دانشوروں میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ دنیا میں لبرل ازم کا دور ختم ہو گیا ہے۔ اس کے خاتمے کی تاریخ پر اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن خود اس کے خاتمے پر اب کسی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔
مستقبل کے تاریخ دان جب لبرل ازم کے خاتمے کی تاریخ کا تعین کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ اس کے خاتمہ کی شروعات کی تاریخ سال2020 کا موسم بہار قرار دیں گے۔ یہ وہ نازک وقت تھا، جب دنیا کو اپنی تاریخ کے سب سے سنگین ترین بحران کا سامنا تھا‘ لیکن بد قسمتی سے اس سلسلے میں کوئی مشترکہ قدم تو ایک طرف‘ دنیا اس پر ایک مشترکہ بیان تک جاری کرنے سے بھی قاصر تھی۔ اس وقت دنیا میں صحت کا واحد مشترکہ پلیٹ فارم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن بھی اختلافات کا شکار ہو گیا تھا۔اس کے بعد کی افراتفری سے محض وہ گہرے اختلافات ابھر کر سامنے آ رہے تھے، جو ورلڈ آرڈر کے ٹوٹنے کے بعد دنیا میں گزشتہ دو دہائیوں سے موجود تھے، لیکن دنیا ان سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوئی تھی۔
ہماری اس جدید دنیا میں کئی مشترکہ قسم کے معاملات اور مسائل ہمیشہ سے موجود رہے ہیں، جن کو اختلافات کے باوجود ایک دوسرے سے جدا کرنا بہت مشکل رہا ہے۔ ان میں پبلک ہیلتھ، عالمی تجارت، انسانی حقوق اور ماحولیات سے جڑے مسائل شامل ہیں۔ یہ چار پانچ ایسے اہم معاملات ہیں، جو بہرحال دنیا کا مشترکہ مسئلہ رہے ہیں اور ہیں۔ ان کو شعوری طور پر الگ الگ مسئلہ بنانے کی سخت کوشش کے باوجود الگ مسئلہ بنانا مشکل ہے۔ یہ مسائل دنیا بھر میں آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ ان مسائل پر گاہے اختلاف رائے اور گاہے اتفاق رائے موجود رہا۔ گزشتہ دو تین دہائیوں سے دنیا جس اعلانیہ یا غیر اعلانیہ نظام کے تحت چلتی تھی، اس سے کچھ ملکوں کا اختلاف اپنی جگہ، لیکن ایک نظام یا آرڈر موجود تھا، جس کو آپ لبرل ازم کا نام دے سکتے ہیں‘ لیکن کورونا بحران اور اس پر اس وقت کے امریکی صدر ٹرمپ کی قیادت میں امریکی رد عمل کی وجہ سے یہ نظام ایک ہی جھٹکے سے ٹوٹ گیا‘ اور اس کے ٹوٹنے کی وجہ یہ تھی کہ دنیا شعوری طور پر اس کی پشت پناہی سے کنارہ کش ہو گئی تھی۔ اس کا آغاز تو 2016 سے ہوتا ہوا دکھائی دیتا تھا، جس کا اظہار صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب سے ہوا تھا‘ مگر غور سے دیکھا جائے تو یہ نظام ٹرمپ سے بھی بہت پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا۔ صدر ٹرمپ نے رسمی طور پر اس کے کفن دفن کا فریضہ سرانجام دیا۔ ایسا اس نے دنیا میں امریکی لیڈرشپ سے دستبرداری کا اعلان کر کے کیا، جو در حقیقت اس دور میں دنیا کے اندر لبرل آرڈر کی سربراہی کا فریضہ سرانجام دے رہی تھی۔ اس طرح ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے یہ دنیا لبرل آرڈر سے نکل کر ایک ایسی دنیا میں داخل ہو گئی، جس میں مختلف عالمی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف کمر کس کر میدان میں موجود ہیں۔ اس وقت صورت یہ ہے کہ امریکہ چین اور روس کو اپنا مد مقابل اور حریف مانتے ہوئے، دنیا میں دوبارہ اپنی جگہ بنانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے نظر آ رہا ہے۔
اس طرح کے نئے عالمی ماحول میں جو چیزیں نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں‘ ان میں دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی جدوجہد اور دنیا میں اپنا اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کا مقابلہ سامنے آ رہا ہے‘ اور یہ رویہ تنگ نظر قوم پرستی کے رجحانات کو ابھار رہا ہے، جس کو دنیا کے سنجیدہ دانشور دنیا کے مستقبل کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس صورت حال سے جس طرح کا ماحول پیدا ہوتا ہے، اس میں عالمی سطح پر انسان کو درپیش مشترکہ مسائل کا حل ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس سے ہمارے ارد گرد کی دنیا کا ماحول انتہائی غیر دوستانہ ہو جاتا ہے۔ ایسے ماحول سے دنیا میں جو سیاست مقبول ہوتی ہے، اس میں جمہوریت، انسانی حقوق یا قانون کی حکمرانی جیسے تصورات پر بہت بڑا منفی اثر پڑتا ہے۔
