یہ ایک بے مثال سخاوت تھی۔ حکومتوں کی سطح پر اتنی بڑی سخاوت اور فیاضی کی تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال موجود ہو۔ دنیا میں کورونا بحران کے دوران مختلف خوشحال ممالک نے سرکاری خزانے سے خطیر رقوم نکال کر خرچ کیں۔ اگر اتنی بڑی رقوم عام حالات میں سرکاری خزانوں سے نکال کر عوامی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتیں، تو شاید دنیا میں بنی نوع انسان کو درپیش بیشتر مسائل کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ وبا کے دوران یہ کھربوں ڈالر مختلف تجارتی اداروں اور عام لوگوں میں تقسیم کیے گئے۔ ارباب اختیار کی رحم دلی اور فیاضی اپنی جگہ، مگر اس عمل کے پس منظر میں ان کا یہ خوف بھی کارفرما تھا کہ اتنے بڑے معاشی بحران کے بطن سے سیاسی و معاشی بے چینی کی تحریکیں اٹھ سکتی ہیں۔ انقلاب برپا ہو سکتے ہیں۔ بغاوتیں جنم لے سکتی ہیں۔ ان اخراجات کا نتیجہ ہے کہ آج کئی ملکوں کے سرکاری خزانے تقریباً خالی ہیں۔ کئی ممالک آئندہ تیس برسوں تک خسارے کے بجٹ کا سامنا کرنے پر مجبور ہوں گے، اور سرکاری خزانے کو دوبارہ اس سطح پر لانے کے خواب دیکھیں گے جو کورونا بحران سے پہلے تھا‘ لیکن اس شہ خرچی کا یہ فائدہ ہوا کہ دنیا میں کسی بڑی بے چینی اور بغاوت کے بغیر ایک سال کا عرصہ گزر گیا۔ بحران کی آڑ میں کئی ناکام حکومتیں بھی ناکامی کے داغ سے بچ گئیں حالانکہ نظام زندگی تہ و بالا تھا۔ روزگار کے مواقع محدود تھے۔ فیکٹریاں، ملیں اور کارخانے بند تھے۔ اکثر ممالک میں ''ضروری خدمات‘‘ کے سوا سب کچھ بار بار لاک ڈائون کا شکار ہوتا رہا۔
2008 کے مالی بحران کے دوران بھی اگرچہ اتنے بڑے پیمانے پر نہیں، لیکن کافی بڑی رقوم خرچ کی گئی تھیں۔ دنیا بھر میں مختلف ممالک کے مالی نظام میں حکومتوں نے 3 ٹریلین ڈالر سے زیادہ امدادی رقم ڈالی تھی۔ اس فراخ دلی کا مقصد دنیا میں کریڈٹ مارکیٹوں کے انجماد کو توڑ کر ساکت و جامد عالمی معیشت کو دوبارہ متحرک کرنا تھا‘ لیکن یہ عمل زیادہ منصفانہ اور منطقی نہیں تھا۔ اس بھاری رقم کے ذریعے حقیقی معیشت کی زیادہ مدد نہیں ہوئی۔ یہ رقم زیادہ تر امدادی شعبے میں خرچ کی گئی۔ حکومتوں نے اولین ترجیح بڑے سرمایہ کار بینکوں کو دی حالانکہ یہی وہ بینک تھے جو ابتدائی طور پر یہ بحران پیدا کرنے کا باعث بنے تھے۔ گویا بینکوں اور مالیاتی کمپنیوں نے خوشحالی کے دور میں بھی فائدہ اٹھایا، اور بحران کے موسم بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے بحران کے بعد معاشی بازیافت کے ثمرات کا فائدہ اٹھایا۔ دوسری طرف چھوٹے کاروباری لوگ اور ادارے تھے۔ ٹیکس دہندگان تھے۔ عام عوام تھے‘ اور افتادگان خاک تھے، جن کے حصے میں پہلے بھی کچھ نہیں تھا، اور بحران کے بعد کے بندوبست میں بھی ان کے لیے کوئی خوشخبری نہیں تھی۔ بحران کے بعد ان بے چارے لوگوں کو بظاہر ایک ایسی عالمی معیشت کا سامنا تھا، جو بظاہر پہلے جیسے تھی‘ لیکن حقیقت میں پہلے سے زیادہ غیر مساوی تھی۔ اس میں طبقاتی لوٹ کھسوٹ کی گنجائش پہلے سے زیادہ تھی‘ اور یہ بڑے پیمانے پر ماحولیاتی آلودگی کا شکار تھی۔
اب بارہ برس بعد دنیا کو ایک نئے بحران کا سامنا ہے۔ یہ بحران کووڈ 19 وبائی بیماری اور اس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن کا نتیجہ ہے۔ اس تباہ کن وائرس کے منظرعام پر آنے کے ابتدائی مہینوں میں حکومتوں نے معاشی اور صحت سے متعلق بحرانوں سے نمٹنے کے لئے اپنے اپنے معاشی و سیاسی نظاموں کے اندر رہتے ہوئے بڑے اقدامات کیے، ملازمتوں کے تحفظ کے لئے امدادی پیکیجز دیے۔ بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت قواعد و ضوابط جاری کیے۔ ویکسینوں کی تحقیق و ترقی میں سرمایہ کاری کے لئے اقدامات کیے۔ یہ سب کوششیں ضروری تھیں، اور ہیں، لیکن بد قسمتی سے یہ کوششیں کافی نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جب اتنے بڑے پیمانے پر معاشی منڈیاں ناکام ہو جاتی ہیں اور سماج کو اس درجے کے تباہ کن بحران کا سامنا ہوتا ہے تو حکومتوں کے لئے محض سہولت کار یا امداد کار کے طور پر مداخلت کرنا کافی نہیں ہوتا۔ بلکہ ایسے خوفناک بحران میں حکومتوں کو فعال طور پر معاشی نظام کی تشکیل نو کرنا پڑتی ہے تاکہ وہ اس طرح کے طویل مدتی نتائج پیدا کر سکیں، جن سے معاشرے کے مخصوص مراعات یافتہ طبقات کے بجائے ہر ایک کو فائدہ پہنچ سکے، اور سب کے لیے مساوی مواقع پیدا ہوں۔
