ماحولیات تو ایک گمبھیر مسئلہ ہے لیکن اس سے کم تر مسائل پر بھی عالمی تعاون کے بغیر قابو پانا ممکن نہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال کورو نا وائرس ہے‘ جس کے خلاف سب کچھ کرنے کے باوجود حکمران طبقات اپنے اپنے ممالک میں اس کے داخلے اور پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کی ایک اور بڑی عالمی مثال معاشی بحران ہے۔ معاشی بحران اب کسی ایک ملک کا اندر ونی مسئلہ نہیں رہا ‘ بلکہ یہ بہت تیزی سے سرحدیں پار کر کے ایک عالمی مسئلہ بن گیاہے۔ اس سے بھی تھوڑا آگے جائیں تو مختلف ریاستوں کی عالمی سیاست میں ایک خاص قسم کی جنگجویانہ ضد اور جارحانہ شکل اختیار کرنا بھی کسی ملک کا اندرونی مسئلہ نہیں ‘بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ دنیا میں نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری اور اس طرح کے دوسرے اقدامات‘ عالمی امن کے مسئلے کے طور پر پوری دنیا کا مشترکہ مسئلہ بن جاتے ہیں ‘لیکن یہ تو وہ مسائل ہیں‘ جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں ‘ ان کے بارے میں ہم فکر مند ہیں اور ان کے بارے میں مختلف ممالک میں اپنی اپنی زبانوں اور اپنے اپنے طریقے سے ہم اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں‘ لیکن ہمارے سامنے ایسے ایسے مسائل بھی ابھر رہے ہیں جن کے بارے میں ہمیں واضح طور پر علم نہیں ہے۔ ان میں ایک بڑا مسئلہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے جڑے ہوئے خطرات یہ ہیں کہ اگر آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو کسی اخلاقی نظم و ضبط کا پابند نہیں کیا جاتا اور اس کے لیے ایک مشترکہ عالمی سطح کا نظام نہیں بنایا جاتا تو انفرادی طور پر مختلف ممالک اس نظام کو اپنے من پسند طریقوں سے فروغ دیں گے۔ اور اس بات کا شدید خطرہ موجود ہے کہ مصنوعی ذہانت کو انسان‘ انسان کے خلاف ایک تباہ کن ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔مصنوعی ذہانت کے خطرہ ثابت ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے اور توقع کی جا سکتی ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کی جگہ عالمی قوتوں میں خود مختار ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائے گی۔روس کے صدر پیوٹن نے کہا تھا کہ مصنوعی ذہانت بہت سی سہولتیں مہیا کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ بہت سے خطرات بھی ہیں جن کا اندازہ لگانا کافی مشکل ہے اور جو کوئی بھی اس کام میں آگے رہے گا وہی پوری دنیا کا حاکم بنے گا‘ جبکہ ایک امریکی تھنک ٹینک سینٹر آف نیو امریکن سکیورٹی کی ایک رپورٹ میں مثالیں دی گئی ہیں کہ مصنوعی ذہانت کیسے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔
یہ ایک ڈرائونی تصویر ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ خوش قسمتی سے ابھی ہمارے پاس یہ موقع موجود ہے کہ ہم کورونا وائرس سے سبق سیکھیں ۔ دنیا ایک دوسرے سے کتنی بھی الگ رہنا چاہے ‘ لیکن کچھ مسائل ایسے ہیں جو دنیا کو گھسیٹ کر ایک پلیٹ فارم پر لاتے ہیں۔ دنیا میں ایسے ممالک کی کمی نہیں جوپوری دنیا سے آنکھیں بند کر کہ اپنی سرحدوں کے اندر محدود رہنا چاہتے ہیں۔ ان میں وہ ملک بھی شامل ہیں جو دوسرے ممالک سے نفرت اور دشمنی کے رشتوں سے جڑے ہوئے تھے اور وہ ممالک بھی شامل ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی حفاظت کے سارے سامان مہیا کر دیے ہیں اور ہر قسم کے بیرونی حملے کے خلاف ان کے پاس میزائل ڈیفنس سسٹم ہے لیکن اتنی عظیم ٹیکنالوجی کے باوجود کورونا کے حملے سے دیکھا جا سکتا ہے کہ میزائل سسٹم بھی ناکام ہو سکتا ہے۔ گویا اپنی آبادی کی جان بچانے اور ان کی حفاظت اور سلامتی کا فریضہ سرحدوں کے اندر بند ہو کر انجام دینے کا تصور کورونا نے ناکام بنا دیا ہے۔
