیے کیا گیا تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے اختتام اور سرد جنگ کے آغاز کے بعد امریکہ اور سوویت یونین کے مابین ایک طرح کا ''سٹینڈ آف‘‘ شروع ہو گیا۔ امریکی حکومت نے دنیا کی ایک اہم سپر پاور کو وارننگ دے کر امریکی عوام کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔ اس دہشت کو قائم رکھنے کے لیے حکومت نے پوری دنیا میں بغاوت اور دائیں بازو کی آمریتوں کے لیے مالی اعانت فراہم کرنا شروع کی، اکثر جمہوری طور پر منتخب سوشلسٹ رہنماؤں کا تختہ الٹا گیا۔ اس عمل کو جمہوریت کے تحفظ اور کمیونزم کے خلاف لڑائی قرار دیا گیا۔ حقیقت میں اس لڑائی کے ذریعے امریکی اسٹیبلشمنٹ اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ کی کوشش کر رہی تھی، اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی تھی کہ دنیا بھر کے رہنما امریکی کارپوریشنوں کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور ہوں۔
1960 کی دہائی کے دوران امریکہ کو ایک طرح کی انقلابی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگوں نے غریب طبقات کے حقوق، عام شہری حقوق، خواتین کے حقوق، ماحولیاتی تحفظ اور سینکڑوں دیگر انقلابی اور عوامی مقاصد کے لیے لڑائی شروع کی۔ بہت سارے معاملات میں حکومت کا عمل محض اصلاحات تک محدود تھا، جو اس مسئلے کی اصل وجوہات کو نہیں چھیڑتا تھا۔ مثال کے طور پر حکومت نے افریقی امریکیوں کے ووٹ ڈالنے کے حقوق کے تحفظ کے لیے ووٹنگ کے عمل میں اصلاح کی، لیکن اس بے تحاشا غربت اور نسل پرستی کے بارے میں کچھ نہیں کیا جس کا سامنا ہر روز بہت سے سیاہ فام لوگوں کو ہوتا تھا۔
ستر، اسّی اور نوے کی دہائی میں امریکہ میں شدت پسندی کا خاتمہ ہوتا دکھائی دے رہا تھا‘ لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ میڈیا نے عوامی مظاہروں کی اطلاع دینا ترک کر دیا تھا۔ دریں اثنا امریکی حکومتوں نے ریپبلکن اور ڈیموکریٹک سے قطع نظر ایک جیسا سیاسی ایجنڈا اختیار کر لیا تھا، جس کے تحت فلاح و بہبود پر خرچ کم کر دیا گیا اور فوجی بجٹ میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھی، امریکہ کا فوجی بجٹ بڑھتا ہی گیا۔ اس کے خلاف بڑا عوامی رد عمل ہوا۔ امریکیوں نے 1999 میں سیئٹل میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اجلاس کے خلاف احتجاج کے لیے ریکارڈ تعداد میں شمولیت اختیار کی، جو اس بات کا اشارہ تھا کہ امریکہ میں انقلابی سیاست ابھی بالکل مردہ نہیں ہوئی تھی۔
کتاب کے آخری باب میں ہاورڈ زن نے ''دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ پر لکھا ہے۔ اس جنگ کے دوران حکومت نے مشرقِ وسطیٰ میں فوجی دستے بھیجے تھے۔ ان دستوں کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ مسلم دہشت گردوں کا مقابلہ کریں گے‘ لیکن نتائج بالکل مختلف تھے۔ زن نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ابھی یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں امریکی عوام کا حتمی رد عمل کیا ہو گا۔ امریکی عوام کو یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اخلاقیات اور شائستگی کے ساتھ کھڑے ہیں یا وہ سامراج اور فوجی جارحیت کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ کتاب حکمران اشرافیہ اور سماج کے غالب طبقات کے مقابلے میں امریکی عوام کی تاریخ ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں تاریخ میں عوام کے کردار کو اجاگر کرنے کیلئے عوام کے نقطہ نظر سے تاریخ لکھنے کی ضرورت ہے۔ (ختم)