مگر اس وقت کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں اس طرح کے اختلافات اب تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ اور بد قسمتی سے کورونا وائرس بحران نے ان اختلافات کو مہمیز لگائی ہے۔اس وقت دنیا میں جو معاشی اور سماجی تباہی ہوئی ہے، اس کی وجہ سے ایک طرح کی انارکی کی صورت حال پیدا ہوئی ہے، جس کی وجہ سے تنگ نظر قوم پرستی کچھ طاقتوں کے ہاتھ میں ایک مضبوط آلہ بن گئی ہے۔ اس سے دنیا میں شراکت داری کے تصورات کا خاتمہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے ایسے مسائل کا ابھر کر سامنے آنا لازم ہے اور اب دنیا کو اپنی بقا کے لیے نئے راستے تلاش کرنے پڑ رہے ہیں۔
اس وقت دنیا میں جو کشمکش کا ماحول پیدا ہو رہا ہے، یہ نیا نہیں ہے۔ دنیا تاریخ کے سفر میں بار بار اس کا تجربہ کر چکی ہے۔ اس کا خوفناک ترین تجربہ 1930 کی دہائی میں ہو چکا ہے، جب دنیا کے سنگین ترین معاشی بحران بلکہ ڈپریشن سے فاشزم اور مطلق العنانیت کے تصورات ابھرے تھے۔ اس وقت بھی دنیا میں بالکل آج کی طرح کی معاشی صورت حال تھی، جس کے رد عمل میں امریکا اور یورپ میں ایک تنگ نظر قوم پرستی کے تصورات ابھرے تھے مگر اس وقت امریکی لیڈر سر فرینکلن روز ویلٹ نے ایک مختلف انداز اختیار کیا اور اس وقت کے پالیسی سازوں کو مشورہ دیا کہ یہ کسی طرح بھی امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کے اندر محدود ہو جائے، اور دنیا کے معاملات سے آنکھیں بند کر لے۔ اس کے برعکس امریکہ کے لیے ضروری ہے وہ اس وقت دنیا کے ساتھ تعاون، امن و بھائی چارے کی پالیسی اپنائے۔ اس طرح اس وقت مغربی لیڈروں نے دنیا کا جو نقشہ پیش کیا، اگرچہ اس کو لبرل آرڈر کا نام نہیں دیا، لیکن یہ ایک ایسا تصور تھا جو دنیا کے باہمی انحصاری کے تصورات کو تسلیم کرتا تھا۔ اس کو آپ اس وقت کا انٹرنیشنل آرڈر کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا عالمگیریت کا تصور تھا اور ظاہر ہے اس طرح کی جو عالم گیریت تھی، اس کا مقصد کسی طرح بھی سرحدیں ہٹانا نہیں تھا، بلکہ یہ دنیا کے معاشی اور سلامتی کے مسائل کو باہم مل جل کر طے کرنے کی طرف ایک قدم تھا۔ اپنی تمام تر قباحتوں، ظلمتوں اور ناکامیوں کے باوجود یہ نظام تقریباً اسی نوے سال تک کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا۔ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے باوجود عملی عالمگیریت کے تصورات کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے۔ اب آ کر یہ نظام منہدم ہو چکا۔ اب اس سے آگے دنیا کا ایک نیا نظام شروع ہو رہا ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آنے والے کئی عشروں تک امریکا اور چین کے درمیان نفرت اور مخاصمت کا رشتہ چلتا رہے گا۔ اور یہ ایک نیا تصادم خیز راستہ اس وقت سامنے رہا ہے، جب دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے‘ اور اس تبدیلی کے پیچھے سائنس اور جدید ٹیکنالوجی ایک فیصلہ کن کردار ادا کر رہی ہے۔ اس سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ قریبی طور پر جڑ رہی ہے اور زیادہ وسیع پیمانے پر انحصار کر رہی ہے۔ اس نئے تعلق کے ساتھ ساتھ دنیا کو جو نئے چیلنجز درپیش ہیں، ان کو بھی ابھی الگ الگ ملکوں میں تقسیم کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس کی ایک بڑی مثال ماحولیاتی تبدیلی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے اس کرۂ ارض پر موجود ہر ایک ملک کا کوئی نہ کوئی تعلق ہے‘ اور بیشتر بڑے صنعتی ممالک کے تعاون اور رضا مندی کے بغیر ماحولیات کے باب میں کوئی قابل ذکر کامیابی نا ممکن ہے۔ ماحولیات تو ایک گمبھیر مسئلہ ہے، لیکن اس سے کم تر مسائل پر بھی عالمی تعاون کے بغیر قابو پانا نا ممکن ہے۔