دنیا نے 2008 میں سماجی اور معاشی تشکیل نو کا موقع گنوا دیا لیکن آج کے بحران نے ارباب اختیار کو ایک نیا موقع عطا کر دیا ہے‘ مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ ارباب اختیار انقلابی نہیں ہیں۔ ان سے کسی نظام نو کی تعمیر کی توقع عبث ہے۔ یہ کام کسی بھی ملک میں عوام کی مدد سے ایک انقلابی پارٹی ہی سرانجام دے سکتی ہے‘ مگر اس پارٹی کے ظہور پذیر ہونے تک، موجودہ حکمران طبقات محض غریب عوام کے لیے نیک خواہشات رکھنے اور روایتی انداز میں معاشی نمو کو بڑھاوا دینے کے علاوہ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے قدامت پرستانہ نظریات کی حدود کے اندر رہ کر بھی ایک بہتر معیشت کی از سر نو تشکیل کے لئے ایک نئی سمت کا تعین کر سکتے ہیں۔ وہ بڑی کارپوریشنوں کو غیر مشروط امداد فراہم کرنے کے بجائے ان کی پالیسیوں کو ایسے اقدامات سے مشروط کر سکتے ہیں، جو عوامی مفادات کا تحفظ کرتے ہوں۔ اور جو معاشی و معاشرتی مسائل سے نمٹنے کے لئے مددگار ثابت ہو سکتے ہوں۔ وہ کووڈ 19 ویکسین بنانے والی کمپنیوں کو ایسی پالیسیوں کا پابند کر سکتے ہیں، جن سے ویکسین عالمی سطح پر سب کے لیے قابل رسائی ہو سکے۔ وہ ایسی کمپنیوں کو مدد دینے سے انکار کر سکتے ہیں، جو ماحول کو آلودگی سے بچانے اور کاربن کے اخراج پر پابندی لگانے کے لیے تیار نہ ہوں‘ یا ٹیکس کی پناہ گاہوں میں اپنے منافع کو چھپانے کی عادات و روایات ترک کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔
لیکن بد قسمتی سے اس میدان میں دنیا میں ایک طویل عرصہ سے حکومتوں کی پالیسیاں جانب دارانہ ہیں۔ ان کا جھکائو غالب اور مراعات یافتہ طبقات کی طرف ہے۔ جب کبھی بڑے کاروباری ادارے اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کوئی معاشی بحران یا ماحولیاتی خطرات پیدا کرتے ہیں، تو حکمران اشرافیہ فی الفور ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے سرکاری خزانوں کے منہ کھول دیتی ہے۔ اس طرح مراعات یافتہ طبقات کی پیدا کردہ گندگی صاف کرنے کی قیمت عوام ادا کرتے ہیں‘ لیکن ان صفائیوں کے فوائد بڑی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کو حاصل ہوتے ہیں۔ بحرانوں کے دوران سخت ضرورت کی گھڑی میں بڑے بڑے کاروبار سرکاری مدد کی درخواست کرنے میں دیر نہیں کرتے‘ لیکن بحران کے بعد اچھے وقتوں میں ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ حکومت ان کے کاروبار سے دور رہے کہ حکومتوں کا کام کاروبار میں مداخلت کرنا نہیں ہے۔ کووڈ 19 کا بحران اس جیسے دوسرے بحران اس عدم توازن کو درست کرنے کا ایک موقع دیتے ہیں۔ اس بحران کے دوران سرکار کی امداد یافتہ کمپنیوں کو عوامی مفاد میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے اور عام آدمی اور ٹیکس دہندگان کو ان فوائد میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا جا سکتا ہے، جو روایتی طور پر بڑی کمپنیوں کو ملتا ہے لیکن اگر حکومتیں صرف وقتی درد اور مصائب کا ہی مداوا کرتی رہیں۔ نئے اصول و ضوابط وضح کرنے میں ناکام رہیں تو بحران کے بعد کی معاشی نمو اور ترقی نہ تو جامع ہوگی‘ نہ پائیدار ہوگی اور نہ ہی طویل مدتی مساویانہ ترقی کے مواقع پیدا ہوں گے۔ کھربوں ڈالر کی سرکاری امداد رائیگاں جائے گی، اور اس کھوئے ہوئے موقع کے بطن سے محض نئے بحران پیدا ہوں گے۔