دو سال پہلے میں نے جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل کے ایک اجلاس میں شرکت کی تھی۔ میں اس اجلاس میں کینیڈین وکلاکے ایما پر ان کے ڈیلیگیٹ کے طور پر شریک ہواتھا۔ اس اجلاس میں ‘ میں نے جو رپورٹ پڑھ کر سنائی تھی اس میں دوسرے ممالک کے علاوہ میانمار یعنی برما کا بھی ذکر تھا۔ برما کو ایسے ممالک کی صف میں شامل کیا گیا تھا جن میں انسانی حقوق کی حالت انتہائی مخدوش تھی۔ وہاں مذہبی ‘ سیاسی اور نسلی بنیادوں پر امتیازی سلوک روا رکھا گیا تھا۔ جہاں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سرکاری مسلح قوتوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر تشدد ہواتھا۔ لوگوں کو غیر قانونی طور پر گرفتار کرنے ‘ قتل کرنے اور سزائیں سنانے کی شکایات عام تھیں۔ اجلاس کے بعد ایک نوجوان ایشیائی خاتون نے مجھ سے رابطہ کیا‘اس نے بتایا کہ وہ برما کی اخبار نویس ہے اور برما کے حالات پر مجھ سے تبادلہ خیال کرنا چاہتی ہے۔ میں نے خاتون کو بتایا کہ میں برما میں انسانی حقوق کا کوئی ماہر نہیں ہوں اور نہ ہی اس باب میں میری معلومات کسی انسانی حقوق کے عام سرگرم کارکن سے زیادہ ہیں۔ میں نے جو رپورٹ پڑھی ہے وہ ہماری تنظیم کی ایک ٹیم نے تیار کی ہے‘ جسے میں نے حرف بحرف پڑھ دیا ہے۔ البتہ میں برما کی خاتون رہنما آنگ سان سوچی کے بارے میں کافی دلچسپی اورمعلومات رکھتا ہوں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں ان کے دور میں برما میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کرنے جنیوا آیا ہوں۔ میں ان کی شخصیت اور کام میں گزشتہ تیس سال سے گہری دلچسپی لے رہا ہوں۔ میں نے ان کے بارے میں پڑھنا اور جاننا 1988ء سے شروع کیا تھا۔ میں ان دنوں بی بی سی نشریات کو ریڈیو پر باقاعدگی سے سنتا تھا۔ اسی سال غالباً اگست میں بی بی سی پر یہ خبر آئی تھی کہ آنگ سان سوچی کو برما کی این ایل ڈی کا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا ہے۔ اس پارٹی کو برما کی فوج کے کئی ریٹائرڈ آفیسروں کی حمایت حاصل ہے جو برما میں فوجی راج کے خلاف ہیں۔ دو سال بعد برما میں انتخابات ہوئے اور دنیا بھر کے جمہوریت پسندوں نے یہ خبر خوشگوار حیرت اور مسرت سے سنی کہ سوچی کی پارٹی نے پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت حاصل کر لی ہے لیکن یہ خوشی اس وقت افسوس میں بدل گئی جب یہ خبر آئی کہ فوجی جنتا نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے اور اقتدار منتقل کرنے سے انکار کر دیا۔ سوچی کو انتخابات سے پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا اور زبردست عالمی رد عمل کے باوجود کئی برس تک وہ گھر پر نظر بند رہیں۔ اس کے باوجودملک کے اندر جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے ان کی جہدوجہد جاری رہی۔ ان کی عوامی پذیرائی میں اضافہ ہوتا رہا۔ کئی ضمنی انتخابات میں کئی ایک نشستیں جیتنے کے بعد بالآخر2015 ء کے انتخابات میں اس نے لینڈ سلائیڈ فتح حاصل کی۔ سوچی پر آئینی طور پر ملک کی صدر بننے کی پابندی تھی‘ جس کی وجہ اس کے خاوند اور بچوں کی غیر ملکی شہریت تھی؛ چنانچہ وہ سٹیٹ کونسلر بن گئی۔ یہ ایک نیا تخلیق کردہ عہدہ تھا جو وزیر اعظم یا سربراہ حکومت کے برابر تھا۔ اس عہدے پر فائز رہنے کے دوران روہنگیا مظالم کا قضیہ سامنے آیا۔ اس نے برما کی فوج پر روہنگیا کے قتلِ عام کے الزامات کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اس دوران برما کے صحافیوں پر پابندیوں اور تشدد کی شکایت بھی منظر عام پر آئیں۔