ماضی کے لیڈر شاید اس بات کو آج کی نسبت زیادہ گہرائی سے سمجھتے تھے۔ اس لیے دنیا بلاکوں میں تقسیم ہونے اور خوفناک قسم کی سرد جنگ کا شکار ہونے کے باوجوبین الاقوامیت اور عالمی تعاون کی طرف رجحان رکھتی تھی ۔ ان رجحانات کے تحت امریکہ اور سوویت یونین نے اپنے بلاکس کے اندر ہی سہی ‘ لیکن ایک ایسی دنیا ترتیب دی ہوئی تھی جس کے درمیان بہت ہی قریبی قسم کا تعاون اور رشتے قائم تھے۔ یہ جو بلاک قائم تھے یہ دو الگ الگ راستوں پر چل رہے تھے‘ ایک طرف نیو لبرل پالیساں اور لبرل ورلڈآرڈر تھا ‘ جس کو آپ انٹرنیشنل آرڈر بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس آرڈر کے بطن سے بہت سے ایسے روگ جنم لے چکے تھے جن پر قابو پانا ان کے لیے مشکل ہو گیا تھا۔ اس میں سب سے بڑا روگ عدم مساوات تھی‘ جس کا کوئی قابل عمل حل نکالنااس نظام کے اندر ممکن نہیں تھا۔ اس کے علاوہ شدید معاشی بحران ‘ انتہائی خوفناک اور تباہ کن قسم کی فوجی مداخلتیں ‘ نہ ختم ہونے والی جنگیں اور دوسرے ایسے معاملات تھے جنہوں نے بالآخر اس آرڈر کو ہی ختم کر کے رکھ دیا۔ دوسری طرف ایسے سنگین مسائل تھے‘جن پر سوشلسٹ ممالک قابو پانے میں ناکام رہے۔ جن میں سب سے بڑا مسئلہ آزادیٔ اظہارِ رائے‘ جمہوری حقوق اور شہری آزادیوں کے مسائل تھے‘ جن سے وہ جدید تقاضوں کے مطابق مناسب طریقے سے نمٹنے میں ناکام رہے ہیں۔ عالمی معاشی و سامراجی قوتوں اور سامراجی مقابل کے سیاسی داؤ پیچ کا مقابلہ کرنے کے لیے جس طرح کی تبدیلی اور نئے تصورات کی ضرورت تھی وہ اپنانے میں ناکام رہے اور تاریخ کا حصہ بن گئے۔ لیکن اس کی وجہ سے جو دنیا کے اندر ایک طرح کا تعاون اور باہمی انحصار تھا وہ بھی ختم ہوگیا ‘ اور دنیا مزید ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ مشرقی یورپ کا ایک بہت بڑا بلاک طرح طرح کے ملکوں میں تقسیم ہو گیا۔
ان دونوں رجحانات کے وارثوں کے لیے تاریخ میں بہت سے اسباق موجود ہیں۔ دنیا میں ایک طرف سامراجی عالمگیریت پر یقین رکھنے والے لوگ تھے۔ دوسری طرف سوشلسٹ عالمگیریت تھی۔ یہ دونوں بلاک دو مختلف قسم کے نظریات کے تابع تھے‘ مگر دونوں لمبے چوڑے نظریات اور تاریخی تجربات کے باوجود ان کو کسی عملی شکل میں ڈھالنے میں ناکام رہے۔ اس میں جو عالمگیریت اور انٹرنیشنل ازم کے دانشور تھے ان کے تصورات کی کوئی عملی شکل ہی رہی اور نہ ان کے تصورات پر عمل کرنے کے لیے دنیا میں وہ حالات موجود رہے۔ بالکل اسی طرح دوسری طرف جو سوویت بلاک تھا یہ مارکسزم کے تصورات ہوں یا ٹراٹسکی کے نظریات ‘ کسی کو بھی اس طریقے سے سائنسی بنیادوں پر اپنانے اور بدلتی ہوئی دنیا کے نئے تقاضوں کے مطابق تخلیقی انداز میں ان کا استعمال کرنے میں ناکام رہا۔ مگر ان بلاکوں کے ختم ہونے اور اس طرح کی عالمگیریت کے خاتمے کے باوجود عالمگیریت کا مقدمہ اب بھی موجود ہے۔ عالمگیریت کے ساتھ ساتھ دنیا میں گہری ہوتی ہوئی طبقاتی تقسیم‘ معاشی نا انصافی اور عدم مساوات جیسے مسائل ہمارے دور کے اہم ترین مسائل ہیں۔ ان مسائل کا حل ایک ایسی عالمگیر یت ہے‘ جس میں مختلف قوموں اور قومیتوں کی شناخت کو تسلیم کرتے ہوئے‘ ایک عالمی منصفانہ نظام کا قیام ہے۔(ختم)
خوش قسمتی سے ابھی ہمارے پاس یہ موقع موجود ہے کہ ہم کورونا وائرس سے سبق سیکھیں۔ دنیا ایک دوسرے سے کتنی بھی الگ رہنا چاہے‘ لیکن کچھ مسائل ایسے ہیں جو دنیا کو گھسیٹ کر ایک پلیٹ فارم پر لاتے ہیں۔