''سرمایہ بذات خود برا نہیں ہے‘ اصل برائی اس کا غلط استعمال ہے۔ سرمایہ داری کی کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ ضرورت رہے گی‘‘ یہ الفاظ موہن داس کرم چند گاندھی کے ہیں، جو انہوں نے سرمایہ داری نظام کی اچھائیاں بیان کرتے ہوئے کہے تھے۔ مہاتما گاندھی کے ان خیالات کی وجہ سے بائیں بازو کے کچھ دانش ور ان کو عالمی سرمایہ داری کا ایجنٹ قرار دیتے تھے، جس کو ہندوستان میں سوشلزم کا راستہ روکنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ ان کے خیال میں انڈین نیشنل کانگریس سوشلزم کی طرف مائل تھی‘ اور اگر گاندھی اور سردار پٹیل جیسے لوگ اس کا راستہ نہ روکتے تو یہ پارٹی ہندوستان میں سوشلسٹ انقلاب برپا کر دیتی۔ گاندھی کے زمانے میں روسی انقلاب آ چکا تھا اور سرمایہ داری کے خلاف تنقید میں اضافہ ہو رہا تھا‘ مگر اس وقت تک سرمایہ داری نظام اتنا بدنام اور ایکسپوز نہیں ہوا تھا، جتنا آگے چل کر ہوا۔ اس صورت حال کا اندازہ آگے چل کر میلکم ایکس کی تحاریر و تقاریر میں ہوتا ہے۔ اس نے ایک دفعہ کہا تھا کہ سرمایہ داری کی بقا نا ممکن ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کو پینے کے لیے خون چاہیے۔ سرمایہ دار ایک باز کی طرح ہوا کرتا تھا، مگر اب یہ گدھ کی طرح ہو گیا ہے‘ پہلے یہ جس کا چاہتا خون چوس سکتا تھا‘ مگر اب یہ گدھ کی طرح بزدل ہو گیا ہے اور صرف بے بس لوگوں کا خون چوستا ہے۔ جوں جوں دنیا میں قومیں آزاد ہوتی جا رہی ہیں، سرمایہ داری کے لیے چوسنے کے لیے خون کم ہوتا جا رہا ہے اور نتیجے کے طور پر یہ کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ کسی وقت بھی زمین بوس ہو سکتا ہے۔ میلکم ایکس کی طرح سینکڑوں دانشور ایسے تھے جنہوں نے سرمایہ داری کو بہت فصاحت سے بے نقاب کیا۔ دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی جو سرمایہ داری کے حق میں ہمہ وقت رطب اللسان رہتے تھے۔ وہ اس حد تک آگے چلے گئے تھے کہ انہوں نے آزاد سرمایہ داری نظام کو آزادی کے لیے بنیادی شرط قرار دے دیا تھا۔ ان میں ایک ملٹن فریڈمین بھی تھے۔ گزشتہ ہفتے زوم ریڈنگ روم میں ملٹن کی کتاب ''سرمایہ داری اور آزادی‘‘ پر تبادلہ خیال کرنے کا اتفاق ہوا۔
''سرمایہ داری اور آزادی‘‘ پہلی بار 1962 میں شائع ہوئی۔ سرمایہ دارانہ معاشیات، سیاست اور حکومت کے بارے میں یہ ایک نان فکشن کتاب ہے۔ ملٹن نے ریاست ہائے متحدہ کی معاشی پالیسی کے لیے روایتی کلاسیکی لبرل نقطہ نظر کی حمایت کی ہے۔ اس کے خیال میں یہ لبرل پالیسی آزاد منڈی کو ممکن حد تک مؤثر انداز میں چلنے کی اجازت دے کر انفرادی آزادی کو فروغ دیتی ہے۔
فریڈمین نے ''کیپٹل ازم اینڈ فریڈم‘‘ اس وقت لکھی، جب وہ شکاگو یونیورسٹی میں معاشیات کے سکالر تھے۔ اس نے صدر جان ایف کینیڈی کے اس مشہور اقتباس کے ساتھ کتاب کا آغاز کیا ''یہ مت پوچھیں کہ آپ کا ملک آپ کے لیے کیا کر سکتا ہے، بلکہ یہ پوچھیں کہ آپ اپنے ملک کے لیے کیا کر سکتے ہیں‘‘۔ فریڈمین ایک سرمایہ دارانہ معاشرے میں حکومت کے کردار اور مقصد کے بارے میں اپنے نظریات کو متعارف کرانے کے لیے اس اقتباس کا حوالہ دیتا ہے۔ وہ زور دے کر کہتا ہے کہ حکومت نہ تو ایک شہری کی طرح ہے، اور نہ ہی وہ ملک کی مالک ہے بلکہ حکومت مختلف اہداف کے حصول کا ایک ذریعہ ہے ، جن پر شہریوں کا اتفاق ہوتا ہے۔
فریڈمین کا مؤقف ہے کہ جب حکومت کے اختیارات اور طاقت کا غیر مناسب استعمال ہو تو وہ معاشرے کے سب سے اہم مقصد یعنی انفرادی آزادی کی حفاظت کے خلاف کام کر سکتی ہے۔ خاص طور پر وہ ایک ایسی مرکزیت پسند حکومت کے خلاف انتباہ کرتا ہے، جس میں چند لوگ اقتدار کے بڑے حصے پر قابض ہوتے ہیں۔ وہ ان نظریات کو ''لبرل‘‘ نظریات قرار دیتا ہے۔ یہ نظریات کلاسیکی لبرل روایت سے آئے ہیں، جس نے 18ویں اور 19ویں صدی میں محدود، مرکز گریز حکومت اور آزاد تجارت پر زور دیا تھا۔
