ایک عظیم جمہوریت کے لیے ترقی پسند ہونا ضروری ہے‘ ورنہ یہ زیادہ دیر تک بطورعظیم جمہوریت برقرار نہیں رہ سکتی۔ تھیوڈور روزویلٹ کی اس بات میں بڑی گہری دانش ہے اور سوچنے والوں کے لیے غور و فکر کا سامان بھی۔جمہوریت کے کئی بنیادی اصول ہیں‘ان میں سے ایک اہم ترین اصول ''ایک شخص ایک ووٹ‘‘ہے۔ کسی بھی ملک میں جمہوریت کے ایک مؤثر اور مضبوط ماڈل کیلئے دیگر معیارات میں ایک معیار باخبر اور تنقیدی نظر رکھنے والے شہریوں کی لازمی موجودگی ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر ایک ایسے سیاسی کلچر کی موجودگی ضروری ہے جو طاقتور طبقات کے لالچ پر مبنی غلبے کے بجائے پورے سماج کی مشترکہ بھلائی کے نظریہ پر یقین رکھتا ہو۔
مذکورہ بالا اصولوں پر مبنی خصوصیات اس وقت امریکی جمہوریت کی نمائندہ خصوصیات نہیں ہیں۔ حقیقت کے زیادہ قریب بات یہ ہے کہ ہمارے وقت کی امریکی سیاست میں دولت مند غالب طبقات کی حکومت ہے‘ جو ملک و قوم کے مقدر کا فیصلے کرتے ہیں جبکہ امریکی سماج مجموعی طور پر باخبر اور تنقیدی نظر رکھنے والے شہریوں کے معاشرے کے بجائے صرف خرچ کرنے والوں اور سامان خریدنے والوں کا ایک ہجوم یعنی صارفین کے معاشرے میں بدل چکا ہے۔امریکی جمہوریت کی یہ ناقص فطرت حالیہ چندبرسوں میں اور زیادہ نمایاں ہو ئی ہے کیونکہ اس جمہوریت میں سیاسی اخلاقیات کی عدم موجودگی کھل کر سامنے آئی ہے‘ جو نا قابلِ حل مسائل پیدا کرنے کا باعث ہے۔ یہ جمہوریت اس وقت بڑے پیمانے پر معاشی عدم مساوات پر مبنی سماج کے المیے کا شکار ہے‘ جو بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ بے روزگاری اورملازمتوں میں عدم استحکام عام ہے۔ بدعنوانی عام ہوکر قابلِ ِقبول قدر بنتی جا رہی ہے۔ معیارِ زندگی رو بہ زوال ہے۔ عوامی رائے عامہ میں ہیرا پھیری کرنے کے طریقے عام ہیں۔ کرپشن بڑھ رہی ہے اور آمریت پسندانہ رجحانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
2016ء کے صدارتی انتخابات بذاتِ خود امریکی جمہوریت کو درپیش گہرے بحران کی بڑی شہادت ہیں‘ جس کی وجہ سے دنیا کی امیر ترین اور طاقتور ترین قوم ''بنانا ریپبلک‘‘ کی طرح دکھائی دینے لگی تھی‘ لیکن 2020 ء کے انتخابات کے دوران ہونے والے ہنگامہ خیز واقعات نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے اور جمہوریت کے اخلاقی بحران میں کسی کو اگر کوئی شک تھا تو دورہوتا جا رہا ہے۔2016 ء کے انتخابات میں وائٹ ہاؤس کیلئے مقابلہ پیسے کے زور پر ابھرنے والے ایک ارب پتی اور ایک تاحیات سیاستدان کے درمیان تھا‘ جسے بڑے پیمانے پر وال سٹریٹ کا پسندیدہ اور جنگ باز سیاست دان سمجھا جاتا ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے 45 ویں صدر بننے کیلئے منتخب ہونے والا امیدوار کسی بھی دوسرے امریکی صدر کے مقابلے میں بڑے ووٹ سے اور مقبول ووٹ سے محروم رہا۔ ڈونلڈ ٹرمپ تقریبا تین ملین ووٹوں سے ہلیری کلنٹن سے پیچھے رہنے کے باوجود صدر منتخب ہو گیا۔ لوگوں کو اس میں تضاد نظر آیا۔ لیکن یہ ''جمہوری تضاد‘‘ اس حقیقت کی وجہ سے تھا کہ امریکی صدور کا انتخاب عام آدمی کے انتخابی ووٹ کے ذریعہ نہیں ہوتا‘ بلکہ یہ عمل ایک الیکٹورل کالج سر انجام دیتا ہے۔
کچھ لوگوں کے نزدیک اس باب میں ایک اورتلخ حقیقت یہ ہے کہ امریکی آئین میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو امریکی رائے دہندگان کو اپنا صدر منتخب کرنے کا حق فراہم کرتا ہو۔ جب امریکی رائے دہندگان اپنے صدارتی امیدوار کو ووٹ ڈالنے کیلئے جاتے ہیں تو وہ اپنی پسند کی پارٹی کے منتخب کردہ انتخابی حلقوں کے امیدواروں کیلئے ووٹ ڈال رہے ہوتے ہیں۔ یہ امیدوار آگے چل کر صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ جمہوریت کے اس بحران کی ایک وجہ انفرادیت پسنداور صارفین پر چلنے والی ثقافت بھی ہے۔ اس کا مقصد عوامی امور کے بارے میں ہم آہنگی‘ لاعلمی اور بے حسی کو فروغ دینا ہے۔ ایک اور مقصد حب الوطنی کا ایک ایسا منحرف اور جعلی احساس بھی ہے جو تنقید ی آوازوں کو امریکہ مخالف یعنی ملک دشمن قرار دیتا ہے۔ اس طرح ایک ایسی سیاسی فضا تیار ہوتی ہے جوٹرمپ‘ بش اور ریگن کی طرح کے لوگوں کیلئے راہ ہموار کرتی ہے۔