گزشتہ سال آنگ سان سوچی نے بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں پیش ہو کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور قتل کے الزام کے خلاف برما کی فوج کا دفاع کیا۔ اس طرح وہ سوچی جس کے ساتھ میری طرح دنیا بھر کے جمہوریت پسندوں اور انسانی حقوق کے حامیوں کا ایک خاص قسم کا رومانس تھا وہ ٹوٹ گیا۔ مجھ سمیت اس کے کئی خیر خواہ مایوس ہوئے اور اس کی موقع پرستی پر ماتم کیا۔ کچھ لوگوں نے اس کے اس عمل کی تاویل پیش کرنے کی کوشش کی‘ اُن کے خیال میں ایک عملیت پسند انسان ہونے کے ناتے وہ برما کی طاقتور فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لیے کوشاں تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ الیکشن فراڈ کے الزامات کے بعد وہ فوجی قیادت کی سرگرمیوں اور عزائم سے واقف ہو چکی تھی اور ملک میں جمہوریت کی بقا کے لیے وہ اس حد تک چلی گئی کہ عالمی عدالت انصاف میں فوجی قیادت کا دفاع کیا۔ بہرحال آنگ سان سوچی کی جو بھی مجبوری ‘ مصلحت یا ہوس تھی‘ لیکن فوجی قیادت کے ساتھ اس کا سمجھوتہ کارآمد ثابت نہ ہو سکا اور فوجی قیادت نے اس کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
ملک کے اقتدار پر فوجی قبضے اور آنگ سان سوچی اور اس کے ساتھیوں کی گرفتاری کے خلاف دنیا میں ملا جلا رد عمل پیدا ہوا ہے۔ اس ردعمل میں وہ جوش‘ جذبہ نہیں ہے جو ماضی میں اس کی گرفتاری اور نظر بندی کے حوالے سے سامنے آتا رہا ہے۔ امریکہ برطانیہ ‘ اور آسٹریلیا سمیت دوسرے جمہوری ممالک نے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے گزشتہ انتخابات کے نتائج کے احترام‘ سیاسی قیدیوں کی رہائی اور اقتدار دوبارہ منتخب لوگوں کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر برما کی فوجی جنتا اس مطالبے پر کوئی توجہ نہیں دیتی تو جمہوری ممالک اس سلسلے میں کیا اقدامات کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ اس سلسلے میں ماضی کے تجربات کوئی زیادہ خوشگوار نہیں ہیں۔ ماضی میں مغرب کی جمہوری طاقتوں کی پوری حمایت کے باوجود سوچی کو برسہابرس تک نظر بند رکھا گیا اور انتخابات میں واضح فتح کے باوجود انتخابی نتائج ماننے اور اسے اقتدار منتقل کرنے سے انکار کیا جاتا رہا۔ اس کے جواب میں مغرب کے جمہوری ممالک چند ایک پابندیوں کے علاوہ کوئی قابل ذکر اور ٹھوس اقدام کرنے میں ناکام رہے۔ دوسری طرف وہ ممالک ہیں جو عالمی سیاست میں ایک مؤثر کردار تو رکھتے ہیں لیکن جمہوریت کے حوالے سے ان کا کردار قابلِ رشک نہیں رہا ۔ ان میں ایک قابل ذکر قوت چین ہے۔ چین نے موجودہ مارشل لا کی مذمت نہیں کی ‘ اس کے بجائے انہوں نے پر امن طریقے سے فریقین کے درمیان معاملات طے کرنے پر زور دیا ہے۔ برما کے ساتھ اس وقت چین کے بہت بڑے معاشی ا ور اقتصادی مفادات وابستہ ہیں۔ چین کا برما میں جاری بیلٹ اینڈ روڈکا منصوبہ ان میں قابلِ ذکر تو ہے ہی لیکن اس کے علاوہ اس ملک میں چین کے گونا گوں معاشی مفادات بھی ہیں۔ چین ان مفادات اور سرمایہ کاری کی وجہ سے اس ملک پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ لیکن چونکہ جمہوریت کا قیام چین کی پالیسی کا حصہ نہیں ہے اس لیے غالباً چین نئے رجیم کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ تھائی لینڈ سمیت خطے کے دوسرے کئی ممالک نے برما میں ہونے والی پیش رفت اور سیاسی تبدیلی کو برما کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فوجی جنتا کے لیے کسی قسم کی مشکلات پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔
برما کی کہانی میں سبق یہ ہے کہ جمہوریت کی علمبردار قوتیں جب جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر برسر اقتدار آتی ہیں تو وہ جمہوریت کے فروغ اور اس کی مضبوطی کے لیے کام کرنے کے بجائے غیر جمہوری قوتوں کی خوشنودی کو ترجیح دیتی ہیں۔ جس کا نتیجہ ہر دفعہ وہی نکلتا ہے جو برما میں سوچی کی خوش آمدانہ پالیسیوں سے نکلا ہے۔