کتاب میں فریڈمین نے معاشی آزادی کے تحفظ اور سیاسی آزادی کو ممکن بنانے کے لیے مسابقتی سرمایہ داری کے کردار پر اظہار خیال کیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی غور کیا کہ ایک ایسے معاشرے میں حکومت کو کیا کردار ادا کرنا چاہئے، جو آزادی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور آزاد منڈی کی معیشت یعنی جدید سرمایہ داری نظام کو زیادہ سے زیادہ معاشی سرگرمیوں کی اجازت دیتا ہے۔
آگے چل کر فریڈمین معاشی اور سیاسی آزادی کے مابین تعلق کو تلاش کرتا ہے۔ فریڈمین کا کہنا ہے کہ جس طرح کی معاشی آزادی سرمایہ دارانہ نظام فراہم کرتا ہے، وہ سیاسی آزادی کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام میں رضاکارانہ تعاون کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔
فریڈمین سرمایہ دارانہ معاشرے میں حکومت کے کردار کے لبرل تصور پر روشنی ڈالتا ہے۔ یہ کردار چند افعال تک محدود ہے، جیسے قانون اور معاہدوں کا نفاذ، املاک سے جڑے حقوق کا تحفظ اور اسی طرح کے دوسرے اقدامات۔ وہ سوال اٹھاتا ہے کہ اس طرح کے نظام کے اندر حکومت کا کیا کردار بنتا ہے، اور وہ کس طرح کارآمد ہو سکتی ہے۔
مصنف مالی اور مالیاتی پالیسی میں حکومت کے کردار پر روشنی ڈالتا ہے۔ فریڈمین کا استدلال ہے کہ تاریخ میں بڑے پیمانے پر معاشی افسردگی یعنی گریٹ ڈپریشن کی شدت بڑی حد تک فیڈرل ریزرو کے ناقص فیصلے کی وجہ سے ہوئی تھی۔
فریڈمین نے تعلیم اور سماج میں موجود امتیازی سلوک میں سرمایہ دارانہ نظام اور اس کو چلانے والی حکومت کے کردار پر بحث کی ہے۔ وہ اس میدان میں حکومت کے تعاون سے چلنے والے، پبلک سکولز سسٹم کے مقابلے میں سکول واؤچر سسٹم کی حمایت کرتا ہے، اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ سرمایہ داری نظام میں نسلی اور مذہبی امتیاز کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
سماجی بہبود کے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہوئے فریڈمین کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے تصور کا سرمایہ دارانہ نقطہ نظر سے جائزہ لیتا ہے۔ وہ اس پر زور دیتا ہے کہ کارپوریشنوں کی واحد ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے حصص یافتگان کے لیے زیادہ سے زیادہ رقم کما سکیں۔ وہ مختلف قسم کی اجارہ داریوں کا بھی جائزہ لیتا ہے، جن کے مداوے کے لیے حکومت کوشش کر سکتی ہے۔ فریڈمین لبرل ازم اور مساوات پسندی کے مابین کلیدی فرق کو اجاگر کرتے ہوئے آمدنی کی تقسیم کی مخالفت کرتا ہے۔ فریڈمین اور اس قبیل کے کئی دوسرے مغربی و مشرقی دانشور سرمایہ داری کے عشق میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ اسے ایک طرح کا بے داغ اور الہامی قسم کا نظام قرار دینے کی کوشش کی، جس میں کسی قسم کی تبدیلی و اصلاح کی گنجائش ہی نہیں۔ یہ لوگ دولت کی منصفانہ تقسیم اور عدم مساوات کے خاتمے کے لیے کسی قسم کی با معنی ریاستی مداخلت کو نا جائز قرار دیتے رہے۔ ان کے خیال میں عدم مساوات اور معاشی ناہمواری جیسے مسائل کا حل خود آزاد منڈی کی معیشت کے اندر پوشیدہ ہے، جو ایک خود کار سلسلۂ عمل میں ایسی ناہمواریوں کو درست کر دیتی ہے۔ ایک وقت تک بے حد مقبول ہونے کے بعد یہ نقطہ نظر خود اپنے ہی سلسلۂ عمل میں بے نقاب ہو گیا‘ اور دنیا اب اس بات پر متفق ہوتی جا رہی ہے کہ ریاستیں اپنی حدود کے اندر موجود معاشی و سماجی ناہمواریوں سے لا تعلق نہیں رہ سکتیں‘ اور معاشی انصاف کے بغیر آزادی کا کوئی تصور نہیں۔