انتخابی کالج کا نظام ایک جمہوری نظام ہے مگر یہ جمہوریت کی بدصورت شکل ہے۔ انتخابی کالج کے اس خاص ڈیزائن کا مقصد تاریخ کے مخصوص حالات میں عوام کو براہِ راست اپنا صدر منتخب کرنے سے روکنا تھا۔ اس خاص ماڈل کے تحت ایک امیدوار ملک گیر عوامی ووٹ جیت سکتا ہے مگر پھر بھی صدارت سے محروم ہوسکتا ہے۔ ایسا2000ء میں ہوا تھا۔ ال گور نے جارج ڈبلیو بش کے مقابلے میں تقریباً آدھا ملین زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے‘ لیکن یہ بش ہی تھے‘ جن کو ریاست فلوریڈا میں 540 سے بھی کم ووٹوں سے فاتح قرار دے کر صدر بنا دیا گیا تھا‘ اور اس تاریخ نے خود کو 2016ء کے انتخابات میں دہراتے ہوئے صدر ٹرمپ کو مسند پر بٹھا دیا تھا۔لیکن اسی پر بس نہیں ہوا۔ امریکہ جیسے دنیا کے پرانے جمہوری ماڈل میں صدارتی انتخابات کیلئے ووٹرز کا ووٹ ڈالنا پریشان کن حد تک کم ہے‘ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اس فرسودہ ماڈل میں بہت سے امریکیوں کو لگتا ہے کہ ان کا ووٹ کسی شمار قطار میں نہیں ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں ووٹوں کی شرح کے حساب سے دیگر ترقی یافتہ جمہوری ملکوں کے مقابلے میں امریکہ 35 ترقی یافتہ ممالک میں سے 31 ویں نمبر پر ہے۔ گویا تقریباً آخری نمبر پر ہے۔
ان حالات میں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ 2016 ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں 90 ملین سے زیادہ اہل ووٹرز نے ووٹ نہیں دیا تھا حالانکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک انتہائی نازک اور حساس انتخابات تھے کیونکہ ٹرمپ نے میکسیکو‘ خواتین اورمسلمانوں کے بارے میں انتہائی اشتعال انگیز بیانات جاری کیے تھے۔ بد قسمتی سے 2020 ء کے انتخابات میں بھی اس حوالے سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ انتخابات کے بعد کی فضا بھی کوئی زیادہ جمہوری نہیں رہی۔ اکثریت کا ایک انجانا خوف بڑھا۔ شک و شبہے کی فضا میں اضافہ دکھائی دیا اور کئی ایسے اقدام ہوئے جو جمہوریت کے بنیادی اصولوں اور روح سے متصادم تھے۔
جمہوریت کا سنگِ بنیاد ووٹ ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدیم جمہوریت میں بہت سے امریکی ووٹ ڈالنے سے پرہیز کیوں کررہے ہیں؟ اس کی بنیادی وجہ امریکی سیاسی ثقافت ہے‘ یعنی ایک شخصی اور صارفیت سے چلنے والے والا سماج جہاں لوگوں کی اکثریت ایک ایسے سیای نظام پر اندھا اعتماد کرتی ہے جو دولت مندوں اور کاروباری طبقات کے زیر کنٹرول ہے۔ یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ 1980ء کی دہائی سے ہی امریکہ ایک ایسے معاشرتی نظام کے قریب تر ہوتا جارہا ہے جسے برٹرم گراس نے ''دوستانہ فاشزم‘‘ کا نام دیا تھا‘ جو بڑے کاروبار اور بڑی حکومت کے مابین ہمیشہ ہی قربت کی علامت ہے‘ جبکہ عام شہری خالصتاً معاشرتی اور سیاسی حقوق کے بدلے مادی سامان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
بہرحال صدرٹرمپ اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان پر سنگین الزامات کے تحت ادارہ جاتی اور عدالتی کارروائیوں کا عمل جاری ہے تاکہ آئندہ انہیں واپسی سے روکا جا سکے۔ آگے کیا ہونے والا ہے‘ اس بات کی حتمی پیش گوئی کرنا مشکل ہے‘ لیکن امکان ہے کہ اگرامریکی جمہوریت نے ترقی پسندانہ رجحانات سے یونہی پہلو تہی جاری رکھی اور رجعت پسندی کو گلے لگائے رکھا تو بطورِعظیم جمہوریت اس کا مستقبل زیادہ روشن نہیں۔